• news
  • image

یورپی یونین کی جمہوریت اور انسانی حقوق سے"محبت"

دو روز قبل چھپے ایک کالم میں تفصیل سے بیان کرچکا ہوں کہ بلھے شاہ کے بتائے ”شک شبے“ کے موجودہ دور میں میرے چند صحافی دوستوں کی یورپین یونین کی دعوت پر برسلز موجودگی کو کس انداز میں مشکوک اور سنسنی خیز بنانے کی کوشش ہوئی۔ تحریک انصاف کے عشق میں گرفتار مبصرین نے اگرچہ یہ تاثر پھیلانے کی کوشش کی کہ پاکستان کے نمایاں ”ذہن سازوں“ کی وساطت سے طاقت ور اور خوش حال یورپی ملکوں کا اتحاد ہمارے ہاں آئندہ انتخاب بروقت ہوتے دیکھنا چاہ رہا ہے۔ اس کی یہ خواہش بھی ہے کہ مذکورہ انتخاب میں تحریک انصاف کے بانی اور قائد کو بھرپور حصہ لینے کا موقعہ فراہم کیا جائے۔ یہ بات توعرصہ ہوا یہ ”مبصرین“ طے کرچکے ہیں کہ انتخاب”صاف اور شفاف“ ہوئے۔ سابق وزیر اعظم کو ان میں حصہ لینے سے روکا نہ گیا تو تحریک انصاف اگر دو تہائی اکثریت سے نہیں تب بھی کم از کم تگڑی اکثریت کے ساتھ منتخب ایوانوں میں لوٹ آئے گی۔
سفارتکاری کا متجسس طالب علم ہوتے ہوئے میں یہ کہانی تسلیم کرنے کو ہرگز رضا مند نہیں تھا کہ پاکستان کے چند صحافیوں کے دل تحریک انصاف کی حمایت میں رام کرنے کے لئے انہیں یورپی یونین نے اپنے ہیڈکوارٹر مدعو کیا تھا۔ ”انسانی حقوق“ اور ”جمہوریت“ وغیرہ سے یورپی یونین کی محبت“ مجھ بدنصیب نے اپنی جوانی میں دیکھ رکھی ہے۔ جنرل ضیا جب اس ملک میں مارشل لاءکے جبری جاہ وجلال کے ساتھ برسراقتدارتھے تو میرے چند صحافی ساتھیوں کو ٹکٹکی سے باندھ کر کوڑے لگائے گئے تھے۔ ہماری دی خبریں اور جید کالم نگاروں کی تحاریر اخبار میں چھپنے سے قبل ”کلیئرنس“ کے لئے بھجوائی جاتی تھیں۔ یورپی یونین مگر اس گماں میں مبتلا رہی کہ جنرل ضیاءکی حکومت ”جمہوری آزادیوں سے مالا مال“ امریکہ اور یورپی ممالک کو ”بچانے“ کے لئے ان کے اصل دشمن یعنی سوویت یونین کو افغانستان میں گھیرے میں لئے ہوئے ہے۔ ہمارے فوجی آمر ”آزاد دنیا“ کی جانب سے ہر نوع کی امداد ومعاونت کے مستحق ہیں۔
جنرل مشرف بھی یورپی یونین کے کافی لاڈلے تھے۔ یورپی ملکوں میں وہ ”روشن خیال“ تصور ہوتے تھے۔ اس کے علاوہ یورپی یونین کو یہ گماں بھی لاحق رہا کہ بلدیاتی اداروں کی تشکیل کے ذریعے وہ ”اقتدار کونچلی سطح پر منتقل“ کرتے ہوئے پاکستان میں ”اصل اور دیریا“جمہوری نظام قائم کرنا چاہ رہے ہیں۔ افغانستان میں جاری ”وار آن ٹیرر“ میں ان کی بھرپور معاونت تو ویسے بھی ان پر صدقے واری جانے کا تقاضہ کرتی تھی۔جنرل ضیا اور جنرل مشرف کے دنوں میں ایک متحرک رپورٹر ہوتے ہوئے اپنے ذاتی تجربات ومشاہدے کی بدولت میں یورپی یونین کی ”جمہوریت اور انسانی حقوق“ سے ”محبت“ کی محدودات سے لہٰذا خوب واقف ہوں۔ مختصراََیہ عرض کروںگا کہ شیکسپیئر کے بتائے ”لفظ،لفظ(اور)لفظ“ہیں۔ اس کے سوا کچھ بھی نہیں۔
میرے جو ساتھی برسلز گئے تھے ان سے میری ملاقات نہیں ہوئی۔ ان میں سے دو نے البتہ ٹیلی فون پر میرا ”شکریہ“ ادا کرتے ہوئے شرمندہ کردیا۔ شہباز رانا کی لکھی ٹویٹ نے بھی ایسا ہی ظلم کیا۔ انہیں سمجھانے میں دِقت ہوئی کہ ان کے دورئہ برسلز کی بابت جو کالم میں نے لکھا تھا وہ ان کی بے جاحمایت کا ا ظہار نہیں تھا۔ حقائق کو فقط سفارتکارانہ تناظر میں رکھ کر بیان کرنے کی پیشہ وارانہ کاوش تھی۔
مقامی سے زیادہ چند عالمی اور خاص طورپریورپی میڈیا میں نمایاں طورپر ان دنوں زیر بحث موضوعات کا بغور جائزہ لیتے ہوئے میں نہایت اعتماد سے یہ دعویٰ کرسکتا ہوں کہ یورپی یونین میں شامل ممالک پاکستان جیسے غریب ملکوں میں ”اصل جمہوریت“ کے نفاذ کے بجائے اس امر کے لئے دباﺅ بڑھانے کی تیاری کررہے ہیں کہ وہ اپنے شہریوں کے غیر قانونی طورپر یورپی ممالک میں داخلے کو مشکل تر بنائیں۔یورپ میں اگر کوئی غیر قانونی تارک وطن پکڑا جائے تو اس کی نشاندہی کے بعد اس کا آبائی وطن اس کی ”واپسی“ قبول کرنے کے لئے ہمہ وقت آمادہ ہو اور وطن لوٹنے کے بعد اسے عبرت ناک سز ا کا نشانہ بھی بنائے۔یورپی یونین میں شامل ممالک کے سربراہان اور وزرائے اعظم پر مشتمل کونسل یورپی پارلیمان کو اس ضمن میں متعدد قوانین متعارف کروانے کو مجبور کررہی ہے۔ان میں یہ تجویز بھی شامل ہے کہ جو ممالک اپنے شہریوں کی غیر قانونی انداز میں یورپ میں داخلے کی ٹھوس انداز میں ”حوصلہ شکنی“ نہ کریں ان سے جی ایس پی جیسی سہولتیں واپس لے لی جائیں۔ یاد رہے کہ مذکورہ بندوبست یعنی جی ایس پی کے تحت پاکستان کو ٹیکسٹائل کی مصنوعات یورپ برآمد کرنے میں کافی آسانیاں فراہم کی جاتی ہیں۔
اندھی نفرت وعقیدت میں تقسیم ہوئے پاکستان میں ان دنوں عالمی امور پر کماحقہ توجہ نہیں دی جارہی۔ اس کی بدولت ہمارے عوام یہ سمجھنے سے قطعاََ قاصر ہیں کہ گزشتہ اپریل سے ان پر نازل ہوئے معاشی عذاب کا کلیدی سبب عالمی منڈی میں پیٹرول کے نرخ بھی ہیں جن میں روس کے یوکرین پر حملہ آور ہونے کے بعد ناقابل برداشت اضافہ ہوا۔ برطانیہ میں ان دنوں بجلی اور گیس کی قیمتیں آسمان کو چھورہی ہیں۔اگرچہ اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ ہم اپنے اجتماعی اور برسوں سے جاری غیر ذمہ دارانہ پالیسیوں کو موجودہ اقتصادی بحران کا ذمہ دارنہ ٹھہرائیں۔غذائی اجناس خاص طورپر گندم کی قلت میں بھی یوکرین پر ہوئی وحشیانہ بمباری نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس طرح ہم یہ بات ابھی تک سمجھ نہیں پائے ہیں کہ گزشتہ دو دہائیوں سے یورپی ممالک تارکین وطن کے شدید مخالفت ہورہے ہیں۔ہمارے ہاں اسے ”اسلاموفوبیا“ بیان کرتے ہوئے محض مذہبی تعصب تصور کیا جاتا ہے۔ مذہبی تعصب سے کہیں بڑھ کر معاملہ مگر نسلی تعصب کا ہے۔یورپ میں تیزی سے بڑھتی بے روزگاری کا سبب تارکین وطن کو ٹھہرایا جارہا ہے جو مشکل ترین مزدوری سستے داموں کرنے کو تیار ہیں۔ پاکستان اور شام جیسے ملکوں سے آئے تارکین وطن کو اپنی مشکلات کا کلیدی سبب بتانے والے محض لوگوں کے جذبات سے کھیل رہے ہیں۔ ان کے پاس اپنا دعویٰ ثابت کرنے کے لئے ٹھوس اعدادوشمار موجود نہیں۔ٹھوس اعدادوشمار بلکہ یہ بتاتے ہیں کہ تارکین وطن کسی بھی ملک کی معیشت میں رونق لگانے کے لئے اہم ترین کردار ادا کرتے ہیں۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن