گھورگھپ اور اتھاہ اندھیرا
اقوام متحدہ میں اسرائیل نے بالواسطہ طور پر حقیقی آزادی کے حق میں اور پاکستان کے خلاف بیان دے کر تہلکہ مچا دیا
یہ اسرائیل کیا بروقت بولا
تیری آواز حیفے تل ابیبے
ہر کوئی اس بیان کی مذمت کر رہا ہے۔ فلسطینیوں کو ہر روز گولی مار کر شہید کرنے والے اسرائیل کو پاکستان میں حقیقی آزادی کے حوالے سے انسانی حقوق کی یاد آ گئی۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن نے کمال کیا، اپنے بیان میں اقرار کر لیا کہ پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتحال مسلسل بہتر ہو رہی ہے۔ (اگرچہ یہ رفتار مدّھم ہے)۔ دفتر خارجہ نے کہا، اسرائیل انسانی حقوق پر اپنا ریکارڈ دیکھے، شیری رحمن اور عطا تارڑ نے کہا کہ عمران اسرائیل گٹھ جوڑ سامنے آ گیا۔ مولانا طاہر اشرفی نے نے کہا ، اسرائیل نے جس کے حق میں بات کی، قوم سوچے کہ وہ کون ہے۔ مصدق ملک نے کہا اسرائیل نے جن کے حق میں بیان دیا، وہ اس کا جواب دیں۔ ہر کوئی اسرائیل کی مذمت کر رہا ہے۔
لیکن معاف کیجئے گا، مجھے اسرائیل پر ترس آ رہا ہے۔ پاکستان کے خلاف اس کا بیان احتجاج کی صدا سے زیادہ ایسے شخص کی فریاد لگا جس کی سرمایہ کاری ڈوب گئی ہو یا ڈوبنے کے قریب ہو۔
یہودی قوم سرمایہ کاری میں بہت سیانی ہے۔ سوچ سمجھ کر، منصوبہ بندی کے ساتھ، ”مقامی سہولت کاروں“ کی ضمانتوں اور گارنٹیوں کے ساتھ ہی سرمایہ کاری کرتی ہے۔ یہ سب کچھ کیا، پھر بھی سرمایہ کاری ڈوب گئی، لب پر حرف فریاد تو آنا ہی تھا۔
____
کسی کو حکیم سعید شہید کی کتاب یاد آئی، کسی کو ڈاکٹر اسرار مرحوم کا خطبہ یاد آیا، کسی کو عبدالستا ایدھی کی داستان الم یاد آئی۔ کسی کو 2018ئ میں حکومت بنتے ہی قومی اسمبلی میں حقیقی آزادی کی وہ مجاہدہ یاد آئی جس نے یہودیوں کو مسلمانوں کا بھائی قرار دے کر اسرائیل کو تسلیم کرنے کا مطالبہ کیا تھا (آج کل یہ ”مجاہدہ“ غائب ہیں)
کسی کو جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب صاحب یاد آئے جو ٹی وی سکرینوں پر مسلسل جلوہ افروز ہوتے اور اسرائیل کے فضائل بیان فرماتے تھے۔ شو کا ٹائم ختم ہو جاتا تھا لیکن اسرائیل کے فضائل ختم ہونے میں نہیں آتے تھے۔ لیکن ٹھہرئیے، ہر شو میں وہ اسرائیل کے فضائل بیان نہیں کرتے تھے۔ ایک پروگرام اگر اسرائیل کے فضائل کیلئے مختص ہوتا تھا تو دوسرا حقیقی آزادی کے قائد تبدیلی مآب کالی بالٹی سرکار کے فضائل کیلئے مخصوص ہوتا تھا۔ بہتوں کو بہت کچھ یاد آیا، لیکن مجھے وہ طیارہ یاد آیا جو حقیقی آزادی کے برسراقتدار آنے کے کچھ ہی عرصے بعد، اکتوبر 2018ءکو اسلام آباد ایئر پورٹ اترا تھا۔ اسرائیلی حکومت کا یہ جہاز پاکستان میں داخل کیسے ہوا، یہ ایک راز ہے۔ یہ جہاز ایک گھنٹہ سے زیادہ کھڑا رہا، اس دوران کیا ہوتا رہا، اس میں اسرائیل کے کتنے وزیروں اور جنرلوں پر مشتمل وفد تھا اور پاکستان سے حقیقی آزادی کے سالار اعلیٰ سمیت کتنے اور لوگوں نے اس جہاز کے اندر جا کر باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کیا، الفت کے قول و قرار دہرائے، یہ سب بھی ایک راز ہے۔
____
باہمی دلچسپی کے امور سے یاد آیا، اسرائیل نے اقوام متحدہ میں حقیقی آزادی کی تشریح مزید کرتے ہوئے اس بات پر بھی تشویش ظاہر کی کہ پاکستان میں ہم جنس پرستوں کے ساتھ موجودہ سرکار اچھا سلوک نہیں کر رہی۔ باہمی دلچسپی کے امور اور حقیقی آزادی کے اہم ترین نکات میں سے یہ نکتہ خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔
باہمی دلچسپی کے امور سے مزید یاد آیا۔ اسرائیل جب بھی فلسطینیوں کی نسل کشی کی مہم چلاتا ہے، پاکستان کی ہر سیاسی مذہبی سماجی تنظیم اس کی شدید مذمت کرتی ہے۔ بہت سی تنظیمیں تو جلوس بھی نکالتی ہیں لیکن حقیقی آزادی کی انجمن نے آج تک فلسطینیوں کی نسل کشی، ان پر بمباری، ان کے گھر مسمار کرنے کے خلاف بیان تو کیا، ایک ، محض ایک لفظ احتجاج بھی منہ سے نکالنے سے پرہیز ہی کیا۔ یہ پرہیز باہمی دلچسپی کے رشتے کی مضبوطی کا ٹھوس اشارہ ہے۔
____
حقیقی آزادی والے جن دنوں اسرائیل کے حق میں مہم چلا رہے تھے تو ایک ”خوش زبان“ کالم نویس بھی اس مہم میں بڑھ چڑھ کر شریک تھے۔ ایک پروگرام میں وہ اتنا بڑھے اور پھر اتنا چڑھے کہ فرما دیا، ہمیں تو حکم ہے کہ یہودیوں پر درود بھیجو۔ انہوں نے درود ابراہیمی میں آل ابراہیم پر درود کا ذکر کیا۔
آل ابراہیم کی تشریح انہوں نے غالباً تالمود سے لی ہو گی۔ قرآن میں تشریح کچھ اور ہے، یہ کہ سرکش اور نافرمان نہ آل میں رہتے ہیں نہ اہل میں۔ حضرت نوح علیہ السلام نے جب فریاد کی کہ اے خدا، تو نے وعدہ کیا تھا، میری آل کو بچا لے گا لیکن میرا بیٹا تو ڈوب گیا۔ خدا نے جواب دیا اے نوح، تیرا بیٹا تیری آل و اہلِ بیت سے نکل گیا کیونکہ وہ سرکش اور نافرمان تھا۔ آل ابراہیم سے مراد وہ لوگ ہیں جو مرتے وقت تک دین ابراہیمی پر رہے، سرکشی کر کے دین ابراہیمی کو بدل نہیں ڈالا۔ لیکن کیا کیجئے، ایسے دانشور قرآن کو نہیں، تالمود کو مانتے ہیں اور مانے چلے جا رہے ہیں۔
____
-11مئی کو اسرائیل کا بیان اہالیان ِمحلّہ حقیقی آزادی کے لیے خوشخبری بن کر آیا تو اسی روز ایک دوسری خوشخبری اہالیان محلّہ آزادی (محض آزادی، حقیقی نہیں) والوں کے لیے بھی لانا یعنی سعودی عرب نے دو ارب ڈالر پاکستان کے حوالے کر دئیے۔ اس دوران آزادی محض کے علمبردار نواز شریف سعودی عرب موجود تھے۔ وہ ابھی کچھ دن مزید سعودی عرب میں رہیں گے، وہاں سے لندن اور پھر اطلاعات کے مطابق 14 اگست کو پاکستان واپس آ جائیں گے۔ اس دوران سعودی عرب سے مزید خوشخبریاں آ سکتی ہیں۔
بہرحال۔ حقیقی آزادی کی آخری امید پاکستان کے اندر ا یک ادارے سے اور بیرون ملک آخری امید اس بیان سے وابستہ تھی جو کل جاری ہو گیا۔ پاکستان کے اندر سے امید مدّھم پڑتی جاتی ہے اور جنتری بتاتی ہے کہ وسط ستمبر میں یہ شمع امید بجھ جائے گی۔ شمع تل ابیب نے بھی جو چاند چڑھانا تھا، چڑھا دیا۔ باقی بچا گھور گھپ اور اتھاہ اندھیرا۔
____