بھارت کی ایک بار پھرآبی جارحیت۔
بھارت نے ہر سال کی طرح ایک بار پھر دریاوں میں اچانک پانی چھوڑ دیا ہے جس سے پنجاب کے کئی علاقوں میں سیلاب کی وارننگ جاری کردی گئی ہے۔ بھارت ہر سال مون سون کے موسم میں اسی طرح جب بارشیں ہورہی ہوتی ہیں اور بارشوں کے پانی سے پاکستانی دریا¶ں میں پانی کی سطح انتہائی بلند ہوتی ہے تو عین انہی دنوں بھارت پاکستان کو ڈبونے کے لئے دریا¶ں میں پانی چھوڑ دیتا ہے جس سے کئی علاقے زیر آب آجاتے ہیں اور عوام کی بہت بڑی تعداد کو نقل مکانی کرنا پڑتی ہے۔ بھارت یہ سب اسی لئے کرتا ہے کہ اسے معلوم ہے کہ پاکستانی قوم نے ایوب خان کی حکومت کے بعد سے اپنے آبی وسائل سے استفادہ نہیں کیا اور کوئی ڈیم نہیں بنایا۔ اسی لئے پانی اس قوم کے لئے صرف زحمت ہی بنے گا۔ اگر ہم جگہ جگہ ڈیم بنالیں تو بھارت بطور رحمت ہمارے لئے کبھی بھی دریا¶ں میں پانی نہیں چھوڑے گا۔
کچھ عرصہ قبل وزیراعظم شہباز شریف نے ڈیم نہ بناکر ملک کو اندھیروں میں ڈبونے اور ملک کو بحرانوں کی نذر کرنے کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ 1975ئ سے لیکر آج تک جتنی حکومتیں آئی ہیں‘ انہوں نے ڈیمز کی تعمیر پر توجہ نہیں دی جس کی وجہ سے آج ملک اندھیروں اور بدترین بحرانوں کا شکار ہے۔ وزیراعظم کا یہ اعتراف قابل تعریف ہے لیکن اب اس بدترین نااہلی پر رجوع کرنے کا وقت ہے اور سیاستدانوں کو اپنے روایتی رویئے تبدیل کرنے ہوں گے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ڈکٹیٹرز نے تو پھر بھی ڈیم‘ نہریں اور دریا¶ں پر پل بنائے اور ملک میں کئی بڑے کام ہوئے‘ لیکن بدقسمتی سے سیاستدانوں نے ملک کے ساتھ کھلواڑ کیا۔ سیاستدان قوم کے بہترین مفاد کے کسی بھی منصوبے پر اتفاق رائے پیدا نہ کرسکے اور ہمیشہ ایک دوسرے کی کردار کشی کرکے ملک کو بحران در بحران کا شکار کئے رکھا۔ آج حالت یہ ہے کہ دنیا بھر میں بہترین قدرتی آبی وسائل رکھنے والا ملک پانی کے بدترین بحران سے دوچار ہے اور خوراک میں خودکفالت خواب بن گئی ہے حالانکہ ہم اپنے ملک کے قدرتی آبی وسائل سے استفادہ کرتے تو دنیا بھر کو خوراک برآمد کرتے لیکن آج ہم دنیا کی غیر معیاری ترین گندم مہنگے داموں درآمد کرنے پر مجبور ہیں۔بروقت بڑے ڈیمز کی تعمیر سے ہم دوسرے ملکوں کو بجلی فروخت کرنے کی پوزیشن میں ہوتے لیکن بدقسمتی سے ہم بجلی کی پیداوار کے لئے سالانہ بھاری نقصانات کا شکار ہونے کے باوجود ملک بھر میں بلاتعطل بجلی کی فراہمی میں طویل عرصے سے مسلسل ناکام ہیں اور خطے میں مہنگی ترین بجلی بھی ضرورت مطابق پیدا کرنے کی معاشی پوزیشن سے عاری ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ زراعت کے لئے وافر پانی کی فراہمی سے عاری ہیں لیکن مون سون میں آدھا ملک سیلاب میں ڈوب جاتا ہے۔ بدقسمتی سے ہم اپنے ماضی کی حماقتوں سے سبق سیکھنے کے لئے قطعی تیار نہیں ہیں۔دھیرے دھیرے ملک کو ایسے حالات سے دوچار کردیا گیا ہے کہ آج محب وطن تمام پاکستانی جھولیاں پھیلا کر یہ دعائیں مانگنے پر مجبور ہوچکے ہیں کہ اے ا?!جس جس سیاستدان نے بھی ملک کو ان بحرانوں سے دوچار کیا ہے‘ انہیں دنیا کے لئے نشان عبرت بنادے اور ملک کا اختیار یا تو ان سے چھین لے یا انہیں نیک ہدایت عطا فرما۔ بطور مجموعی سیاستدانوں نے اپنی انا اور ضد کی خاطر ملک کو معاشی بحران‘ توانائی بحران‘ پانی بحران‘ خوراک بحران‘ سیاسی بحران سمیت صرف بحران ہی بحران عطا کئے ہیں اور اپنے ذاتی اقتدار کی خاطر یہ مسلسل قوم کا نقصان کرتے چلے آئے ہیں۔ سیاستدانوں کا یہ نظریہ رہا ہے کہ اسی وقت ملک اور جمہوریت مستحکم ہوگی جب ہم خود اقتدار میں ہوں گے ورنہ ملک اور جمہوریت کو خطرات لاحق ہیں اور کبھی بھی یہ وسیع تر قومی مفاد میں یکجا نہیں ہوئے۔ جب کبھی یکجا ہوئے بھی ہیں تو صرف اپنے ذاتی اقتدار کی خاطر۔ قوم کو اب اندازہ بھی ہوچکا ہے کہ ملک کو یہاں تک پہنچانے کا ذمہ دار کون ہے۔
جب تربیلا ڈیم بنا تھا اس کے فوری بعد انتہائی سستا دور تھا جب کالا باغ ڈیم کی تعمیری لاگت 7ارب ڈالر کے لگ بھگ تھی تو فوری طور پر منڈا ڈیم‘ اکھوڑی ڈیم‘ کالا باغ ڈیم اور مختلف ڈیم بنائے جاتے۔ میرے خیال سے یہ سارے ڈیم ملاکر اس وقت 15ارب ڈالرز میں تعمیر ہوجاتے اور پاکستان پانی و بجلی کی ضرورت میں خودکفیل ہوجاتا۔اب بھی وقت ہے کہ B.O.T.کی بنیاد پرعالمی معاہدے کرکے زیادہ سے زیادہ آبی ذخائر اور ہائیڈل پاور پروجیکٹس کی تعمیر ہنگامی بنیادوں پر شروع کردی جائے۔ سب سے پہلے قومی اسمبلی میں بین الصوبائی دریائی پانی کی تقسیم کا نیا فارمولا طے کرکے اسے آئینی شکل دی جائے اور صوبوں کے اس آئینی حق پر ہر صورت عملدرآمد ہونا چاہئے۔ خصوصاً سندھ صوبے کی نہری پانی کی سال بھر کی ضرورت کی بروقت بلاتعطل فراہمی کو یقینی بناکر اسے آئینی تحفظ دیا جانا ضروری ہے۔ صوبوں کے درمیان باہمی پانی کی فراہمی پر کبھی بھی تنازعہ نہیں ہونا چاہئے۔ یہ کام تو فوری طور پر موجودہ حکومت کو کرنا چاہئے۔
بے نظیر بھٹوشہید نے کالا باغ ڈیم کا نام تبدیل کرکے ”انڈس ڈیم“ رکھ کر تعمیر پر آمادگی ظاہر کی تھی۔ انڈس ڈیم کی تعمیر سے قبل سندھ کی چھوٹی بڑی تمام نہروں کو پختہ کردیا جائے اور سندھ کی سال بھر کی ضرورت کا وافر پانی سندھ میں ہی موجود ہونا چاہئے جس کے لئے سندھ میں 3چھوٹے ڈیم سیہون‘ خیرپور میرس اور جامشورو کے مقام پر فوری طور پر تعمیر کئے جائیں۔ اگر سندھ کی سال بھر کی ضرورت کا وافر پانی صوبے میں ہی دستیاب ہوگا اور چھوٹی بڑی تمام نہریں پختہ ہوجائیں گی تو پھر انڈس ڈیم کی تعمیر کا آغاز کرنے میں سندھ کو ویسے بھی کوئی اعتراض باقی نہیں رہے گا۔بھارت کی آبی جارحیت پر اسکی مذمت‘ عالمی فورمز پر احتجاج اس کا حل نہیں ہے۔ اس کا حل صرف یہی ہے کہ ہم ہنگامی بنیادوں پر اپنے دستیاب آبی وسائل سے استفادہ کے لئے B.O.T.کی بنیاد پر زیادہ سے زیادہ چھوٹے بڑے ڈیموں کی تعمیر کا آغاز کریں۔وزیراعظم شہباز شریف کو چاہئے کہ اپنی حکومت کی آئینی مدت کی تکمیل سے قبل آبی وسائل سے بھرپور استفادہ کے لئے چھوٹے بڑے ڈیموں کی تعمیر اور فلڈ کینالز کی تعمیر کے لئے متعلق مشاورت کرکے اہم منصوبوں کا آغاز کرجائیں کیونکہ اس وقت ملک بھر کی تمام نمائندہ جماعتیں ان کی حکومت کا حصہ ہیں اور ان کے لئے اس معاملے پر اتفاق رائے بہت آسان ہوچکا ہے۔