پاکستان کیخلاف مودی کی ہرزہ سرائی اور اسلامو فوبیا
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو حالیہ دورہ امریکہ کے دوران دیئے گئے غیرمعمولی پروٹوکول‘ امریکی انتظامیہ سے کئے دوطرفہ مذاکرات‘ ایپل‘ مائیکروسافٹ‘ گوگل اور ناسا کے امریکی اور بھارتی نڑاد چین ایگزیکٹو آفیسرز کی انرجی اور جدید کمیونیکیشن ٹیکنالوجی کے حوالے سے امریکی صدر جوبائیڈن اور مودی کے درمیان بات چیت‘ 2 بلین ڈالرز سے زائد کی سرمایہ کاری اور جنوبی ایشیاءمیں بھارت کو خطے کا مضبوط جمہوری اور معاشی ملک قرار دیئے جانے پر امریکی انتظامیہ کے جانبدارانہ رویے سے یہ بات تو صاف عیاں ہو گئی کہ امریکہ پاکستان سمیت خطے کے دیگر ممالک کو بھارت کے زیرتسلط رکھنا چاہتا ہے تاکہ انرجی‘ ٹیکنالوجی‘ تجارت اور مالی قرضوں کا شکار ممالک کی معیشت میں استحکام پیدا نہ ہو سکے۔ لاکھوں مظلوم کشمیریوں پر ظلم و بربریت کے ذمہ دار مودی کے اس امریکی دورہ کا ہی یہ اعجاز تھا کہ بھارت پہنچتے ہی اس نے پاکستان کیخلاف زہر اگلنا شروع کر دیا۔ اپنے خطاب کے دوران مودی نے پاکستان کیخلاف ہرزہ سرائی کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے حوالے سے ہم نے پہلے ہی بہت وقت ضائع کر دیا ہے۔ بھارت کو اب ترقی یافتہ دنیا میں قدم رکھنا ہے اس لئے پاکستان کا ذکر چھوڑ دو‘ یہ اپنی موت آپ ہی مر جائیگا۔ ہمیں دنیا کے ساتھ مزید دترقی کی جانب اب قدم بڑھانا ہے۔ اس لئے بحیثیت قوم ہمیں جدید ٹیکنالوجی‘ ملکی تجارت اور ترقی یافتہ ممالک سے معیشت کے استحکام کیلئے اقدامات کرنے ہیں۔ پاکستان کے بارے میں استعما ل کئے مودی کے ان نازیبا الفاظ پر حکومت پاکستان نے فوری ردعمل کا اظہار کیا۔ خارجی سطح پر شدید مذمت ہوئی؟ اور سب سے بڑھ کر بھارتی وزیراعظم کے ان الفاظ پر کہ پاکستان اپنی موت آپ مر جائیگا‘ سفارتی سطح پر جواب طلب کیا گیا؟ مجھ سمیت کشمیریوں اور برطانوی پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد حکومت پاکستان کے موقف کے بارے میں منتظر ہے۔
حب الوطنی کے جذبہ سے سرشار برطانوی پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد جو وزیر دفاع خواجہ آصف صاحب کی ”دفنانے“ کے حوالے سے قومی اسمبلی میں کی گئی حالیہ تقریر پر ابھی تک حالتِ غم سے دوچار تھی کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی پاکستان کیخلاف ہرزہ سرائی کا یہ پہلو سامنے آگیا جس کی بنیادی وجہ پاکستان میں بڑھتی سیاسی کشیدگی اور وہ معاشی عدم استحکام ہے جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بھارتی وزیراعظم نے پاکستان کے بارے میں انتہائی غیرمناسب اور توہین آمیز الفاظ استعمال کئے۔ ہماری سیاست میں اخلاقیات‘ قوت برداشت اور مثبت سوچ چونکہ اختتام پذیر ہوتی چلی جا رہی ہے اس لئے ہمارا دشمن ملک بھارت بھی ہمیں اب طعنے دینے کی روش پر چل نکلا ہے۔ ان حالات میں اتحاد و یکجہتی اور اپنے مثبت عمل و کردار سے بھارت کا مقابلہ کرنا ہے۔ میری دانست میں شنگھائی تعاون تنظیم کے حالیہ ورچوئل اجلاس میں ہمارے وزیراعظم محمد شہبازشریف کو بھارتی وزیراعظم مودی سے پاکستان کے حوالے سے کی تقریر میں پاکستان کیخلاف استعمال کئے انکے انتہائی غیرذمہ دارانہ الفاظ پر بھرپور احتجاج کرنا ہر حال میں لازم تھا۔ احتجاج اگر کیا تو نتیجہ کیا نکلا‘ قوم کو یہ بتانا ضروری ہے۔ اسلامو فوبیا کا ایک اور واقعہ اگلے روز سویڈن میں رونما ہوا جس کے بارے میں عالمی سطح پر مذمتوں کا سلسلہ تاہنوز جاری ہے۔ قرآن پاک کی بے حرمتی اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کے ایسے واقعات یورپی ممالک میں پہلی یا دوسری دفعہ نہیں ہوئے‘ فرانس‘ سویڈن‘ بیلجیم‘ ناروے سمیت کئی ممالک میں تسلسل سے ایسے واقعات رونما ہو چکے ہیں۔ بعض صہیونی قوتیں جو دین اسلام کے مفہوم سے بخوبی آگاہ ہونے کے باوجود دنیاس بھر کے مسلمانوں کے جذبات مجروح کرنے پر تلی ہوئی ہیں‘ اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کیلئے مسلمانوں میں سے ہی اب ایسے نوجوانوں کا انتخاب کر رہی ہیں جن کے نام اسلامی ہیں۔ اس مرتبہ عیدالاضحی کے موقع پر پیش آنیوالے انتہائی افسوسناک واقعہ میں دو عراقی نڑاد سویڈش ملعونوں نے مسجد کے عین سامنے قرآن پاک کو نذر آتش کرکے دنیا بھر میں پھیلے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے عقائد کی کھلے عام توہین کی ہے۔ ان ملعونوں کو علم تھا کہ اظہار آزادی رائے کے لبادہ میں سویڈش قانون اور دنیا کے 58 مسلم ممالک کی تنظیم او آئی سی بھی شدید مذمت اور شدید نفرت سے زیادہ ان ناپسندیدہ ملعونوں کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکے گی اس لئے پہلے سے طے شدہ اس شیطانی منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کیلئے اظہار آزادی رائے کے سویڈش قانون کو استعمال کرتے ہوئے ان ملعونوں نے پولیس کی موجودگی میں قرآن پاک نذر آتش کیا۔ سوال یہاں یہ اٹھتا ہے کہ مغربی دنیا میں ہر چوتھے روز مسلمانوں کیخلاف ایسے گھناﺅنے نے واقعات، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین اور قرآن پاک کی بے حرمتی کا ترقی یافتہ ممالک نے ابھی تک کوئی نوٹس لیا؟ مسلم ممالک کے احتجاج پر مذکورہ ممالک نے کوئی حل نکالا؟ جواب اس لئے بھی نفی میں ہے کہ امت مسلمہ کا سب سے بڑا مسئلہ ہی یہ ہے کہ ان میں اتحاد و یکجہتی کا فقدان ہے۔ محض ٹائر جلانے‘ نعرے لگانے یا سفارتخانوں کے سامنے احتجاج کرنے سے یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا کہ اسلامو فوبیا کے بارے میں امت مسلمہ کو ابھی بہت کام کرنا باقی ہے تاہم پاکستان اقوام متحدہ میں اسلاموفوبیا کے للاف قرارداد منظور کرانے میں کامیاب ضرور ہوا جس کے تحت ہر سال 15 مارچ کو پرامن اسلام کا دن منانے کا فیصلہ ہوا۔ سویڈن حکومت پر لازم ہے کہ اپنے آزادی اظہار رائے کے قانون میں ہر مذہب اور عقائد کا احترام کرتے ہوئے اس میں شق شامل کرے کہ کسی بھی مذہب کی توہین پر سنگین سزا دی جائیگی۔