بلدیاتی چنائو کیلئے لاہور 402یونین کونسلوں میں تقسیم
ندیم بسرا
رواں برس ملک کے سیاسی نقشے پر کئی تبدیلیاں متوقع ہیں۔ایک طرف تو یہی کہا جارہا ہے کہ الیکشن ہونے والے ہیں ان انتخابات کے لیے تیاریاں بھی شروع ہو چکی ہیں۔سیاسی جماعتوں کی خواہش ہوتی ہے کہ اسمبلیاں مقررہ مدت پوری کریں پھر انتخابی مراحل طے کیے جائیں۔نومبر میں الیکشن ہونے کی نوید سنائی جارہی ہے۔اس حوالے سے وزیراعظم شہباز شریف کہہ چکے ہیں کہ ہماری حکومت کی مدت 14 اگست کو ختم ہو جائے گی۔ الیکشن اکتوبر، نومبر جب بھی ہوں گے الیکشن کمیشن تاریخ کا اعلان کرے گا۔وزرائے اعظم آتے جاتے رہتے ہیں۔آج آئی ایم ایف بورڈ کا اجلاس ہے، ہم سب کی یہی دعا ہے ہمارا آئی ایم ایف کا پروگرام منظور ہو جائے، یہ لمحہ فخریہ نہیں یہ لمحہ فکریہ ہے۔ ہم سے پہلے بھی ایسی مثالیں موجود ہیں قومیں مشکلات میں اپنی کمر کستی ہیں۔ اس صورت حال پر جاپان اور جرمنی سے زیادہ مؤثرمثال کوئی نہیں ہو سکتی ۔وزیراعظم نے کہا کہ ہمیں فیصلہ کرنا ہے، ایک سوچ کے تحت متحد ہو جائیں، آج ہم جگہ جگہ جا کر ملک کو ڈیفالٹ سے بچانے کیلئے ادھار مانگ رہے ہیں، آئی ایم ایف کی منتیں کر رہے ہیں، زندگی بسر کرنے کا یہ کوئی مناسب طرز عمل نہیں ہے۔
ایک اطلاع کے مطابق الیکشن کمیشن کی نئی حلقہ بندیوں کے بعد بلدیاتی چناؤ کیلئے 402 یونین کونسلز پر مشتمل لاہور کا نیا نقشہ تیار کرلیا گیاہے۔الیکشن کمیشن نے محکمہ بلدیات کو بلدیاتی الیکشن بارے تیاریاں مکمل کرنے کے احکامات دے دئیے ہیں۔ شہر کے نئے نقشہ میں 128 نئی یونین کونسلز شامل کی گئی ہیں۔ نقشہ کے مطابق لاہور یونین کونسلز کے اعتبار سے ملک کا سب سے بڑا شہر بن گیا۔ لاہور کا نیا نقشہ پانچ حصوں پر مشتمل ہے۔ پرانے نقشہ میں 274 جبکہ نئے نقشے میں 402 یونین کونسلیں رکھی گئی ہیں۔
نئے نقشہ کے مطابق تحصیل سٹی 146 یونین کونسلز پر مشتمل ہے۔ یونین کونسل نمبر 147 سے 238 تحصیل شالیمار میں ہیں۔ تحصیل کینٹ یونین کونسل نمبر 239 سے 260 پر مشتمل ہے۔ تحصیل ماڈل ٹاؤن میں یونین کونسل نمبر 261 سے 368 موجود ہیں۔ تحصیل رائیونڈ یونین کونسل نمبر 369 سے 402 پر مشتمل ہے۔ نیا نقشہ الیکشن کمیشن کی حلقہ بندیوں کے بعد تیار کیا گیا ہے۔نئے نقشے کی منظوری کے لئے گزٹ نوٹیفکیشن کی سمری تیار کر لی گئی۔ سمری کابینہ کمیٹی کے اجلاس میں بھجوائی جائے گی۔
اب ایک طرف عام اور بلدیاتی انتخابات کی باتیں زوروں پر ہیں تو صورت حال یہ ہے کہ جن اداروں اور نگران حکومتوں کے ساتھ مل کر الیکشن کروانے ہیں ان کی انتظامی عدم توجہی کے باعث عوام مہنگائی ،بے روزگاری کے ساتھ ساتھ بد انتظامی کا بھی شکار چلے آ رہے ہیں ۔ کوئی بھی ادارہ ڈھنگ سے کام کرنے کو تیار نہیں ۔اگر پنجاب کے بیوروکریٹس کے ہیڈکوارٹر سول سیکرٹریٹ کی بات کریں تو وہاں آئے روز کوئی نہ کوئی احتجاج کی کال دیے بیٹھا ہوتا ہے۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ تین چار روز سے ہزاروں سرکاری ملازمین کی تنظیمیں سیکرٹریٹ کے باہے تنخواہوں کے مسئلے پر مطالبات کے سلسلے میں شہر بھر کا کاروبار زندگی مفلوج کئے ہوئے ہیں۔ سول سیکرٹریٹ کے صدر دروازے کے باہر دھرنا دے کر بیٹھے مظاہرین نے دائیں بائیں اور سامنے سے آنے والی سڑکوں کو مکمل بند کر کے عام شہریوں کیلئے پورے شہر کی ٹریفک کو وبال جان بنا رکھا ہے۔ صبح سے شام یہ سلسلہ جاری ہے گاڑیوں ،پبلک ٹرانسپورٹ اور حتٰیٰ کہ ایمبولینسوں کیلئے ہسپتالوں تک پہنچنا محال رہتا ہے۔ یہی نہیں اس بھیڑ اور ٹریفک جام کے نتیجے میں جگہ جگہ ایکسڈنٹ اور نا خوشگوار واقعات رونما ہو رہے ہیں۔
بلا شبہ نچلے طبقے کے متاثرین کا احتجاج کرنا ان کا حق ہے انہیں مطالبات کیلئے پر امن ذرائع بروئے کار لانے کا بھی حق حاصل ہے مگر یہ کہاں کی انسانیت ہے کہاں کا نظم نسق ہے کہ انہیں اعلیٰ طبقے کی نوکر شاہی کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے ، کیااحتجاج کرنے کیلئے ان کے حصے میں یہی مقام رہ جاتا ہے ۔چیف سیکرٹری نمائندہ تنظیموں کیلئے چار دیواری کے اندر کچھ دنوں کیلئے کوئی گوشہ کیوں مہیا نہیں کر دیتے،اگر مال روڈ کا ہائیڈ پارک دستیاب نہیں تو ان احتجاج کرنیوالوں کو جین مندر کے پختہ سولنگ والے چوراہے پر ہی انتظام کر دیا جاتا ۔ مگر یہ سب اس لئے ممکن نہیں کہ سرکاری ملازمین کو مطالبہ کرنے پر عام شہریوں میں ذلیل و رسوا کروانا مقصود ہے ۔عام شہریوں کے تکالیف اٹھانے پر جو لعن طعن ہوتی ہے اس کا نزلہ بھی عضو ضعیف ’’چھوٹے ملازم طبقے‘‘ پر ہی گرتا ہے۔ ہماری انتظامیہ اور ارباب بست کشاد کو اس بات کا نوٹس لینا ہو گا کہ آخر اس بد ترین گرم موسم میں وہ کس سے کس بات کا بدلہ لے رہے ہیں؟