’’عرشِ برِیں سے کم نہیں ، گھر بار آپ کا!‘‘ (2)
’’ خواجہ جی بنے مورے میت رے!‘‘
متحدہ ہندوستان کے ہندو شاعروں نے ’’وِشنو دیوتا‘‘ کے اوتاروں، شری رام اور شری کرشن جی مہاراج کی عقیدت میں لاکھوں بھجن لکھے اور لا تعداد (ہندو شاعروں نے ) اپنی شاعری میں عورت کا روپ دھار کر ، شر ی رام اور شری کرشن جی کو اپنا محبوب بنا کر ’’بھجن‘‘ کہے۔
معزز قارئین! کئی مسلمان شاعروں نے بھی ہندی اردو اور پنجابی میں حضور پْر نور صلی اللہ علیہ و آولہ وَسلم لا علی مرتضیٰ، آئمہ اطہار اور اولیائے کرام کو اپنا محبوب بنا کر اور خود عورت کا روپ دھار کر اْنہیں مخاطب کِیا۔ مَیں نے بھی اپنے جدّی پشتی پیر و مْرشد خواجہ غریب نواز، نائب رسول فی الہند حضرت معین اْلدّین چشتی کو اپنا محبوب بنا کر یہی کردار ادا کِیا ہے۔ منقبت کے تین بند ملاحظہ فرمائیں …
’’اَن مْولت سگرے ،بِھیت رے!
گیا کارا کارا، اتِیت رے!
مَیں تو گائوں پریم کے گِیت رے!
خواجہ جی بنے، مورے مِیت رے!
…O…
جگ کو اْجیارا، دیں خواجہ!
اْپدیش نیارا، دیں خواجہ!
سندیش ہے، اْن کا، پرِیت رے!
خواجہ جی بن ، مورے مِیت رے!‘‘
…O…
مَیں آگیا کاری خواجہ کی!
کِرپا آبھاری خواجہ کی!
اْن پر ہے اثر پرتِیت رے!
خواجہ جی بنے، مورے مِیت رے!
…O…
’’مولاعلیؒؓ کا سایہ شفقت !‘‘
خواجہ غریب نواز کی برکات سے مَیں نے ستمبر 1983ء میں خواب میں دیکھا کہ ’’مَیں ایک دلدل میں پھنس گیا ہْوں میرا جسم دلدل میں دھنستا جا رہا تھا۔ اچانک میرے مْنہ سے ’’یاعلیؓ!‘‘ کا نعرہ بلند ہْوا۔ مجھے یوں محسوس ہْوا کہ کسی ’’Crane‘‘ نے مجھے دلدل سے نکال کر دوسرے کنارے پر اْتار دیا۔ مجھے کسی غیبی آواز نے بتایا کہ ’’ تْم پر مولا علیؓ کا سایہ شفقت ہے!‘‘، پھر میری قسمت کا ستارہ مزید روشن ہوگیا۔
معزز قارئین! مولا علی مرتضیٰؓ کی شان میں میری منقبت کا عنوان، مطلع اور منقبت ملاحظہ فرمائیں
’’جِیہدا نبی مولا،اوہداعلیؓمولا!‘‘
… O …
نبی آکھیا سی ، ’’وَلیاں دا وَلی مولا!
’’جِیہدا نبی مولا،اوہداعلیؓ مولا!
… O …
جدوں چاہوندا ، اللہ نال گَل کردا!
سارے جگّ دِیاں ، مْشکلاں حلّ کردا!
شہر شہر مولا، گلی گلی مولا !
’’جِیہدا نبی مولا،اوہداعلی مولا!
…O…
لوکی آکھدے نیں ، شیر تَینوں یزداں دا!
سارے نعریاں توں وڈّا ، نعرہ تیرے ناں دا!
تیرے جیہا نئیں کوئی ، مہابلی مولا !
’’جِیہدا نبی مولا، اوہداعلیؓ مولا!
…O…
واہ! نہج اْلبلاغہ، دِیاں لوآں!
سارے باغاں وِچّ ، اوس دِیاں خوشبواں!
پْھلّ پْھلّ مولا، کلی کلی مولا!
’’جِیہدا نبی مولا،اوہداعلیؓ مولا!
…O…
سارے وَلیِاں دے ، بْلھاں اْتّے سَجدی اے!
مَن موہ لَیندی ، جدوں وَجّدی اے!
تیری حِکمتاں دی، وَنجھلی مولا!
جیِہدا نبی مولا، اوہدا علیؓ مولا!
…O…
پائو اپنے اثر وَلّ، وِی پھیری!
دِن رات تڑفدی اے، رْوح میری!
راہ تکدی کدوں دی، کھلّی مولاؓ!
جِیہدا نبی مولا، اوہدا علیؓ مولا!
معزز قارئین ! ماشاء اللہ!۔ مولا علی مرتضیٰؓ کے نام پر میرے ، پانچوں بیٹوں اور پانچوں پوتوں کے نام بھی، اور میری سب سے پیاری بیٹی، عاصمہ معظم ریاض چودھری، کے بیٹے کا نام بھی علی امام !۔
’’ زیارتِ جنت اْلبقیع!‘‘
ستمبر 1991ء میں مجھے صدرِ پاکستان ( اب مرحوم ) غلام اسحاق خان کی میڈیا ٹیم کے رْکن کی حیثیت سے ، اْن کے ساتھ عمرے کی ادائیگی میں خانہ کعبہ کے اندر داخل ہونے کی سعادت حاصل ہوئی ، پھر مجھے مدینہ منورہ میں ’ جنت اْلبقیع‘‘ کی زیارت کا بھی اعزاز حاصل ہوا اور تاریخی حوالے سے ’’ انہدام جنت اْلبقیع‘‘ پر دْکھ بھی بہت ہْوا۔
’’تْربتِ خاتون جنت !‘‘
عاشقِ رسولﷺ اور مولا علی مرتضیٰؓ کے حوالے سے ’’ مولائی ‘‘ کہلانے والے ، علاّمہ اقبال نے 1918ء میں شائع ہونے والی اپنی تصنیف ’’رموزِ بے خودی ‘‘ میں سیّد اْلنساء فاطمۃ اْلزہراؓ سے عقیدت کا اظہار کرتے ہْوئے کہا تھا کہ …
’’رشتہ آئین ِ حق ، زنجیر ما ست!
پاس فرمانِ جنابِ مصطفی است!
ورنہ گردِ تْربتش گردید مے!
سجدہ ہا برخاکِ او پا شِید مے!‘‘
…O…
یعنی۔ ’’شریعت حقہ کے احکام میرے پا?ں کی زنجیر بنے ہْوئے ہیں ، مجھے جنابِ مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وَسلم کے فرمان کا پاس ہے۔ ورنہ مَیں سیّدہ فاطمہ ؓ کی تْربت کے گرد طواف کرتا اور اْن کی قبر پرسجدہ ریز ہوتا‘‘۔
معزز قارئین ! مجھے یہ شرف حاصل ہے کہ ’’ستمبر 1991ء میں مجھے زیارت جنت اْلبقیع کے فوراً بعد نعت ِ رسول مقبول لکھنے (کہنے ) کا شرف حاصل ہوا۔ ملاحظہ فرمائیں …
یوں ضَو فِشاں ہے ہر طرف ، کردار آپ کا!
اَرض و سماء ہے ، حلقہ اَنوار ، آپ کا!
…O…
شمس و قمر میں ، رَوشنی ہے ،آپ کے طْفیل!
خْلدِ برِیں ہے ، آپ کا ، سَنسار آپ کا!
…O…
ہر رِند و پارسا کے لئے ، اِذنِ عام ہے!
رَحمت کا سائبان ہے ، دَربار آپ کا!
…O…
مخلْوقِ کائنات ہو ،یا خالقِ عظِیم!
مِدحت سَرا ہے ، ہر کوئی ،سرکار آپ کا!
…O…
حقّ کی عطا سے ، صاحبِ لَوح و قلم ،ہیں آپ !
قْرآنِ پاک بھی ہْوا، شَہہ کار آپ کا!
…O…
مولا علی ؓ و زَہر ا ؓ ، حسنؓ اور حْسین ؓ سے!
عرشِ برِیںسے ،کم نہیں ، گھر بار آپ کا!
…O…
عاصی! اثر چوہان کی ،جْرأت تو دیکھئے؟
یہ کم نظر ہے، طالبِ دِیدار، آپ کا!
…O…
’’مدنی سرکار دِیاں گلیاں !‘‘
معزز قارئین ! میری خوش قسمتی ہے کہ ’’مجھے روزنامہ ’’ نوائے وقت ‘‘ کے کالم نویس کی حیثیت سے ، ستمبر 1991ء میں صدرِ پاکستان غلام اسحاق خان کی میڈیا ٹیم کے رْکن کی حیثیت سے ان کے ساتھ خانہ کعبہ میں داخل ہونے کی سعادت حاصل ہْوئی۔ میری اور میرے دو صحافی دوستوں کی درخواست پر پاکستانی سفارتخانہ نے ، مدینہ منورہ کی گلیوں کی زیارت کے لئے ہمارے لئے الگ گاڑی کا بندوست کردِیا تھا ، ہم نے چلتی گاڑی میں بیٹھ کر ’’سارے جگ توں نرالیاں، مدنی سرکاری دِیاں گلیاں‘‘ دیکھیں۔ کہیں کہیں تو۔( مجھے تصّور میں )۔ مدنی سرکار کے قدموں کی چاپ بھی سْنائی دِی۔ جب کوئی میرا رشتہ دار یا دوست حج یا عمرے کی سعادت حاصل کرنے کے لئے جاتا ہے تو، مَیں اْس سے ’’مدنی سرکار‘‘ کی گلیوں کے بارے میں ضرور پوچھتا ہوں ؟
معزز قارئین ! ’’ انہدام ِ جنت اْلبقیع ‘‘ پر دْکھ کے بارے پھر بات کریں گے !۔
……………………(ختم شد)