• news

پاکستان کرکٹ بورڈ میں عدم استحکام کا زمہ دار کون؟؟؟

حافظ محمد عمران

hafiz.mimran79@gmail.com

محمد معین

moinmissu786@gmail.com

پاکستان کرکٹ بورڈ میں عدم استحکام عروج پر ہے یہ کہنا مشکل ہے کہ چار ماہ بعد کرکٹ بورڈ کا سربراہ کون ہو گا، یہ کہنا بھی مشکل ہے کہ رواں برس ڈومیسٹک سیزن کیسا ہو گا، مقابلے کہاں کہاں ہوں گے، کون کون سی ٹیمیں شرکت کریں گی، ڈومیسٹک کرکٹ میں انتظامات کیسے ہوں گے، قائداعظم ٹرافی کے حوالے سے اہم فیصلے کون کرے گا، کرکٹ بورڈ کی مینجمنٹ کمیٹی کے سربراہ کیا فیصلے کرتے ہیں، کیا غیر ملکی کوچز کی چھٹی کروا دی جائے گی، نئی سلیکشن کمیٹی میں کون کون شامل ہو گا، نیشنل کرکٹ اکیڈمی کو چلانے والا کون ہو گا۔ پاکستان کرکٹ کھیلنے والے ممالک کے ساتھ کیسے تعلقات بہتر بنائے گا۔ ہر سوال حل طلب ہے۔ نجم سیٹھی کی سربراہی میں کام کرنے والی کمیٹی میں شامل افراد کا مستقبل کیا ہو گا، کیا سپیشل آڈٹ صرف ڈرانے دھمکانے کے لیے ہے، اس آڈٹ سے ملکی کرکٹ کو کیا فائدہ ہو گا۔ مینجمنٹ کمیٹی کے سربراہ ذکا اشرف کی حکمت عملی بھی سوالیہ نشان ہے پاکستان میں بیٹھ کر پہلے وہ ایشیا کپ کے ہائبرڈ ماڈل کو مسترد کرتے ہیں پھر وہ اسے ناانصافی قرار دیتے ہیں اور ڈربن بھارتی کرکٹ بورڈ کے سیکرٹری اور سب سے طاقتور سمجھی جانے والی شخصیت جے شاہ سے ملاقات میں تعلقات کو معمول پر لانے کی کوشش کرتے ہیں(شاید یکطرفہ) کیونکہ ڈربن میں جب وہ جے شاہ سے ملے تو جلد بازی میں یہ خبر پھیلائی گئی کہ ایشین کرکٹ کونسل کے صدر جے شاہ کو دورہ پاکستان کی دعوت دی گئی ہے اور انہوں نے وہ دعوت قبول کر لی ہے جب کہ بی سی سی آئی کے سیکرٹری جے شاہ نے پی سی بی مینجمنٹ کمیٹی کے سربراہ ذکا اشرف کو دورہ کی دعوت بھی دی۔ ابھی یہ خبریں نشر ہو ہی رہی تھیں کہ آئی پی ایل چیئرمین نے ان خبروں کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ جے شاہ کہیں نہیں جا رہے۔ اس کے بعد خود جے شاہ نے پاکستان آنے کے حوالے سے خبروں کی تردید کر دی اور یہ بھی کہا کہ وہ کسی چیز پر راضی نہیں ہوئے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر اتنی جلد بازی کی کیا ضرورت تھی۔ کیا ذکا اشرف یا ان کے ساتھی دونوں ملکوں کے مابین تعلقات کے حوالے سے باخبر نہیں تھے، اگر ایسی کوئی بھی خبر باہمی رضامندی کے بغیر جاری ہوتی ہے تو یقینا ردعمل آنا ہی تھا۔ ایسی خبروں کی تردید زیادہ تکلیف دہ اور شرمندگی کا باعث ہوتی ہے۔ اس معاملے میں پاکستان کرکٹ بورڈ کے ساتھ یہی ہوا ہے۔ ایک طرف ذکا اشرف نے ایشین کرکٹ کونسل کے منظور کردہ ہائبرڈ ماڈل کو مسترد کیا پھر اسے ناانصافی قرار دیا پھر اچانک سے سب کو گلے لگانے کی کوشش کرنے لگے خیالات میں تیزی سے ایسی تبدیلی کو عالمی سطح پر اچھا نہیں سمجھا جاتا۔ کسی کے ساتھ ذاتی اختلاف میں حقائق کو نظر انداز کرتے ہوئے ادارے کی پالیسی کو نشانہ بنانے کا نقصان اس وقت ہوتا ہے جب آپ کو دنیا کے ساتھ بیٹھ کر بات چیت کرنا پڑے۔ بہرحال یہ ساری صورتحال اس عدم استحکام کا نتیجہ ہے جس کا پاکستان کرکٹ کو اس وقت سامنا ہے۔
ایک مینجمنٹ کمیٹی ختم ہوئی دوسری قائم کر دی گئی۔ انتخابات کا کیا مستقبل ہے کوئی نہیں جانتا جو مینجمنٹ کمیٹی قائم ہوئی ہے اس میں دو تین افراد کے علاوہ کرکٹ کے حلقے ایک دوسرے سے رابطے میں ہیں اور جاننے کی کوششوں میں ہیں یہ کون لوگ ہیں۔ کمیٹی میں کرکٹ کے انتظامی امور کا تجربہ رکھنے والے افراد کی کمی ہے۔ کوئی کرکٹر کمیٹی کا حصہ نہیں ان حالات میں کھیل کے حوالے سے ہونے والے اہم فیصلوں کی کیا اہمیت رہ جائے گی۔ ڈومیسٹک سیزن شروع ہونے کو ہے اس لیے کرکٹ کے انتظامی امور اور کھیل کی سمجھ بوجھ رکھنے والے کرکٹرز کو مینجمنٹ کمیٹی سے دور رکھنا کئی سوالات کو جنم دیتا ہے۔
پاکستان کرکٹ بورڈ میں عدم استحکام کی بات تو ہو رہی ہے لیکن اصل سوال یہ ہے کہ اس عدم استحکام کا اصل ذمہ دار کون ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ حالات کی تمام تر ذمہ داری حکومتی اتحاد پر عائد ہوتی ہے کیونکہ حکومتی اتحاد بروقت یہ فیصلہ کرنے میں ناکام رہا کہ انہوں نے کرکٹ بورڈ کس کے حوالے کرنا ہے۔ اصولی طور پر تو رمیز راجہ کو اپنی مدت پوری کرنا چاہیے تھی لیکن وہ عمران خان کے زیر اثر ہونے کی وجہ سے علاقائی اور محکمہ جاتی کرکٹ کو بحال کرنے کے حق میں نہیں تھے۔ اس کے باوجود بھی حکومت اگر دو ہزار چودہ کا آئین بحال کرنا چاہتی تھی تو اس کی ذمہ داری رمیز راجہ کو دی جا سکتی تھی ایسا ہوتا تو یہ مثالی حالات ہوتے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ رمیز راجہ کے باس نے دو ہزار اٹھارہ میں جو کچھ اس وقت کے سربراہ کے ساتھ کیا دو ہزار بائیس میں وہ رمیز راجہ کے ساتھ ہوا۔ اس کے بعد نجم سیٹھی کی سربراہی میں مینجمنٹ کمیٹی کی تشکیل یقینا چار یا چھ ماہ کے لیے نہیں تھی نجم سیٹھی نے جو فیصلے کیے وہ بتاتے ہیں کہ انہیں یقین دلایا گیا تھا کہ وہ کم از کم تین سال تک منتخب سربراہ کی حیثیت سے کام کریں گے لیکن بعد میں حکومتی اتحاد اس معاملے میں تقسیم ہوا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے فیصلہ سازوں کی سوچ بدلی اور انہوں نے نجم سیٹھی کے بجائے ذکا اشرف کو چیئرمین بنانے کا فیصلہ کیا۔ مسلم لیگ ن نے مزاحمت نہ کرنے کا فیصلہ کیا اور یوں نجم سیٹھی کو گھر جانا پڑا۔ ذکا اشرف چیئرمین بننے کا خواب سجائے وزیراعظم میاں شہباز شریف کی طرف سے نامزد ہوئے لیکن معاملہ عدالت میں چلا گیا چیئرمین کا انتخاب کا معاملہ متنازع ہوا تو ایک نئی مینجمنٹ کمیٹی تشکیل دیتے ہوئے ذکا اشرف کو اس کا چیئرمین بنا دیا گیا۔ یہ الگ بحث ہے کہ جو لوگ ذکا اشرف کے خلاف عدالت گئے ان کا کیا مفاد ہے یا وہ خود کیا کرتے رہے، یا ان کے دور میں آئین و قانون کو کتنی اہمیت دی گئی، کیا انہوں نے بورڈ کے خزانے کو نقصان پہنچایا، کیا وہ میرٹ کی دھجیاں نہیں بکھیرتے رہے اس پر بھی بہت بات ہو سکتی ہے لیکن اس ساری صورتحال میں سب سے اہم پہلو عدم استحکام ہے۔ اگر حکومتی اتحاد بروقت فیصلہ کرتا کہ رمیز راجہ کی جگہ کسے لانا ہے تو یہ حالات پیدا نہ ہوتے اور اگر ایک شخص کو ذمہ داری دے دی گئی تھی تو پھر تیرا بندہ میرا بندہ کا کھیل نہیں کھیلنا چاہیے تھا۔ جب دسمبر دو ہزار بائیس میں فیصلہ ہو گیا تھا تو پھر سب سے پہلے پاکستان کی سوچ ہونا چاہیے تھی۔ بہرحال ہماری بدقسمتی ہے کہ ایک ایسا سال جہاں دنیا ایشیا کپ اور ورلڈکپ فتح کرنے کی تیاریاں کر رہی ہے ہم اپنے کرکٹ بورڈ کو فتح کرنے کے تکلیف دہ سفر پر ہیں ان حالات میں راحت اندوری مرحوم یاد آتے ہیں انہوں نے کیا خوب کہا تھا
جدھر سے گذرو دھواں بچھا دو جہاں بھی پہنچو دھمال کر دو
تمہیں سیاست نے حق دیا ہے ہری زمینوں کو لال کر دو 
اپیل بھی تم دلیل بھی تم گواہ بھی تم وکیل بھی تم
جسے بھی چاہو حرام کہہ دو جسے بھی چاہو حلال کر دو

ای پیپر-دی نیشن