• news

ملک کی 22کروڑ آبادی کیلئے دوسونفرالوجسٹ ہیں

 کامران نسیم بٹالوی
فطرتی صحت کا مالک ہونا کسی بھی انسان کے لئے نعمت اولی سے کم نہیں ۔ جہاں کوئی دائمی بیماری خواہ کسی بھی قسم کی ہو فرد کے لئے انفرادی طور پر فرد واحد کے لیے زندگی بھر کے لیے چیلنج اور آزمائش لے کر آتی ہے وہاں ریاست یا اقوام عالم کے لیے بھی صحت کے نت نے پیرامیٹرز طے کرتی ہے جو اپنے وسائل اور انداز سے صحت کے درپیش مسائل سے نمٹنے ہیں ۔انسانی طرز زندگی اور فوڈ کلچر کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی بیماریاں ویسے تو ان گنت ہیں لیکن دور حاضر میں دنیا بھر میں گردوں کے مریضوں میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے جس کی بنا پر پاکستان میں ہر سال تقریبا ڈیڑھ لاکھ افراد گردوں کی شدید بیماری کا شکار ہو جاتے ہیں۔غیرفطری طرز زندگی، ہائی بلڈ پریشر اور ذیابیطس کی بیماریاں گردوں کے امراض میں اضافے کی بڑی وجوہات بن گئیں،ڈبلیو ایچ او کے مطابق دنیا بھرمیں گردوں کے امراض میں مبتلا مریضوں کی تعداد 85 سے 90 کروڑ کے درمیان ہے تو ہمارے ملک میں اِن کی تعداد کم و بیش ایک کروڑ 75 لاکھ کے قریب ہے۔ ہمارے ہاں اِن مریضوں کی تعداد میں سالانہ 15سے 20فیصد تک اضافہ ہورہا ہے جو بہت خطرناک صورتحال ہے ایک ریسرچ کے مطابق پاکستان میں گردوں کی بیماری پھیلاؤ کی شرح  21.2 فیصد سے لے کر 29.2 فیصد تک ہے۔گردوں کی بیماری کی حساسیت  و پھیلاؤ کے حوالے سے پاکستان میں تقریبا بارہ سال قبل پیش کی جانے والی تحقیق و مطالعہ جو چونکا دینے والی تھا آج بالکل وہ سچ ثابت ہو رہا ہے اس سلسلہ میں پروفیسر ڈاکٹر  محمد انیس جو کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی کے ماہر استاد ہونے کے ساتھ ساتھ قریباً دو دہائیوں سے میو ہسپتال کے شعبہ نفرالوجی کے سربراہ بھی ہیں بہت فکر مند اور متحرک نظر آتے ہیں اور میو ہسپتال میں گردوں کے شعبے کے قیام کا سہرا بھی انہی کے سر جاتا ہے ۔ جن کی کوششوں سے گیارہ سال بعد پرائیویٹ پبلک پارٹنر شپ کے تحت  بزنس ٹائیکون اور سیاسی رہنماء علیم خان کے  تعاون سے میو ہسپتال میں ہی اسٹیٹ آف دی آرٹ نفرالوجی یونٹس و ڈائلیسس سینٹر کا قیام بھی عمل میں لایا جا چکا ہے۔ جس افتتاح  ہوناابھی باقی ہے چند روز قبل ان کے ساتھ ہونے والی نشست میں ان کا بتانا تھا کہ چالیس سال سے زیادہ عمر کے مریضوں میں تقریبا پندرہ سے بیس فیصد گردوں کا کام کم ہوتا ہے۔پاکستان میں گردے کے مکمل فیل ہونے والے مریضوں کو عارضی علاج فراہم کرنے کے لیے ہیمو ڈائلیسسز کے شعبہ میں بہت بڑاسرمایہ  مختص کیا گیا ہے لیکن ان کے لیے کچھ نہیں کیا گیا جن کے گردے نفرالوجی  یونٹس قائم کرکے اور مستند ڈاکٹر  تیار کر کے  اس بیماری کی روک تھام کی جا سکتی ہے۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ڈاکٹر انیس کی اس مصدقہ تحقیق کو  ماننا پڑے گا  بلکہ اس شعبہ سے وابستہ دیگر تمام جدید تحقیقات کو پالیسیز مرتب کرنے کے لیے مشعل راہ کے طور پر استعمال کرنا چاہیے۔
عالمی سطح پر  ذیابیطس کے بیس فیصد پھیلاؤ میں بیس فیصد افراد چالیس سال کی عمروں کے ہیں جو کہ تقابلی لحاظ سے مغربی اور امریکی ممالک سے دو سے تین گناہ زیادہ ہیں اور اگلی دو دہائیاں یعنی 2020سے 2040 تک 3 گناہ بڑھنے کا امکان ہے مطلب یہ بیماری بیس فیصد سے بڑھا کر 40 سے 50 فیصد تک پہنچنے کا خدشہ ہے اور غالبا اب تک کم از کم اس کی شرح 30 فیصد یا اس سے زیادہ تجاوز کر چکی ہے اور یہ تناسب انتہائی خطرے کی گھنٹی بجا رہا ہے تحقیق کے مطابق شوگر کے ہر تیسرے مریض میں گردے کی دائمی بیماری پیدا ہوتی 2  سو بیس ملین والی آبادی کے ملک پاکستان کے لیے دو سو کے قریب نفرالوجسٹ ہیں جو کہ امریکہ کے مقابلے میں تین سو پچیس ملین کی آبادی کے لیے  55 سو سے زائد نفرالوجسٹ موجود ہیں مطلب صحت کے اس اس حساس  شعبہ میں بھی  حسب روایت ابتری کا شکار ہیں پروفیسر ڈاکٹر انیس کے نزدیک ہمارے پالیسی سازوں کو اگر شعبہ طب کی حساسیت کا اندازہ نہیں ہو رہا تو انہیں کم از کم مطلوبہ ڈیمانڈ اینڈ سپلائی کے فارمولا کو مدنظر رکھ لینا چاہیے۔کیوں کہ وطن عزیز میں مہنگا ترین کڈنی ٹرانسپلانٹ تو موجود ہے لیکن وہ یونٹس اور بنیادی اداروں کا سرے سے موجود ہی نہیں جو گردوں کی ناکامی کی انتہا کی بیماری تک پہنچنے سے قبل آگاہی اور ابتدائی علاج سے مریضوں کو اسکی سنگینی سے محفوظ رکھ سکیں اس تناظر میں دیکھا جائے تو اس کا مطلب یہی ہے یا ایسا ہی محسوس ہوتا ہے کہ  کے گردوں کی بیماری کا علاج ان کے فیل ہونے کے بعد ہی ممکن ہو گا دراصل دیگر ترقی یافتہ ممالک میں شوگر کے مریضوں کی زیادتی کے باوجود بھی گردوں کی بیماری کے مریضوں کی کم شرح کی بنیادی وجہ یہی ہے کے وہ بیماری کو  جڑ سے پکڑ نے اور ختم کرنے کے انقلابی ایجنڈے پر عمل پیرا ہو کر سرمایہ کاری کر رہے ہیںجبکہ ہمارے ہاں آغاز کی بجائے انتہا کو فوکس کیا جا رہا ہے اگرچہ پاکستان میں موجود لاہور کا کڈنی ٹرانسپلانٹ( پی کے ایل آئی ) ملکی کی جدیدترین علالج گاہ اور قومی اثاثہ  سے کم نہیں  لیکن اس کے باوجود بھی بنیادی ترجیحات کو جھٹلایا نہیں جاسکتا اس ضمن میں مجموعی طور پر جنوبی ایشیا کے ترقی پذیر ممالک جن میں پاکستان بھارت بنگلہ دیش سری لنکا نیپال بھوٹان میں سو کلچر کونسیپٹ(تصور) کی درستگی کی اشد ضرورت ہے جہاں  ان تمام مذکورہ ممالک کے شہری اسٹیٹ آف دی آرٹ ہسپتال کی کی تعمیر و ترقی پر  تو بہت خوش ہوتے ہیں لیکن صحت مند زندگی سے لطف اندوز  کے سنہری اصولوں کی جانکاری کے لئے بیماریوں کے پیدا ہونے کے بنیادی اسباب پر نہ ہی توجہ دیتے ہیں اور نہ ہی توجہ دینے کی کوشش کرتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق اگر پاکستان میں گردوں کے مریضوں کی موجودہ تعداد کے مستقبل علاج کے لیے  اگر ماہانہ  بنیاد وں پرملک کا پچاس فیصد بجٹ بھی مقرر کر دیا جاے  تو پھر بھی ہم اپنے علاج کے اہداف میں ناکام رہیں گییہ بات طے ہے کہ ہمیں علاج سے قبل احتیاط کی طرف رخ کرنا ہو گا کیونکہ پرہیز علاج سے بہتر ہے اور یہ تب ہی ممکن ہو گا جب ہم صحت مند زندگی کے لئے  علاج گاہوں کی بجاے صحت بخش و تندرست طرز زندگی پر انحصار کرنا سیکھیں گے ۔

ای پیپر-دی نیشن