وقت کی گھڑی
گھڑی کی سوئیاں ٹک ٹک کرتو رہی ہیں مگر محسوس ہورہا ہے کہ یہ ایک ہی جگہ ٹکی ہوئی ہیں۔ جیسے وقت کو کسی نے زبردستی روک رکھا ہے۔ یہ ایک بے معنی سا خیال ہے لیکن پاکستان میں نو مئی کے بعد واقعی چیزیں رکی ہوئی ہیں۔ وقت کے قدم ساکت ہیں۔ دن ،ہفتے اور مہینے گزررہے ہیں لیکن ہم ادھر ہی کھڑے ہیں۔اس دن لگنے والے بڑے شاک سے قوم ابھی تک باہرہی نہیں نکل سکی۔ صورتحال یہ ہے کہ کہیں بھی کوئی محفل یا بیٹھک سجتی ہے توبات شروع ہوتی ہے نو مئی سے اور ختم ہوتی ہے نو مئی پر۔ موضوع بھلے ہی کوئی اورہو لیکن بحث موضوع نو مئی کا افسوسناک دن بن جاتا ہے۔ سوال کچھ بھی ہو مگر جواب میں اس دلخراش دن کا ذکر آتا ہے۔ لگتا ہے ملک میں وقت کا پہیہ نو مئی کے دن سے جام ہوکر رہ گیا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ نو مئی کو جتنا بڑا سانحہ پیش آیا۔اگرچہ ان واقعات کی پرزورمذمتیں ہورہی ہیں، سیاہ دن کے سیاہ کارناموں میں ملوث شرپسندوں کوسخت سے سخت ترین سزا دینے کے مطالبے کیے جارہے ہیں مگرشرپسندوں کا سرغنہ کون ہے؟ کس نے ملکی تاریخ میں سیاہ تاریخ رقم کرنے کیلئے بلوائیوں کو بھڑکایا؟ کس نے پلاننگ کی اور کس مقام پر شر کا بیچ بویا گیا؟
نو مئی کے واقعات کے منصوبہ ساز کون ہیں؟ اس نحوست اورناسور کا اصل ذمہ دار کون ہے؟ یہ سوال کسی بچے سے بھی پوچھے جائیں تو پھٹ سے جواب ملے گا پھردیر کس چیز کی ہو رہی ہے حالانکہ پی ٹی آئی کے قائد اوربعض رہنماوں کے بیانات اور ویڈیوز لوگ سن چکے ہیں۔ معلوم نہیں چھان بین کس چیز کی ہورہی ہے۔ حالانکہ دیکھنا صرف یہ ہے کہ ان گھٹیا حرکات سے کون فائدہ اٹھانا چاہتا ہے۔ جو لوگ فوجی تنصیات اور سرکاری املاک جلاتے یا گراتے ہوئے دیکھے گئے ان کی پشت پنائی کون کررہا تھا اور کس مقصد کیلئے ان کی پشت پر کھڑا تھا۔ کیا یہ کوئی راکٹ سائنس ہے کہ ان سوالوں کا کسی کے پاس ابھی تک کوئی جواب نہیں ہے۔ کیوں اتنے حساس معاملے میں لٹکایا جارہا ہے؟ کیوں نہیں اصل مجرموں کو گریبان سے پکڑ کر شہدا کے وارثین کو انصاف دلایا جارہا ؟انصاف تو یہ ہے کہ اصل ذمہ دار کو چوک چوراہے پر کھڑا کرکے عدل و انصاف کا بول بالا کیا جائے۔
خدا خدا کرکے چیئرمین تحریک انصاف پاکستان مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی میں پیش ہوگئے۔ جے آئی ٹی نے ان سے سوال کیا کہ نومئی کو ملک میں جو ہوا اس کی پلاننگ تھی یا اتفاق؟ اس پر چیئرمین پی ٹی آئی نے جواب دیا کہ پلاننگ کہیں اور سے ہوئی اس سے میرا کوئی تعلق نہیں۔ پوچھا گیا کہ آپ کے لوگ کنٹونمنٹ میں کیوں گئے تھے؟ اس پران کا کہنا تھا کہ جب کمانڈر مجھے گرفتار کرے گا تو لوگوں نے وہیں جانا تھا۔ مقامات کی نشاندہی کی گئی اور کچھ لوگوں کو اہم ذمہ داریاں بھی سونپی گئی تھیں۔
بات صرف نو مئی کی نہیں۔ پشاورلاہور اور راولپنڈی میں دفاعی اداروں کے سامنے احتجاج ہوئے۔فوجی افسران کیخلاف نعرے لگائے گئے۔پشاور میں کور کمانڈر ہائوس کی طرف مارچ کیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ اتفاق تھا۔ کیا یہ سب لوگ روبوٹ تھے جو خود چل کر ان مقامات تک گئے۔ یقینا کسی نے ہدایات دی ہوں تب ہی اہم اداروں کے باہر تاریخ میں پہلی بار ایسے احتجاجی مظاہرے ہوئے۔ اگر بالفرض چھوٹے ورکر خود چل کر گئے تو پارٹی قیادت نے کیوں باز پرس نہیں کی؟یہ وہ سلسلہ ہے جس کا نتیجہ قوم کو سیاہ دن کے طور پر دیکھنا پڑا۔ نومئی سے پہلے بھی ناقابل برداشت فساد برپا کرنے کی مذموم کوشش کی گئی البتہ مجرموں نے نو مئی کو سرخ لائن عبور کرکے اپنے گھنائونے عزائم پوری طرح ظاہر کیے۔ اس طویل سلسلے کے باوجود اگر سربراہ پی ٹی آئی خود کو نو مئی کے سانحہ سے بری الزمہ قرار دے رہے ہیں تو یہ دلیل بیکار ہے۔ وہ جو صفائیاں پیش کررہے ہیں وہ بے جان ہیں۔چیئرمین پی ٹی آئی اب بھی جس سازش کا راگ الاپ رہے ہیں،وہ بے سْرا ہے۔ کوئی اسے سننے کیلئے تیار نہیں۔ بڑے جرم کی چھوٹی کڑیاں سب زمان پارک سے ملتی ہیں۔ جہاں پہلے پولیس کو زیر کرنے کیلئے پٹرول بم تک پھینکے گئے۔کئی اہلکاروں کو زدو کوب کیا گیا۔ ہاہر سے لائے گئے بلوائیوں کے ذریعے پولیس پر پتھر اور ڈنڈے برسائے گئے۔ عوام کے محافظوں کی گاڑیاں جلائی گئیں۔یہ سب ان کی ناک کے نیچے سے ہورہا تھا۔ جے آئی ٹی میں انہوں نے یہ تو بتایا کہ وہ شرپسندوں کو نہیں جانتے۔ یقینا وہ سب کونہیں جانتے ہوں گے لیکن جن لوگوں کے اشاروں پر بلوائیوں نے شہر میں فساد برپا کیا، سرکاری املاک کو نذر آتش کیا اور دفاعی تنصیات کی توڑ پھوڑ کی ، ان سے وہ انجان ہرگز نہیں ہوں گے۔
اس تناظر میں گزرتی گھڑیاں ہم سے انصاف کا تقاضا کررہی ہیں۔9مئی کے حقائق سے مکمل پردہ اٹھنا باقی ہے۔ جس دن یہ حقائق پوری تفصیل کے ساتھ سامنے آگئے تو اصل مجرموں ،منصوبہ سازوں اور سہولت کاروں کو سزا مل جائے گی۔ ملک میں وقت کی گھڑی پھر سے چلنا شروع ہوگی۔