پیر ‘28 ذو الحجہ 1444ھ17 جولائی 2023ء
بھارتی جنگی جنون۔ مودی کا فرانس سے جدید لڑاکا طیارے اور آبدوزوں کی خریداری کا معاہدہ
اس میں پریشان ہونے والی کوئی بات۔ ہمارا جنگی جنون بھی عروج پر ہے۔ بس فرق یہ ہے کہ بھارتی جنگی جنون ہمارے خلاف ہے وہ ہمیں خاکم بدہن نیچا دکھانا چاہتا ہے اور ہمارا جنگی جنون آپس میں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے ہے۔ نجانے کیوں ہمیں آرام چین اور سکھ راس نہیں آتا۔ ذرا سا اطمینان کا وقت ، سکون کی چند گھڑیاں نصیب ہوتی ہیں تو ہمارے اندر کا چھپا جنگی جنون ابل ابل کر باہر آنے لگتا ہے۔ ہم یکدم مہذب قوم سے وحشی قبیلہ بننے لگتے ہیں۔ جنوں اگر مثبت ہو تو خوشحالی ، ترقی اور سنہری مستقبل کی راہ دکھاتا ہے ہمت بڑھاتا ہے۔ یہی جنون اگر منفی ہو تو انتشار ، تباہی اور بربادی کی راہ دکھاتا ہے۔ بھارت ہمیں تمام تر ہماری مکاریوں کے ساتھ تین مرتبہ للکار چکا ہے۔ ایک مرتبہ ہمارے اسی باہمی خلفشار اور نفرت کی سیاست کی وجہ سے ہمیں زک بھی پہنچا چکا ہے۔ مگر کیا مجال ہے جو ہم باز آئے ہوں۔ وہ
میدان جنگ میں تو کچھ نہ کر سکا مگر سوشل میڈیا پر پراپیگنڈا وار میں وہ ہمیں ہر جگہ چیلنج کر رہا ہے۔ ہمارے اندر چھپے اس کے پے رول ایجنٹ بھی ہماری باہمی سیاسی جنگی جنون کو مزید ہوا دیتے پھرتے ہیں۔ ہم وہ نادان ہیں کہ بھارت کی چالوں کو سمجھنے سے قاصر ہیں اور ایک دوسریسے دست وگریباں ہیں۔ یہ تو شکر ہے کہ ہمارا دفاع مضبوط ہاتھوں میں ہے۔ ہمارے جوان سرحدوں پر بھارت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر چوکس و توانا کھڑے ہیں۔ ہماری دفاعی تیاریاں بھی کسی سے کم نہیں جن کی وجہ سے بھارت کی ہوا نکلی ہوئی ہے۔ مگر وہ ہمارے اندر لگی آگ کو خوب ہوا دے رہا ہے اور ہم سیاسی جنگ و جدل میں مصروف ہیں۔ کا ش ہم بھارتی سازش کو جان لیں تو زیادہ اچھا ہے۔
٭٭٭٭٭
نعمان لنگڑیال اور عون چودھری وفاقی کابینہ کا حصہ رہیں گے۔ جہانگیر ترین
اس سے قبل یہ خبرتھی کہ عون چودھری اور نعمان لنگڑیال جو اب استحکام پاکستان پارٹی میں شامل ہیں اور جہانگیر ترین کی قیادت میں کام کر رہے ہیں اپنی اپنی سرکاری حیثیت یعنی وفاقی کابینہ سے مستعفی ہو رہے ہیں۔ کچھ اور رہنما?ں نے بھی اسی قسم کے بیانات دئیے تھے کہ انہیں کابینہ چھوڑ دینی چاہیے۔ دونوں رہنما اس پر تیار بھی تھے۔ مگر اب جہانگیر ترین قائد استحکام پارٹی نے انہیں ہدایت کی ہے وہ وفاقی کابینہ میں موجود رہیں انہیں استعفیٰ دینے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اس سے لگتا ہے کہ مستقبل میں پنجاب و دیگر صوبوں میں شاید مسلم لیگ نون اور استحکام پاکستان پارٹی میں دوستانہ تعلق قائم ہو سکتا ہے۔ جسے ہم سیٹ ایڈجسٹمنٹ بھی کہہ سکتے ہیں۔ یہی غالباً پیپلز پارٹی بھی چاہتی ہے کہ سب اپنی اپنی الیکشن مہم چلائیں گے۔ انتخاب لڑیں گے مگر جہاں ممکن ہو سیٹ ایڈجسٹمنٹ ہو۔ اب اس سلسلے میں تختہ مشق پنجاب ہی بنتا نظر آتا ہے۔ جہاں جنوبی پنجاب میں مسلم لیگ نون کو پی ٹی آئی کے بچے کھچے رہنمائوں اور کارکنوں کے ساتھ اب تحریک استحکام اور پیپلز پارٹی کا بھی مقابلہ کرناہو گا وہ اس دردسری سے کیسے نجات پاتی ہے وقت بتائے گا۔ پیپلز پارٹی سندھ میں کسی کو گھسنے نہیں دیتی خود البتہ پنجاب میں پنجے جمانے کے لیے کوشاں ہے۔ یوں پنجاب میں اب تحریک استحکام پاکستان، مسلم لیگ (نون) کے ساتھ پی ٹی آئی اور پی پی پی بھی سیاسی دنگل میں اتریں گے تو مقابلہ بڑا زور دار ہو گا
٭٭٭٭٭
مون سون کا دوسرا سپل ملک میں داخل۔ کئی علاقوں میں تیز بارش،سیلاب۔
جو لوگ پہلے سے بارش اور سیلاب کے ستائے ہوئے ہیں اور ابھی تک کھلے آسمان تلے پڑے امدادی ملنے والا سامان ہڑپ کرنے پر حکمرانوں اور انتظامیہ کو بددعائیں دیرہے ہیں وہ تو دل سے
اب کہ نہ سا ون برسے
اب کہ برس تو برسیں گی آنکھیں
کہتے ہوئے دعائیں کر رہے ہیں کہ یہ گھنگھور گھٹائیں یونہی گزر جائیں اور ان کے کچے گھروندے اور جھونپڑیاں محفوظ رہیں۔ اگر ہمارے حکمرانوں نے سیلاب متاثرین میں بیرون و اندرون ملک ملنے والی رقم ایمانداری سے تقسیم کی ہوتی تو آج یہ بے چارے پریشاں حال نہ ہوتے۔
بہرحال موسم نے تو اپنا رنگ دکھانا ہے اس نے تو کسی کی نہیں سننی چنانچہ کشمیر، گلگت بلتستان، خیبر پی کے اور پنجاب میں مون سون کا دوسرا سپل خوب گھن گرج کے ساتھ داخل ہو کر برس رہا ہے۔ دریائوں اور ندی نالوں میں پانی کی سطح بڑھنے سے سیلابی کیفیت بڑھ رہی ہے جس سے کئی علاقے زیر آب آ چکے ہیں۔ شہروں میں ازخود سڑکیں اور گلیاں ندی نالوں میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔ جہاں بعدازاں انتظامیہ کشتیوں میں بیٹھ کر مدد کرنے آتی ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے ان شہروں، دیہات اور اراضی کو سیلاب سے بچانے کے لیے کوئی بڑا موثر منصوبہ حکومتیں نہیں بناتی کہ ملک بارش اور سیلاب کی اس تباہ کاری سے محفوظ رہے۔ لگتا ہے ہم نے بارش اور سیلاب کو عالمی امداد جسے ہم عوامی زبان میں خیرات کہتے ہیں کے حصول کا ذریعہ بنا لیا ہے اور ہم اس اہم کام میں مداخلت کر کے اس کی تباہ کاریوں کو کم کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے کہ ایسا کرنا کفران نعمت ہے۔
٭٭٭٭٭
سری لنکا، گال سٹیڈیم میں طلبہ کی بڑ ی تعداد پاکستانی کھلاڑیوں کو پریکٹس کرتے دیکھنے امڈ آئی
پاکستان اور سری لنکاکے درمیان ٹیسٹ میچز کا پہلا مقابلہ آج ہو گا۔ اس میں دونوں ٹیمیں ایک دوسرے سے ٹکرانے کے لیے تیار ہیں۔ اس سلسلے میں پاکستانی کرکٹ ٹیم نے گزشتہ روز گال کے سٹیڈیم میں بھرپور پریکٹس کی۔ اس موقع پر وہاں کے شہریوں کی بڑی تعداد کے علاوہ طلبہ کی بڑی تعداد بھی انہیں دیکھنے آئی۔ جنہوں نے بڑی انہماک سے پاکستانی کھلاڑیوں کو پریکٹس کرتے دیکھا۔ جب میڈیا نے ان سے پاکستانی کھلاڑیوں کے حوالے سے سوال کیا تو طلبہ کی اکثریت نے بابر اعظم اور شاہین آفریدی کو اپنا آئیڈیل قرار دیا۔ طلبہ بائولنگ اور بیٹنگ میں ان دونوں کھلاڑیوں کے دیوانے نکلے۔ انہوں نے دل کھول کر ان دونوں کے کھیل کی تعریف کی۔ اب آج دونوں ٹیمیں گال کے میدان میں اتریں گی۔ دیکھتے ہیں دونوں میں کون کیسا کھیلتا ہے۔ ظاہری طور پر تو پاکستان کا پلہ بھاری ہے مگر سری لنکا کو ایزی لینا بھی خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ عالمی سطح پر ان کی ٹیم کا بھی اپنا نام ہے۔ پاکستان کی طرح وہاں کے لوگ بھی کرکٹ کے دیوانے ہیں۔ اب دیکھنا ہے معاشی بدحالی کا شکار سری لنکا کے سٹیڈیم میں کتنے لوگ ٹکٹ خرید کر میچ دیکھنے آتے ہیں۔ سری لنکن ٹیم کو ہوم گرائونڈ اور کرائوڈ کی حمایت حاصل ہو گی۔ اس لیے پاکستان کے کھلاڑیوں کو عمدہ کھیل پیش کر کے شائقین سے داد وصول کرنا ہو گی۔ امید ہے سری لنکن شائقین اس میں بخل سے کام نہیں لیں گے۔ یہ صرف بھارت والوں کو بیماری ہے کہ وہ مخالف ٹیم کو داد نہیں دیتے۔