پرویز کی پرواز اور نگران وزیراعظم پر شاہ محمود کے تحفظات!!!!
پاکستان تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی شکوہ کرتے ہیں نگران وزیراعظم کون ہو گا دو بڑوں میں یہ فیصلہ ہو چکا لیکن ہمیں اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ شاہ صاحب کو یہ دکھ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کو اس اہم مشاورت میں نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ شاہ جی بہت سینئر اور تجربہ کار سیاسی کھلاڑی ہیں۔ اصولی طور پر وہ یہ اعتراض کر سکتے ہیں کہ اور یہ اس وقت ہو جب ملک میں حقیقی جمہوریت ہو اور تمام سیاسی جماعتیں بھلے وہ حکومت کا حصہ ہوں یا پھر اپوزیشن میں ہوں، اقتدار میں آنے کی امید ہو یا نہ ہو وہ ہر حال میں جمہوری روایات کو آگے بڑھائیں اور جمہوری اقدار پر کبھی کوئی سمجھوتہ نہ کریں۔ نظام سب سے اہم ہو ایک شخص کو نہ تو نظام سمجھا جائے نہ نظام سے بڑھ کر سمجھا جائے۔ ایسی مثالی صورت حال میں نے تو پاکستانی جمہوریت میں نہیں دیکھی ہے۔ اب شاہ محمود چاہتے ہیں کہ وہ اس سیٹ اپ میں مشاورت کا حصہ بنیں جنہیں وہ دیکھنا بھی نہیں چاہتے، ایسے لوگوں کو وہ اپنا سیاسی حریف نہیں بلکہ سیاسی دشمن سمجھتے ہیں۔ ایسے لوگوں سے مشاورت کی خواہش رکھتے ہیں جنہیں ان کی جماعت کے سربراہ ہر وقت برا بھلا کہتے آئے ہیں بلکہ نہایت سخت زبان بھی استعمال کرتے رہے ہیں۔ کبھی ایسا بھی وقت تھا کہ جن سے آج وہ شکوہ کر رہے ہیں ان کے بلانے پر بھی نہیں جاتے تھے اور پی ٹی آئی کی طرف سے یہ کہا جاتا تھا کہ ان کے علاوہ سب سے بات چیت ہو سکتی ہے۔ شاہ صاحب کا احترام اپنی جگہ ہے لیکن کیا وہ قوم کو یہ بتانا پسند کریں گے کہ جب ملک میں معاشی عدم استحکام ہے اور حکومت کی طرف سے پی ٹی آئی کو میثاق معیشت کی دعوت دی جاتی ہے اور پاکستان تحریک انصاف ایسی کسی سرگرمی کا حصہ نہیں بنتی اس وقت شاہ محمود قریشی کو تکلیف کیوں نہیں ہوتی۔ کیا ملک کی مضبوط معیشت سیاست سے زیادہ اہم ہے۔ جب آپ ملکی ضروریات کو نظر انداز کریں اور ریاست کے اداروں پر حملہ آور ہوتے رہیں اس کے بعد یہ بھی توقع کریں کہ اہم فیصلوں کے لیے مشاورت بھی کی جائے تو یہ بات دل کو کچھ زیادہ لگتی نہیں ہے۔ شاہ محمود قریشی کہتے ہیں "حکومت نوے روز کے انتخابات کو ترجیح دیتے ہوئے نظر آ رہی ہے۔ الیکشن کی تاریخ الیکشن کمیشن نے دینی ہے۔ نگران وزیراعظم کا فیصلہ ہو چکا باقیوں کو کچھ معلوم نہیں، کیا بند کمرے کا فیصلہ مسلط کیا جائے گا؟ لاہور کی بیٹھک میں دبئی کے فیصلوں پر مہر ثبت کر دی۔" وقت ہمیشہ ایک سا نہیں رہتا شاہ محمود قریشی جس جماعت کی نمائندگی کرتے ہوئے گفتگو کر رہے ہیں وہ کئی حصوں میں تقسیم ہو چکی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے اراکین قومی و صوبائی اسمبلی کی بڑی تعداد استحکام پاکستان پارٹی کا حصہ بن چکی۔ پچاس سے زائد افراد پی ٹی آئی پارلیمنٹیرینز بنا چکے ہیں جو رہ گئے ہیں وہ ادھر ادھر اڑنے کی جگہ تلاش کر رہے ہیں۔ ان حالات میں وہ اپنے نمبرز کو دیکھیں تو یہ شکوہ کرنا ہی نہیں چاہیے۔ رہی بات دو بڑوں کی اگر انہوں نے اپنے اتحادیوں کو مشاورتی عمل کا حصہ نہیں بنایا نگران وزیراعظم کا فیصلہ خود ہی کر لیا ہے تو پھر ٹوٹ پھوٹ کا شکار پاکستان تحریک انصاف کس کھاتے میں آتی ہے۔ اگر انہوں نے فیصلہ کرنا ہے تو وہ آپ سے مشاورت کیوں کریں گے۔ جب آپ حکومت میں تھے تو کبھی کسی کو مشاورت کے لائق سمجھا، کبھی کسی کو عزت دی، کبھی سیاسی حریف کو اس کا جائز مقام دیا۔ اگر شاہ محمود قریشی کی جماعت نے کسی کو کوئی اچھی چیز دی ہی نہیں ہے تو توقع کیوں کرتے ہیں۔ اب گلے شکوے کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ چڑیاں کھیت چگ چکی ہیں۔ ویسے حیرت ہے کہ شاہ محمود قریشی کو اب بھی شک ہے کہ وہ اس سیاسی حیثیت میں ہیں کہ ان کے ساتھ مشاورت ہونی چاہیے۔ شاہ محمود قریشی کے لیے ضروری ہے کہ حقیقی زندگی میں واپس آئیں زمینی حقائق کا جائزہ لیں اور اپنے قائد کو بھی بتائیں کہ وقت بدل چکا ہے۔ ہر روز بیانات جاری کرنے والی سہولت کسی بھی وقت ختم ہو سکتی ہے۔ دوسری طرف عمران خان اور ان کے حمایتیوں کو ایک بڑا دھچکہ لگا ہے۔ خیبر پختونخوا کے سابق وزیر اعلٰی پرویز خٹک نے پی ٹی آئی پارلیمنٹیرینز بنا لی ہے۔ نئی جماعت کے قیام سے تحریک انصاف کے ستاون اراکین قومی و صوبائی اسمبلی ٹوٹ گئے ہیں ۔ خیبر پختونخوا کے سابق وزیر اعلٰی محمود خان بھی نئی جماعت میں شامل ہو گئے ہیں۔ یعنی دس سال میں کے پی کے میںپی ٹی آئی قائد کے دونوں وزرائے اعلی نے ان پر عدم اعتماد کا اظہار کر دیا ہے۔ ایک عدم اعتماد کے ذریعے عمران خان کو قومی اسمبلی سے نکالا گیا تھا اب ان کی جماعت کے پچاس سے زائد اراکین نے بھی ان پر عدم اعتماد کا اظہار کر دیا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف پارلیمنٹیرینز کے پہلے اجلاس میں پرویز خٹک کا کہنا تھا کہ "ہمارے ساتھ ہم خیال ارکان اسمبلی اکٹھے ہوئے ہیں۔ متفقہ فیصلہ یہی ہے کہ نئی جماعت پی ٹی آئی پارلیمنٹیرینز کی بنیاد رکھیں گے، پارٹی منشور اور جھنڈے سے متعلق جلد اعلان کریں گے ، ہمارا فیصلہ پاکستان کے مفاد میں ہو گا۔"پاکستان تحریک انصاف کے قائدکی ہٹ دھرمی اور ریاستی و دفاعی اداروں کو کمزور کرنے کی سازشوں کا نتیجہ ہے کہ آج ان کے ساتھی اپنے راستے الگ کر رہے ہیں۔ اس میں کسی کو قصوروار ٹھہرانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ پی ٹی آئی کی تباہی اور ملک میں مہنگائی اور معاشی بدحالی کے ذمہ دار اس کے قائد ہیں۔ انہوں نے ملک کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ ملک میں نفرت پھیلائی ہے۔ آج بھی نو مئی کے دلخراش واقعات کے ملزمان گرفتار ہو رہے ہیں اور تکلیف دہ حقائق سامنے آ رہے ہیں۔ وہ سیاست دان جسے ملک کے نوجوانوں نے روایتی سیاست ختم کرنے اور ملک کے دیرینہ مسائل ختم کرنے کے لیے ووٹ دیا، اعتماد کا اظہار کیا اس سیاست دان نے ملک کے دفاعی اداروں کو ہدف بنا کر دشمنوں کے ایجنڈے کو آگے بڑھایا۔ آج تک جو شواہد سامنے آ رہے ہیں وہ یہ ثابت کرتے ہیں کہ نو مئی کو ملک میں جو کچھ ہوا وہ ایک منظم منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا۔ سانحہ نو مئی سے متعلق سامنے آنے والی مزید تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے ملزمان کو عسکری تنصیبات کو نشانہ بنائے ہوئے ہیں، توڑ پھوڑ کر رہے ہیں۔ ملزمان نے عسکری ہسپتال، ائیرفورس بیس سرگودھا اور عسکری تعلیمی اداروں کو بھی نہ بخشا۔ سی ایس ڈی لاہور سے احتجاج کے بہانے لاکھوں روپے کیش بھی لوٹ لیا گیا، اس کے علاوہ عسکری تاریخ اور جنگوں میں پاک فوج کا ریکارڈ رکھنے والے ادارے پر دھاوا بول کر ریکارڈ جلا دیا گیا۔ چکدرہ قلعے پر حملے کے بعد پورے قلعے، ریکارڈ اور گاڑیوں کو نذر آتش کر دیا گیا۔لیفٹیننٹ سجاد عالم شہید کی یادگار پر تصویر کو جلا کر ہمارا چیئرمین زندہ باد لکھ دیا گیا۔ یہ ساری کارروائیاں چیئرمین پی ٹی آئی کے زہریلے بیانیے کے نتیجے میں ہوئی ہیں اور ملک بھر میں مخصوص افراد کو تیار کر کے فوجی تنصیبات کی طرف روانہ کیا گیا۔ یہ بغاوت تھی اور بغاوت کچلی گئی ہے اس کے باوجود شاہ محمود قریشی کو یہ گلہ ہے کہ نگران وزیراعظم کے معاملے میں ان سے مشاورت نہیں کی گئی۔ ان واقعات کے بعد تو کوئی آپ سے بات کرنا بھی پسند نہ کرے گا آپ مشاورتی عمل کا حصہ بنائے جانے پر رو رہے ہیں۔ جو بویا ہے وہ کاٹیں جو کیا ہے وہ بھگتیں۔
آخر میں بسمل صابری کا کلام
وہ عکس بن کے مری چشم تر میں رہتا ہے
عجیب شخص ہے پانی کے گھر میں رہتا ہے
وہی ستارہ شب غم کا اک ستارہ ہے
وہ اک ستارہ جو چشم سحر میں رہتا ہے
کھلی فضا کا پیامی ہوا کا باسی ہے
کہاں وہ حلقہ دیوار و در میں رہتا ہے
جو میرے ہونٹوں پہ آئے تو گنگناؤں اسے
وہ شعر بن کے بیاض نظر میں رہتا ہے
گزرتا وقت مرا غم گسار کیا ہو گا
یہ خود تعاقب شام و سحر میں رہتا ہے
مرا ہی روپ ہے تو غور سے اگر دیکھے
بگولہ سا جو تری رہ گزر میں رہتا ہے
نہ جانے کون ہے جس کی تلاش میں بسمل
ہر ایک سانس مرا اب سفر میں رہتا ہے