تم بورڈ میں ہوتے ہو گویا جب میں نہیں ہوتا!!!!
چوہدری ذکاءاشرف پی سی بی مینجمنٹ کمیٹی کے سربراہ بن گئے ہیں امکان ہے کہ وہ منتخب چیئرمین بھی بن جائیں۔ کرکٹ بورڈ کے چیئرمین کا عہدہ سنبھالنے کے بعد سب سے بڑی تبدیلی یہ آئی ہے کہ سٹیڈیم کے اردگرد بجلی کے کھمبوں پر ان کی تصویر اور عظمت پرویز کی طرف سے مبارک باد کے پیغامات نظر آنا شروع ہوئے ہیں۔ یعنی بجلی کے کھمبوں کا بہتر استعمال ہو رہا ہے۔ ہو سکتا ہے کسی دیوانے کے لیے یہ تصویر بھی عجوبے سے کم نہ ہو۔ بندے کے دل میں کیا آئے کوئی پتہ لگتا ہے۔ جس طرح ہر شخص معلومات کا خزانہ اور تخلیقی کاموں کا صندوق اٹھائے پھرتا ہے وہ چوہدری ذکا اشرف اور عظمت پرویز کی اس فلیکس کے ساتھ سیلفی لے کر لوگوں کو بتانا شروع کرے کہ دیکھو میرے ذکا صاحب سے بڑے تعلقات ہیں انہوں نے یہ فلیکس یا ہینگر میرے کہنے پر لگوایا تھا یقین نہیں آتا تو یہ دیکھو میں اس کے ساتھ سیلفی بھی لے چکا ہوں ایسے ڈرامے کرنے والوں کی کوئی کمی نہیں۔ یعنی ذکا اشرف خود نہ ہو تو ان کی فوٹو سے کام چلایا جا سکتا ہے۔ میں قذافی سٹیڈیم کے پاس کھڑا یہ فلیکس دیکھ ہی رہا تھا کہ سینئر سپورٹس اینکر، صحافی، کمنٹیٹر مرزا اقبال بیگ کا ایک ٹویٹ نظر سے گذرا۔
مرزا اقبال بیگ لکھتے ہیں "
پی سی بی مینجمنٹ کمیٹی کے چیئرمین کی عدم موجودگی میں ان کے صاحبزادے کرکٹ امور چلاتے رہے اور ان ہی کی ہدایت پر احمد نواز اور ارباب الطاف کو پی سی بی کے خرچے پر کوئٹہ بھیجا گیا جہاں وہ فائیو سٹار ہوٹل میں ٹھہرے۔ توقع ہے کہ ذکا صاحب اس مداخلت کا نوٹس لیں گے اور گزشتہ کمیٹی کی غلطیاں نہیں دہرائیں گے"
یہ بالکل قذافی سٹیڈیم کے باہر لگی چیئرمین کرکٹ بورڈ کی تصویر والی فلیکس والی صورتحال ہے جہاں کوئی نوسرباز سیلفی بنائے اور پھر لوگوں کو بتاتا پھرے کہ وہ یہ مشہوری چیئرمین پی سی بی کے کہنے پر کر رہا ہے۔ یہ مرزا اقبال بیگ نے جن دو افراد کے نام لکھے ہیں ملک میں علاقائی کرکٹ کے تنازعات کو حل کرنے کے لیے کیا ان سے بہتر کوئی شخص نہیں تھا قور اگر بات یہاں تک پہنچ چکی ہے تو آپ سمجھ جائیں کہ پی سی بی مینجمنٹ کمیٹی کن حالات میں اور کس فکر کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے۔ یہ خبر اس لیے بھی تشویشناک ہے کہ کرکٹ بورڈ کن لوگوں سے مشاورت کر رہا ہے اور کس کے ذریعے معاملات سلجھانے کی کوشش کر رہا ہے۔ مینجمنٹ کمیٹی میں جن لوگوں کو شامل کیا گیا ہے وہ کرکٹ سے جڑے ہیں کہ شاید ایک دوسرے کو بھی نہیں جانتے ہوں گے۔ ڈومیسٹک سیزن شروع ہونے کو ہے اور کوئی نہیں جانتا کہ فیصلے کب کون اور کیسے کرے گا۔
اس مینجمنٹ کمیٹی میں کرکٹ سے زیادہ سیاسی تعلقات کو اہمیت دی گئی ہے۔ ماضی میں بھی ذکا اشرف جب چیئرمین بنے تھے تو جیالے کرکٹ بورڈ دفاتر میں پہلی منزل پر جیے بھٹو کے نعرے لگاتے ہوئے اپنی موجودگی کا احساس دلاتے رہتے تھے۔ کیا ایک مرتبہ پھر کرکٹ بورڈ کو کسی سیاسی جماعت کا دفتر تو نہیں بنا دیا جائے گا۔
یاد رہے چند روز قبل پی سی بی نے ایک اشتہار بھی شائع کیا جس کے ذریعے علم ہوا کہ ایڈوائزر الیکشن، کنسلٹنٹ کلب/ ڈسٹرکٹ سطح کے کیسز دیکھنے کے لیے بھی کسی کی خدمات حاصل کی جا رہی ہیں۔ ڈائریکٹر کوآرڈینیشن اور کنسلٹنٹ میڈیا مانیٹرنگ سیل بھی رکھا جا رہا ہے۔ دیکھا جائے تو یہ سارے کام کرنے کے لیے سٹاف پہلے سے ہی موجود ہے۔ لیگل ٹیم موجود ہے، اچھا بھلا میڈیا سیل ہے، صوبائی ایسوسی ایشنز کے عہدیداروں کا انتخاب عمل میں آ چکا ہے۔ جن ریجنز میں رکاوٹ ہے اس کی وجہ بھی پی سی بی کے کمروں میں تلاش کی جائے تو یہ مسئلہ حل ہونے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا۔ واقفان حال بتاتے ہیں کہ اشتہار تو ہمیشہ کی طرح کاغذی کارروائی ہے بندے تو رکھے جا چکے ہیں۔ یعنی اشتہار بعد میں جاری کیا ہے انتخاب پہلے ہی ہو چکا ہے۔ دیکھتے ہیں آنے والے دنوں میں ذکا اشرف کیا کرتے ہیں کہیں ان کی عدم موجودگی میں بورڈ کو ان کے صاحبزادے چلائیں گے۔ کیا اہم عہدوں پر تقرریاں صلاحیت، قابلیت کے بجائے سیاسی تعلقات اور سیاسی وابستگی کی بنیاد پر ہوں گی۔ بائیس دسمبر کے بعد جن لوگوں نے بورڈ کے خزانے کو نقصان پہنچایا اور میرٹ کہ دھجیاں بکھیریں انہیں بھی یاد رکھنا چاہیے، وہ چہرے نگاہ میں رہنے چاہییں کہ میرٹ، کفایت شعاری اور دوسروں پر انگلیاں اٹھانے سے پہلے وہ خود دیکھیں کہ طاقت اور اقتدار ملنے کے بعد انہوں نے کھیل کے بارے فیصلے کرتے ہوئے کن چیزوں کو اہمیت دی۔ بہرحال اس پر دوبارہ بھی بات ہو گی۔ جاتے جاتے ذکا صاحب کو مشورہ ہے کہ دوسری مرتبہ اقتدار ملا ہے تو پہلے دور کی غلطیوں کو دہرانے سے گریز کریں۔ ورنہ یہاں اقتدار کا سورج غروب ہونے میں زیادہ وقت نہیں لگتا۔