عبدالحفیظ سالب(آخر ی قسط)
سالب صاحب دانہ (بارہ مولا) میں پیدا ہوئے اور ترک وطن کے بعد پاکستان آئے۔ پاکستان آکر وہ ریڈیو آزاد کشمیر سے وابستہ ہوگئے۔ ان کے کئی پروگراموں نے بہت مقبولیت حاصل کی۔ ریڈیو سے ریٹائر ہونے کے بعد وہ روزنامہ جرا¿ت مظفر آباد کے ایڈیٹر بنے، انہوں نے مظفر آبا د میںسنٹرل پریس کلب کی بنیاد رکھی اور اس کے چیئرمین منتخب ہوئے، پھر انہوں نے اپناسات روزہ جریدہ آغاز نکالا۔ انہوں نے کشمیر کی آزادی کے حوالے سے ایک ٹیلی ویژن ڈرامے میں بھی کام کرکے بڑی شہرت حاصل کی۔
سالب صاحب 8 اکتوبر 2005 ءکو زلزلہ کے سانحہ میں شہید ہوگئے۔ میں نے ان کے انتقال کی خبر سانحہ کے دو روز بعد ریڈیو پاکستان کے ایک خبرنامہ میں سنی کیونکہ آزادکشمیر کا پاکستان سے مواصلاتی رابطہ منقطع ہو چکا تھا اور ان کے فون نمبروں سے کوئی جواب نہیں آرہا تھا۔
ان کی صاحبزادی نے سات روزہ آغاز میں ایک مضمون لکھ کر سالب صاحب کی زندگی کے آخری لمحوں کی یادیں ان الفاظ میں تازہ کی ہیں۔
” میں نے 7 اکتوبر2005 ءکو رات کو چاند کو بہت اُداس دیکھا۔ جب میں نے چاند کو غلط سمت میں غروب ہوتے دیکھا تو اپنے ابو سے کہا اِدھر آئیں دیکھیں چاند کہاں غروب ہو رہا ہے۔ انہوں نے بھی شائد یہ محسوس کیا کہ اس طرح کیوں ہو رہا ہے تو فقط یہ الفاظ ان کی زبان پر جاری ہوئے بیٹا! یہ قیامت کی نشانی ہے۔ یہ ماہ رمضان تھا۔ ہم عشا کی نماز کے بعد اپنے اپنے کمروں میں سونے کے لئے چلے گئے۔ جس طرح وہ شب سیاہ تھی اسی طرح 8 اکتوبر کو صبح بھی مجھے اتنی روشنی نہ لگی۔ آٹھ بجے صبح گھر سے دفتر جانے کے لئے نکلتے ہوئے کھڑکی سے اپنے ابو کو دیکھا تو میں نے ان کا چہرہ ملول پایا۔ یہ منظر آج بھی آنکھوں میں ٹھہر سا گیا ہے۔ میں نے دفتر جاتے ہوئے اپنے گھر کو حویلی کی طرح شان و شوکت سے کھڑے دیکھا۔ آٹھ بج کر چالیس منٹ ہوں گے میں اپنے دفتر میں دارالفلاح کی بیوہ عورتوں کو رمضان کے لئے راشن دے رہی تھی اور وہ قریب ہی کرسیوں پر بیٹھی رجسٹر پر دستخط کررہی تھیں کہ درودیوار ہلنے لگے اور ایسی خوفناک آوازیں سنائی دینے لگیں جیسے قیامت آگئی ہو۔ میں نے خواتین سے کہا کہ وہ کرسیاں چھوڑ کر نیچے زمین پر بیٹھ جائیں۔ ہم سب کلمہ شریف اور درود شریف کا ورد کررہے تھے۔ ہم آہستہ آہستہ بیٹھ بیٹھ کر عمارت سے باہر آئے تو دیکھا کہ ہر طرف آہ و بکا کا عالم تھا۔ لوگ اِدھر سے اُدھر بھاگ رہے تھے۔ سامنے پہاڑ ٹوٹ کر نیچے آرہا تھا۔ ہر طرف خون ہی خون تھا۔ سامنے کی عمارتیں گر رہی تھیں۔ چاروں طرف گردوغبار تھا۔ امی ابو سے رابطہ ممکن نہیں رہا تھا۔ بس اتنا خیال تھا کہ ہوسکتا ہے گھر میں کچھ دراڑیں پڑی ہوں۔ امی ابو ٹھیک ہوں گے۔ میں دفتر کی ملازمہ کو ساتھ لے کر گھر کی طرف چل پڑی۔ جھٹکے متواتر لگ رہے تھے۔ گھر کی طرف جانے والا ہر راستہ قیامت کا منظر پیش کررہا تھا۔ بڑے بڑے گھر ، کوٹھیاں گری ہوئی یا بس گرنے والی تھیں۔ لوگ زخمی حالت میں اپنے پیاروں کی تلاش میں اِدھر اُدھر بھٹک رہے تھے۔ کالج روڈ پر تو منظر ہی اور تھا۔ پھولوں کی طرح پیاری ، شرمیلی بچیوں کو لوگ ملبہ سے نکال رہے تھے۔ حسین بالوں والی دراز قدکونپل بھی ان لاشوں میں سے ایک لاش تھی۔ میں نیم بے ہوشی کی حالت میں گری ہوئی دیواروں کو پھلانگتی اپنی گلی کی نکڑ تک پہنچتی ہوں۔ میری بہن راشدہ مجھے کہتی ہے کہ گھر گر گیا ہے۔ سب کچھ ختم ہوگیا ہے۔ امی ابو گھر کے ملبے تلے دب گئے ہیں۔ البتہ بھائی، بھابھی کو ملبہ سے نکال لیا گیا ہے۔ میں بمشکل گھر تک پہنچتی ہوں تو اپنے پیارے گھر کو زمین بوس پایا۔ میرے پیارے امی اور ابو ملبہ کے نیچے تھے۔ باہر نکلنے کا کوئی راستہ نہ تھا اور وہاں کوئی ایسی چیز میسر نہیں تھی کہ جس کی مدد سے لینٹر کو توڑا جاسکتا ۔ بے چارہ طارق باہر نکالتے نکالتے اللہ کو پیارا ہوگیا۔ میں ہر آنے جانے والے کو پکارتی رہی کہ میرے ابو امی کو ملبہ سے نکالیں لیکن بے بسی اور نفسا نفسی کا عالم تھا اور کوئی مدد کو نہ آیا اور میریے امی ابو مدد کوپکارتے پکارتے اللہ کے پاس پہنچ گئے۔
دو راتیں کھلے آسماں تلے جلال باغ میں گزاریں۔ تیسرے دن میرے پیارے بھائی منیر احمد سعودی عرب سے آئے اور اپنے ساتھ راولپنڈی سے آئے چند عزیزوں اور لائی ہوئی کدالوں کی مدد سے ان کے جسد خاکی ملبہ سے نکالے جاسکے۔ اس قیامت میں چند لوگوں نے ان کی نماز جنازہ پڑھی اور دونوں شہداءکو ساتھ ساتھ منوں مٹی تلے دفن کر دیا گیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
آخر میں ڈاکٹر کاشف رفیق کے چند اشعار۔
کبھی آباد تھا یہاں اک شہر
یا تھا شاید میرا گماں اک شہر
O
کتنی صدیوں کا تھا سفر اس کا
ایک پل میں گیا کہاں اک شہر
O
کل تھا تصویر حسن جنت کی
آج عبرت کا ہے نشاں اک شہر
O
کرب، اندوہ، یاس، حسرت اور
بے بسی کی ہے داستاں اک شہر
O
آہ! کاشف وہ لوٹ سکتے نہیں
جن کے دم سے تھا شادماں اک شہر