• news

عمران کی مختلف مقدمات میں گرفتاری روکنے کا حکم واپس 


لاہور (خبر نگار) لاہور ہائیکورٹ کی جسٹس عالیہ نیلم نے عمران خان کو مختلف مقدمات میں گرفتار کرنے سے روکنے کا حکم واپس لیتے ہوئے سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دی۔ عدالت میں چیئرمین پی ٹی آئی کے پنجاب کے کیس یکجا کرنے اور کارروائی روکنے کی درخواست پر سماعت ہوئی۔ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے موقف اپنایا کہ عبوری چالان پیش ہوچکے ہیں، چیئرمین پی ٹی آئی کو دیا گیا ریلیف واپس لیا جائے۔ عدالت نے چیئرمین پی ٹی آئی کیخلاف تادیبی کارروائی سے روک رکھا ہے۔ دوران سماعت وکیل پی ٹی آئی انتظار حسین نے کہا کہ سینئر وکیل دستیاب نہیں ہیں مہلت دی جائے، استدعا ہے کہ عدالت تادیبی کارروائی سے روکنے کا حکم واپس نہ لے۔ عدالت نے وکیل کی استدعا مسترد کردی۔ عدالت نے ریمارکس دیئے کہ قانون میں بالکل واضح لکھا ہوا ہے مقدمہ میں پیش ہوا جائے، ایسا نہیں ہوسکتا کہ ایک شخص کیلئے پورے پاکستان سے لوگ اکٹھے ہوں، اگر کیس جھوٹے ہیں تو متعلقہ عدالتیں ان کو خارج کردیں گی، آپ وہاں پیش ہوں، کیس کا سامنا کریں۔ انسداد دہشت گردی عدالت کی جج عبہر گل خان نے جناح ہاﺅس حملہ سمیت 5 مقدمات میں چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی عبوری ضمانت میں 8 اگست تک توسیع کردی۔ عدالت نے آئندہ سماعت پر وکلا سے دلائل طلب کرلئے۔ پراسیکیوٹر فرہاد علی شاہ نے عدالت کو بتایا کہ پولیس تفتیش کے مطابق چیئرمین پی ٹی آئی قصور وار پائے گئے ہیں۔

اسلام آباد (وقائع نگار) ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ہمایوں دلاور کی عدالت میں زیر سماعت چیئرمین پی ٹی آئی کے خلاف توشہ خانہ فوجداری کارروائی کیس میں پہلے گواہ پر جرح جاری رہی۔ عدالت نے استفسار کیاکہ کیا توشہ خانہ کیس کے گواہ آئے ہوئے ہیں؟۔ امجد پرویز ایڈووکیٹ نے گواہ سے کہا کہ سوال سمجھ نہ آئے تو دوبارہ پوچھ لیں، آپ نے خواجہ صاحب سے بحث نہیں کرنی، جس کے بعد چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل خواجہ حارث ایڈووکیٹ نے پہلے گواہ وقاص ملک پر جرح شروع کرتے ہوئے استفسار کیا کہ آپ الیکشن کمیشن سے کب وابستہ ہوئے؟، جس پر گواہ نے بتایاکہ میں بطور الیکشن افسر 2006ءمیں الیکشن کمیشن سے منسلک ہوا تھا، میں نے مئی 2023 میں این آئی ایم ٹریننگ جوائن کی تھی، دوران جرح الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز کی جانب سے گواہ سے مکالمہ کی کوشش پر خواجہ حارث ایڈووکیٹ نے کہاکہ خدا کے واسطے آپ جو کہیں گے ایسے تو پھر گواہ وہی کہے گا، وکیل خواجہ حارث نے گواہ سے پوچھا کہ آپ نے شکایت پر کب دستخط کیے؟، جس پر گواہ نے بتایا کہ شکایت کمپیوٹر سے نکالی گئی، ویری فیکیشن خود ہی نکلی، خواجہ حارث ایڈووکیٹ نے کہا کہ میں نے نہیں پوچھا یہ، یہ بیان نہیں، جرح ہے، قانونی طور پر اجازت نہیں اس کی۔ گواہ وقاص ملک نے کہاکہ شکایت کی ویری فیکیشن اکتوبر 2022 میں کی گئی، وکیل نے پوچھا کہ کیا آپ نے شکایت دائر کرنے سے پہلے تفصیل سے شکایت کو پڑھا تھا؟، جس پر گواہ نے بتایاکہ جی میں نے تمام تفصیلات شکایت دائر کرنے سے قبل پڑھی تھیں، میں نے الیکشن کمیشن کی کمپلینٹ کے ساتھ 8 نومبر 2022 کو بیان حلفی منسلک کیا تھا۔ اس موقع پر عدالت نے کہا کہ اب کسی نے کارروائی میں مداخلت کی تو باہر نکال دیں گے۔ گواہ وقاص ملک نے کہاکہ کمپلینٹ اور بیان حلفی پر دستخط میں فرق ہے، کمپلینٹ ویری فیکیشن پر بیان حلفی کا لفظ نہیں لکھا ہوا۔ اس موقع پر خواجہ حارث ایڈووکیٹ نے امجد پرویز ایڈووکیٹ سے کہاکہ آپ نے جتنا پڑھایا ہو گا یہ سوال اس سے باہر سے آ گیا ہو گا، جس پر امجد پرویز ایڈووکیٹ نے کہا کہ وکیل کا کام اپنا کام کرنا ہوتا ہے اس طرح نہیں ہوتا۔ گواہ وقاص ملک نے کہاکہ کمپلینٹ اور بیان حلفی پر میرے دستخط ہیں۔ خواجہ حارث ایڈووکیٹ نے گواہ سے استفسار کیا کہ دائر شکایت میں لکھا ہے کہ آپ ڈپٹی الیکشن کمشنر تعینات تھے؟، جس پر گواہ نے کہاکہ شکایت میں لکھا گیا میرا ڈپٹی الیکشن کمشنر کا عہدہ ٹائپنگ کا مسئلہ تھا، وکیل نے استفسار کیا کہ عہدے کی ٹائپنگ کی غلطی کا آپ کو کب معلوم ہوا؟، جس پر گواہ نے کہاکہ مجھے شکایت دائر کرنے کے بعد اپنے عہدے کی ٹائپنگ کی غلطی کا معلوم ہوا، وکیل نے کہاکہ کیا دو ہفتے بعد آپ کو ٹائپسٹ کی غلطی کا معلوم ہوا؟، اس پر گواہ نے کہاکہ مجھے تاریخ یاد نہیں، کہہ سکتے ہیں کہ ایک ماہ کے بعد غلطی کا معلوم ہوا، وکیل نے کہاکہ عہدے کی غلطی کا معلوم ہوا تو کوئی درخواست دائر کی؟، اس پر گواہ نے کہاکہ میں نے کوئی درخواست عہدے کی ٹائپنگ کی غلطی پر عدالت میں دائر نہیں کی، وکیل نے کہاکہ کیا پہلا بیان دیتے ہوئے اپنے عہدے کی ٹائپنگ کی کا بتایا؟، گواہ نے کہاکہ میں نے پہلا بیان دیتے ہوئے عہدے کی ٹائپنگ کی غلطی کا نہیں ذکر کیا، وکیل نے کہا کہ کیا آپ نے بیان میں بتایاکہ ڈپٹی الیکشن کمیشن کا کوئی عہدہ ہوتا ہی نہیں؟، جس پر گواہ نے کہا کہ نہیں، میں نے عدالت کو نہیں بتایا کہ ڈپٹی الیکشن کمیشن کا کوئی عہدہ نہیں ہوتا، وکیل نے کہاکہ کیا کوئی بیان حلفی شکایت کے ساتھ جمع کروایا تھا؟، پی ٹی آئی کے ایک وکیل کے بولنے پر جج ہمایوں دلاور نے برہمی کا اظہارکرتے ہوئے کہاکہ آپ کیا چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل ہیں؟ نہیں تو نہ بولیں!، اب آپ بولے تو آپ کو کمرہ عدالت سے باہر نکال دیا جائے گا۔ خواجہ حارث نے گواہ سے استفسار کیاکہ آپ کو کب معلوم ہوا کہ کہاں مکمل دستخط اور کہاں ابتدائی دستخط ہونے چاہئیں؟، جس پر گواہ نے کہاکہ اگر زیادہ اہم کام ہو تو مکمل دستخط کرتاہوں ورنہ ابتدائی دستخط کردیتاہوں، شکایت زیادہ اہم دستاویزات تھی،جس پر مکمل دستخط کیے ہیں،بیان حلفی کم اہم تھا اس لیے اس پر ابتدائی دستخط کیے، دوران سماعت وکیل الیکشن کمیشن امجدپرویز کی جانب سے درستگی کی کوشش پر خواجہ حارث نے اعتراض اٹھا دیا اورگواہ سے کہاکہ میرے مطابق آپ نے دائر شکایت کرتے وقت اوتھ لیا اور جھوٹ بولا،دائر شکایت کی ویری فیکیشن پر کہیں نہیں لکھا کہ یہ اوتھ پر دیاگیاہے،گواہ نے کہاکہ میں نے شکایت دائر کی اور اوتھ پر دائر کی، دوران جرح وکیل چیئرمین پی ٹی آئی خواجہ حارث اور وکیل الیکشن کمیشن امجدپرویز کے درمیان نوک جھونک جاری رہی، جج ہمایوں دلاور نے وکیل امجدپرویز ایڈووکیٹ کو جرح کے دوران بولنے سے روک دیا، امجد پرویز ایڈووکیٹ نے خواجہ حارث ایڈووکیٹ سے کہاکہ ہر دوسری بات آپ کی اس پر ختم ہوتی ہے کہ جو پڑھایا ہو گا وہ بتا دیا،ظاہر ہے وکیل کا جو کام ہے وہ میں نے کیا ہے ،گواہ نے کہاکہ شکایت میری نظر میں زیادہ اہم تھی جس پر مکمل دستخط کیے بیان حلفی کم اہم تھا اس لیے ابتدائی دستخط کیے، امجد پرویز ایڈووکیٹ نے کہاکہ یہ کیس ہی نہیں کہ دستخط جعلی ہیں یا نہیں ،وکیل خواجہ حارث نے کہاکہ ہم یہ ہی تو واضح کرنا چاہتے ہیں کہ یہ سب کچھ جھوٹ بول رہے ہیں، خواجہ حارث ایڈووکیٹ نے کہاکہ یہ کاروائی ایسے نہیں چل سکتی،گواہ پر جرح کے دوران وکیل امجد پرویز کے بار بار بولنے پر خواجہ حارث ایڈووکیٹ نے اعتراض اٹھاتے ہوئے کہاکہ الیکشن کمیشن میں کس قسم کی پروسیڈنگ ہوئی وہ مجھے دیکھنا ضروری ہے، عدالت کے جج نے وکیل خواجہ حارث سے استفسار کیاکہ کیا اس کاروائی کو چیلنج کرنے کا یہ فورم ہے ، جس پر وکیل خواجہ حارث نے کہاکہ آپ نے اپنے ریکارڈ پر وہ آرڈر رکھا ہوا اس کی کاروائی پوچھنا میرا حق ہے۔ وکیل امجد پرویز نے کہاکہ الیکشن کمیشن کی کارروائی اس فورم پر چیلنج نہیں ہوئی نہ اس عدالت کے سامنے ہے،جس پر الزام ہے اس نے خود کہا میں نے یہ گھڑیاں بیچ دیں اس کا یہ جواب نہیں دے رہے،دو ہائیکورٹس میں انہوں نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ چیلنج کر رکھا ہے،فارم بی میں ملزم نے گھڑیاں بیچ کر ڈیکلیئر نہیں کیں،انہوں نے کہا ہم نے گھڑیاں بیچ کر پیسے فارم بی میں ظاہر کر دئیے لیکن وہ ثابت نہیں کر سکے ، وکیل خواجہ حارث نے کہاکہ ان کی تقریر ختم ہو گئی تو میں اب ان کا جواب دوں گا، جج نے کہاکہ کیا آپ اعلی عدلیہ کے فورمز پر بھی اسی طرح آوازیں کستے ہیں، امجد پرویز ایڈووکیٹ نے کہاکہ ان کو اعتراض تھا، میں بیٹھ گیا ہوں،وکیل خواجہ حارث نے کہاکہ یہ سب ڈرامہ تھا جو الیکشن کمیشن نے ریفرنس کی بنیاد پر رچایا،یہ کہتے ہیں ہمارے خلاف کاروائی کے لیے سب کچھ لائیں گے ہمیں جرح نہیں کرنے دیں گے،میں تو یہ کہہ رہا ہوں یہ ریکارڈ لیکر آئیں جو کاروائی الیکشن کمیشن میں ہوئی،الیکشن کمیشن یہ نہیں کہہ سکتا 50 فیصد ریکارڈ پیش کر رہا ہے باقی نہیں،الیکشن کمیشن اس عدالت کی کاروائی کنٹرول نہیں کر سکتا، امجد پرویز ایڈووکیٹ نے کہاکہ عدالت کے سامنے جو کیس ہے وہ شکایت سے متعلق ہے کہ جو الزامات ہے اس پر وکیل ملزم نے بات کرنی ہے، شکایت کے ساتھ جتنا ریکارڈ ہے وہ ان کا دیکھنا حق ہے وہ کل بھی موجود تھا آج بھی موجود ہے، الیکشن کمیشن کی پروسیڈنگ سے متعلق گواہ کا کوئی تعلق نہیں،نہ ہی الیکشن کمیشن کے فیصلہ کو یہاں چیلنج کیا ہوا ہے،شکایت سے متعلق اوریجنل ریکارڈ موجود ہے جو عدالتی ریکارڈ کا بھی حصہ ہے،عدالت کے جج نے کہاکہ الیکشن کمیشن کی توشہ خانہ پر سماعت انڈیپینڈنٹ تھی،الیکشن کمیشن کا فیصلہ اس عدالت میں چیلنج نہیں کیاگیا، شکایت کنندہ نے اس عدالت میں چیئرمین پی ٹی آئی کے خلاف الزامات کو ثابت کرناہے،عدالت نے الیکشن کمیشن کی سماعتوں سے متعلق وکیل خواجہ حارث کی درخواست کو خارج کردیااور سماعت میں نمازجمعہ کا وقفہ کردیا، اس پرچیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل نے پیر تک کیس ملتوی کرنے کی استدعاکی، جج نے کہاکہ آپ جمعہ کے بعد آجائیں جرح جاری رکھیں، وکیل خواجہ حارث نے کہاکہ پیر تک ملتوی کریں جمعہ کے بعد میری مصروفیت ہے،عدالت کے جج نے خواجہ حارث ایڈووکیٹ سے کہاکہ عدالت کہہ رہی کہ الیکشن کمیشن کی سماعتوں کا ریکارڈ غیر اہم ہے،وکیل خواجہ حارث نے توشہ خانہ کیس کی سماعت پیر تک ملتوی کرنے کی استدعا کرتے ہوئے کہاکہ ایک حصہ مکمل کرلیا ہے، جمعہ بھی ہے آج،جج نے کہاکہ جمعہ کے بعد جرح مکمل کرلیں، جرح ادھوری نہیں چھوڑ سکتے، جس پر خواجہ حارث ایڈووکیٹ نے کہاکہ اور بھی کام ہیں، میں نے عدالت کے ساتھ تعاون کیا، کافی لمبی جرح ہوگئی، جج نے کہاکہ پیر تو ہو ہی نہیں سکتی، آئندہ سماعت ہوگی تو کل ہوگی، جس پر خواجہ حارث ایڈووکیٹ نے کہاکہ آپ نے خود نمائندہ مقرر کردیا، ایسے تو نہیں چلے گا، جج نے کہاکہ آپ نے کبھی جرح ادھوری چھوڑی ہے؟،پہلے گواہ وقاص ملک کی حد تک مکمل کریں، خواجہ حارث ایڈووکیٹ نے کہاکہ فریش ہونا ہے، پیر تک ملتوی ہوگئی سماعت تو کیا ہو جائےگا؟،عدالت کے جج نے بار بار وکیل خواجہ حارث ایڈووکیٹ سے کہاکہ آپ گواہ وقاص ملک پر جرح مکمل کریں، جس پر خواجہ حارث ایڈووکیٹ نے کہاکہ آج جرح مکمل ہو ہی نہیں سکتی , عدالت کے اوقات 24 گھنٹے رکھ لیں پھر،جرح ہفتے ہفتے تک چلتی ہے، آپ چاہتے ہیں آج ہی سب کچھ ہوجائے،جج نے کہاکہ آپ کے پاس آج جرح مکمل کرنے کا کوئی جواز نہیں، خواجہ حارث ایڈووکیٹ نے کہاکہ میری ذہنی طور پر مزید جرح کے لیے تیار نہیں، فیملی آرہی ہے،جج ہمایوں دلاور نے وکیل خواجہ حارث کی سماعت پیر تک ملتوی کرنے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے نماز جمعہ کے بعد خواجہ حارث کو جرح مکمل کرنے کی ہدایت کردی، جس پر خواجہ حارث ایڈووکیٹ نے کہاکہ سوری! میں جمعہ کے بعد دستیاب نہیں اور کمرہ عدالت سے باہر چلے گئے، عدالت نے سماعت میں جمعہ کے بعد تک وقفہ کردیا، جس کے بعد سماعت شروع ہونے پر چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر گوہرعلی خان اور شیر افضل مروت عدالت پیش ہوئے۔ جج ہمایوں دلاور نے کہا کہ آپ لوگ جانتے ہیں شیر افضل مروت میرے بھی سینئر رہے ہیں، جس پر شیر افضل مروت ایڈووکیٹ نے کہا کہ آپ کا شکریہ اچھے الفاظ میں یاد کیا، ویسے میں بیرسٹر گوہر سے بھی سینئر ہوں، جج نے کہاکہ کیس کی سماعت کل تک ملتوی کر رہا ہوں، شیر افضل مروت ایڈووکیٹ نے کہا کہ پہلے بھی مجھے بولنے نہیں دیا تھا آج موقع دیں، کل کے بجائے پیر تک سماعت کو ملتوی کر دیں کوئی آسمان نہیں گر رہا۔ بیرسٹر گوہر علی خان نے کہاکہ دیکھیں سماعت کل تک ملتوی کر دیں گے پھر دیکھ لیں گے، میرے ماموں کی وفات ہو گئی تھی مجھے جانا پڑا۔ جج نے کہاکہ بیرسٹر گوہر کے ماموں کی وفات پر فاتحہ پڑھ لیتے ہیں، اس موقع پر کمرہ عدالت میں بیرسٹر گوہر کے ماموں کے لئے فاتحہ پڑھی گئی، جس کے بعد عدالت نے کیس کی سماعت آج صبح 9:30 بجے تک کیلئے ملتوی کر دی۔ علاوہ ازیں اسلام آباد ہائیکورٹ نے چیئرمین پی ٹی آئی کی چھ مقدمات اور بشری بی بی کی ایک مقدمہ دوسری عدالت کو منتقل کرنے کی درخواستیں سماعت کیلئے مقرر کردیں، چیف جسٹس عامر فاروق 26 جولائی کو سماعت کرینگے۔ سول جج قدرت اللہ کی عدالت نے چیئرمین پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی کے خلاف غیرشرعی نکاح کیس خارج کرنے کی درخواست پر فریقین کو نوٹس جاری کرنے اور دلائل طلب کرنے کا تحریری حکم نامہ جاری کردیا۔ انسداد دہشتگردی عدالت کے جج ابوالحسنات ذوالقرنین کی عدالت میں زیر سماعت چیئرمین پی ٹی آئی، اسد عمر، علی نواز اعوان، جمشید مغل کے خلاف تھانہ سنگجانی میں درج مقدمہ میں جج کی رخصت کے باعث سماعت ملتوی کردی گئی۔

ای پیپر-دی نیشن