شہید ِ جنگ ِ آزادی رائے احمد خان کھرل (2)
’’ رائے نیاز احمد خان کھرل !‘‘
معزز قارئین ! جنوری 2014ء میں راولپنڈی کے ایک مرحوم دوست شیخ محمد رمضان (اب مرحوم ) کے ذریعے میرا "Pir Mehr Ali Shah Arid Agriculture University" ( پیر مہر علی شاہ ایگری کلچر یونیورسٹی راولپنڈی) کے ( اْن دِنوں ) 54 سالہ وائس چانسلر رائے نیاز احمد خان کھرل سے تعارف ہْوا، چند دِن بعد (اْن دِنوں) گورنر پنجاب چودھری محمد سرور جب یونیورسٹی کے مہمان خصوصی بنے تو وہ مجھے بھی اپنے ساتھ لے گئے، پھر میری رائے نیاز احمد خان کھرل صاحب سے اور اْن کے کئی دوستوں سے کئی ملاقاتیں ہوئیں، پھر مجھے معلوم ہْوا کہ ’’شہید جنگ آزادی، شہید رائے احمد خان کھرل کا مزار فیصل آباد کے علاقہ ’’ جھامرہ ‘‘ میں ہے۔
’’نوائے وقت میں ! ‘‘
4 فروری 2014ء ’’مجاہد ِ آزادی ، رائے احمد خان کھرل‘‘ کے عنوان سے میرا پہلا کالم شائع ہْوا، جسے پاکستان اور بیرون پاکستان کھرل برادری کے نامور خواتین و حضرات نے بے حد پسند کِیا۔ چار دِن بعد وائس چانسلر رائے نیاز احمد خان کھرل نے جنابِ مجید نظامی کے نام اپنا ایک خط نما مضمون لکھا جو 11 فروری 2014ء کو ’’شہید ، رائے احمد خان کھرل کے بعد‘‘ کے عنوان سے شائع ہْوا۔ پھر کیا ہْوا۔ 16 مارچ 2014ء کو رائے نیاز احمد خان کھرل صاحب کا ایک اور مضمون شائع ہْوا جس کا عنوان تھا۔’’ وادی زَیتْون۔ پوٹھوہار !‘‘۔
’’ جناب ِ مجید نظامی ! ‘‘
معزز قارئین ’’مفسرِ نظریہ پاکستان ‘‘ جنابِ مجید نظامی بھی راجپوت تھے اور وہ کہا کرتے تھے کہ ’’بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح بھی راجپوت تھے ! ‘‘۔ اْنہوں نے مجھے اور اْردو اور پنجابی کے نامور شاعر، روزنامہ ’’نوائے وقت‘‘ کے سینئر ادارتی رْکن برادرِ عزیز و گرامی سعید آسی (طور راجپوت) کو حضرت قائداعظم اور شہید رائے احمد خان کھرل اور اْن ہی کی طرح اکابرین کی عظمت کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کرنے کا فن سِکھایا۔ (راجپوت برادری کی بیٹی ) میری بھی بیٹی (چیئرمین پیمرا ) پروفیسر محمد سلیم بیگ کی اہلیہ طاہرہ سلیم بیگ نے بھی اپنے ’’مجازی خْدا ‘‘ کی معرفت اْن کے بزرگ دوستوں سے شہید جنگ آزادی رائے احمد کھرل کے بارے بہت کچھ سیکھا اور پڑھا ہے۔
’’ شہید رائے احمد خان کھرل کے مزار پر !‘‘
معزز قارئین ! 4 مئی 2014ء کو میرے دوست، وائس چانسلر رائے نیاز احمد خان کھرل نے میرا شہید ِرائے احمد خان کھرل کے مزار پر حاضری کا بندوبست کردِیا تھا۔ 4 مئی کو مَیں نے اپنے داماد کاشف جاوید خان کی خدمات حاصل کِیں۔ 19 سال سے میرا معاونِ خصوصی طاہر لطیف بھی میرے ساتھ تھا۔ ہم رینالہ خورد پہنچ گئے۔ رائے نیاز احمد خان کھرل،رائے ولائت احمد خان کھرل ،رائے سرفراز احمد خان کھرل، رائے ذوالفقار علی خان کھرل، رائے بابر علی خان کھرل، ڈاکٹر رائے شاہد نیاز خان کھرل اور کئی دوسرے زْعماء نے مجھے کچّی پکّی ٹوٹی پھوٹی سڑکوں پر گْھما پھرا کر پسماندہ ترین کھرل سٹیٹ۔’’ گوگیرہ‘‘۔ دِکھائی۔ (گوگیرہ 1857 ء میں۔ 3 لاکھ سے زیادہ آبادی والا ضلع تھا)، رائے احمد خان کھرل کے قبیلہ اور جنگِ آزادی میں اْن کا ساتھ دینے پر دوسرے قبائل کو سزا دینے کے لئے ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت نے۔’’گوگیرہ‘‘۔ کو چار حصوں میں تقسیم کر کے اِسے ساہیوال، فیصل آباد اور جھنگ کا حصِہ بنا دِیا تھا۔ اور ان چاروں حصوں کو سکولوں سے محروم کردیا تھا۔ اْن کی زمینیں چھین لی گئی تھیں۔ اْن سے بیگار لی جاتی رہی اور انہیں رسہ گیر اور چورکہہ کر بدنام کیا گیا۔ بقول۔’’کھرل برادر ی‘‘۔ آزادی کے بعد بھی۔کھرل برادری۔مجھے سابق کھرل سٹیٹ کے دورے کی دعوت دینے والے رائے ربّ نواز خان کھرل۔ 4 اپریل کو انتقال کر گئے تھے۔
4 مئی کومرحوم کا چہلم تھا۔ پاکستان بھر سے آئے ہْوئے، مختلف برادریوں کے کئی ارکانِ پارلیمنٹ و صوبائی اسمبلی، بیورو کریٹس بھی تھے۔ کھرل برادری کے سردارِ قبیلہ۔ رائے امان اْللہ خان کھرل نظامی صاحب نے، رائے ربّ نواز خان کھرل کے جانشین کی حیثیت سے اْن کے بڑے بیٹے رائے گْل نواز خان کھرل کی دستار بندی کی۔ رائے گْل نواز خان کھرل نے کمال کر دِیا اور اعلان کِیا کہ۔’’ میرے والدِ مرحوم نے اپنی زندگی میں ہی میرے چچا رائے ظفر عباس خان کھرل کو میرا بڑا بھائی۔ "Declare"۔ کر دِیا تھا۔
مَیں اپنی دستار۔ اپنے بڑے بھائی کے سر پر سجا رہا ہوں۔ رائے گْل نواز خان کھرل کے چھوٹے بھائی۔ رائے احمد نواز خان کھرل نے تائید کی۔ بہت ہی جذباتی منظر تھا جب رائے احمد خان کھرل شہید کے پڑپوتے نے اْن کے پوتے(اپنے چچا)۔کے سر پر دستار سجائی۔
ہندو دیو مالا کے مطابق تو ایک ہی دادا کی اولاد۔کورْوں اور پانڈْوئوں میں سلطنت کے لئے 18 دِن تک مہابھارت (جنگِ عظیم) ہوتی رہی۔ دستار بندی کے بعد رائے نیاز احمد خان کھرل نے میرا تعارف رائے ظفر عباس خان کھرل اور رائے گْل نواز کھرل سے کرایا تو دونوں نے گرم جوشی سے مجھے گلے لگا لیا اور اْن کے بعد رائے احمد خان کھرل کے ایک اور پوتے رائے حق نواز خان کھرل نے بھی۔ مَیں آبدیدہ ہو گیا۔
مَیں بچپن سے ہی تصّوراتی انسان ہْوں۔ مجھے یْوں محسوس ہْوا کہ گویا شہید رائے احمد خان کھرل مجھ سے’’ جپھّی‘‘ ڈال رہے ہیں۔ جھامرہ میں رائے احمد خان کھرل شہید کا مزار پْختہ اور سادہ ہے۔ کھرل برادری کے لوگ ہی ہر جمعرات کو وہاں چراغاں کرتے اور پْھول چڑھاتے ہیں۔ سالانہ میلہ بھی لگتا ہے۔ اتوار کو مزار کا دروازہ میرے لئے کھلوایا گیا۔ سیّد آصف حسین شاہ نے تالا کھولا۔مَیں عزیزم کاشف جاوید خان ، طاہر لطیف اور کھرل برادری کے زْعما ء کے ساتھ۔ اللہ تعالیٰ سے شہید رائے احمد خان کھرل کے درجات کی بلندی کے لئے دْعائیں مانگ رہے تھے تو مجھے۔ علّامہ اقبال کی ایک نظم۔
’’والدہ مرحومہ کی یاد میں‘‘۔
کا یہ مصِرع یاد آ گیا…
’’ آسمان ، تیری لحد پر ، شبنم افشانی کرے‘‘
…O …
پھر مَیں۔’’ گیان دِھیان‘‘۔ میں چلا گیا اور یہ دو شعر ہو گئے…
’’پْجّیا جدوں بہِشتّاں اندر،
دھرتی ماں پنجاب دا جایا!
لَے گئے فرشتے ، وڈّی حویلی،
امام حسینؓ دے کول بٹھایا!
…O…
فیر، اْنہاں دے مْبارک ہتھّاں،
اوس دے سِر تے ، تاج سجایا!
حْوراں تے غلِماناں،
احمد خان کھرل دا ، سہرا گایا! ‘‘
…O …
……………………(ختم شد )