• news

چین کے سو سال

  پاکستان اور چین دونوں ایک دوسرے کو بہترین دوست تسلیم کرتے ہیں چین کی دوستی کوہ ہمالیہ سے اونچی سمندر سے گہری اور شہد سے میٹھی ہے۔ اور چین پاکستان کا تیسرا بڑا تجارتی پارٹنر بھی ہے۔کرہء ارض پر چینی وہ واحد قوم ہے جسکو میں قوم سے بڑھ کر جنات سے تشبیہ دیتا ہوں اس لئے کہ چینی قوم نے پچھلے چھ سات دہائیوں میں ترقی کا وہ مثالی سفر طے کیا ہے کہ دنیا کو ورطہء حیرت میں ڈال دیا ہے۔چینی قوم اتنی منظم،متحد مربوط ہے کہ اسوقت روئے زمیں پہ شاید کوئی اور قوم ہو۔ چین نے زندگی کے تمام شعبہ جات میں یکساں ترقی کی ہے اور کسی سے مستعار نظام لئے بغیر اپنے ہی وضع کردہ اصولوں پہ مسلسل عملدرآمد سے صدیوں کا سفر طے کر کے ترقی یافتہ بننے والی قوموں کے آگے آکے کھڑی ہوگئی ہے جسکی مثال تاریخ کے اوراق میں نہیں ملتی۔
     پاکستان کے معتبر کالم نگاروں میں ایک نام قیوم نظامی صاحب کا بھی ہے۔گو انکا تعلق پی پی پی سے عرصہ دراز سے ہے اور پی پی پی بھی سوشلزم کے نعرے پہ سیاست کرتی رہی ہے۔ سیاسی اختلاف رائے سے ہٹ میں قارئین کو قیوم نظامی صاحب کی چین بارے نئی تحقیقی کاوش چین کی ترقی کے سو سال بارے بتانا چاہتاہوں بارے بتانا چاہتا ہوں۔
    اس کتاب میں قیوم نظامی نے چین کے سو سال کے عنوان سے چینی ترقی کے سفر کا تفصیلی جائزہ لیا ہے اور چینیوں کی زندگی تمام نظام میں جھانک کر دیکھا ہے اور مستند معلومات اپنے قارئین تک پہنچائی ہیں ہر ضروری شعبہ بارے الگ الگ چھوٹے چھوٹے باب ترتیب دی کر قارئین تک جامع شکل میں چین بارے معلومات عوام تک پہنچائی ہیں۔چینی ترقی کا یہ سفر ماؤزے تنگ سے شی جن پنگ تک کی ہمہ جہت حقیقی ترقی کا کمال تاریخی سفر ہے۔
    اس وقت چین ایک صدی سے جکڑے غربت افلاس پس ماندگی استحصال اور تسلط کی زنجیروں کو توڑ کر دنیا کی عظیم معاشی قوت بن چکا ہے  چین نے ترقی کیلئے مغربی جمہوری نام کی بجائے انصاف و میرٹ پر مبنی سیاسی نظام متعارف کرایا۔ اور معاشرے ناسور بد عنوان افراد کو سخت سزائیں دے کر چین کو کرپشن سے پاک کر کے ایک محنتی و بااصول قوم کی صورت میں سامنے آئے ہیں۔چین کی ترقی کا سہرا کیمونسٹ پارٹی کے سر ہے جس نے میرٹ ،شفافیت،یکساں احتساب و انصاف اور قانون کی حکمرانی کے بنیادی اصولوں پر عمل کرکے چین کی ترقی کی راہیں ہموار کیں۔
      چین کے عظیم لیڈر ماؤزے تنگ کی قیادت میں کیمونسٹ پارٹی کے انقلابیوں نے 1934ء میں لانگ مارچ کا آغاز کیا اس تاریخی مارچ نے چھ ہزار کلو میٹر کا سفر طے کیا لانگ مارچ میں پچاسی ہزار انقلابی شرکاء میں سے منزل پر صرف چھ ہزار پہنچ سکے۔چین میں باقاعدہ سیاسی حکومتوں کے بعد دیہی سطح پہ عوام کا معیار زندگی بلند کرنے کیلئے عوام کا کوآپریٹیو اور کمیونٹی سسٹم اپنایا جس سے عوامی اعتماد مستحکم ہوا۔
ماؤ نے صحت کیلئے انقلابی پالیسی کا آغاز کیا موبائیل سروس نے گاؤں گاؤں صحت کی سہولیات دہلیز تک پہنچائیں۔ ماؤ کی ریڈ گارڈ کی تحریک نے بھی چین میں کہنہ روایات کے خاتمے میں اہم کردار ادا کیا جو کی چین کی معاشرتی و معاشی ترقی کی راہ میں حائل تھیں۔ماؤ کو چین کے عظیم لیڈر کے طور پہ یاد رکھا جاتا ہے جس نے پرانے فرسودہ استحصالی ظالمانہ غیر منصفانہ کلچر کا خاتمہ کر کے نئے چین کی بیناد رکھی۔
    کیمونسٹ پارٹی نے ہر قیمت پر عوامی مفادات کو ترجیح دی۔اور یہ پارٹی نسل در نسل عوام تمناؤں پر پوری اترتی رہی آمریت اور شخصیت پرستی کی بجائے اجتماعی قیادت کے اصولوں پر عمل کیا گیا۔چینی کہاوت ہے کہ جو لیڈر عوام کو ترجیح دیتا ہے عوام اس سے محبت کرتے ہیں۔ چین کا آئین عوامی مفادات کا تحفظ اور عوامی مفاد کو ترجیح دینے کی ضمانت دیتا ہے۔اسلئے چین میں یہ عام بات ہے کہ عوام تاریخ سے خالق ہیں اور عوام ہی طاقت کا سر چشمہ ہیں۔ان کو بیسویں صدی کا عظیم لیڈر تسلیم کیا جاتا ہے۔ چینی آئین کی روشنی میں نیشل پیپلز کانگریس ریاست کا طاقتور اور با اختیار ادارہ ہے اسکے تحت ریاستی کونسل، سنٹرل ملٹری کمیشن ،لیگل سسٹم ،مقامی حکومت،صوبائی حکومت،مقامی جمہوریت ،جنرل سیکرٹری اور چینی صدر کے دائرہ کار کو طے کیا گیا۔
چین کی کیمونسٹ پارٹی 1921ء میں شنگھائی میں قائم کی گئی چین میں بائیس سو نیوز پیپرز شائع ہوتے ہیں۔نوے ملین افراد اخبار پڑھتے ہیں۔جیانگ زمن نے کرپشن کے خاتمے پہ توجہ دی۔پارٹی لیڈروں کی بیگمات اور ان کے بچوں پر کاروبار کرنے پہ پابندی لگا دی وہ اپنی خداداد صلاحیتوں سے چین کا میکاولئیمشہور ہو گیا۔جبکہ ماؤ نے چین کو کسانوں اور مزدوروں کیلئے سوسلشٹ ریاست قائم کی۔جیانگ زمن دور میں چین نے سوشلسٹ اور کیپیٹلزم کے امتزاج سے دنیا کا کامیاب ترین معجزاتی معاشی ماڈل پیش کر کے دنیا کو دنگ کر دیا۔آئین کیمطابق چین کی عدالتیں آزاد ہیں۔ عدالتوں کے کام میں کوئی سرکاری ادارہ یا فرد مداخلت نہیں کرسکتا۔پیپلز کورٹس عدالت کی معاونت اور رہنمائی کیلئے قانون کے مطابق جوڈیشیل کمیٹیاں نامزد کرتی ہیں۔ معاشرتی عدل و انصاف معاشرے کے استحکام کیلئے ناگزیر سمجھا جاتا ہے۔ صحت وتعلیم کا بہترین انتظام ہے۔تعلیم کے مواقع سب کیلئے ہیں۔صحت کے روائتی و جدید نظام دونوں رائج ہیں۔ 2005ء میں چین میں ہسپتالوں کی تعداد تیس لاکھ چوہتر ہزار تھی اور ڈاکٹروں کی تعداد انیس لاکھ اڑتیس ہزار ہزار تھی۔ میڈیسن کمپنیوں کو مسلسل مانیٹر کیا جاتا ہے۔چین کی پولیس قومی سویلین فورس کہلاتی ہے۔ پبلک سیکیورٹی پولیس سب سے بڑا شعبہ ہے۔چین میں پیپلز لبریشن آرمی کیمونسٹ پارٹی کا تابع ادارہ ہے یہ ایک پروفیشنل آرمی ہیچین کے عوام آرمی کی عزت کرتے ہیں۔
    چین کے لیڈر ڈینگ زیاو پنگ نے معاشی نظام میں کمال جوہری اور فایدہ مند تبدیلیاں کیں۔ معاشی نظام کو مارکیٹ سوشلسٹ اکانومی قرار دیا گیا۔ پیپلز بنک چین کا مرکزی بنک ہے۔ چین نے اپنی پانچ ہزار سالہ تاریخ سے سبق سیکھ کر گزشتہ چھ دہائیوں میں متوازن معاشرے کی تشکیل اور مستحکم معیشت کیلئے مسلسل کامیاب سفر کیا ہے اور اسوقت تک مضبوط معاشی ترقی کے میکانزم کو برقرار رکھا ہوا ہے۔ مستقبل کے چیلنجز سے نمٹنے کیلئے شی جن پنگ نے انسانی تاریخ کا عظیم الشان ون بیلٹ ون روڈ کا منصوبہ پیش کرکے دنیا کو حیران کر دیا اس منصوبے میں نیو یورو ایشین چائنہ برج،چائنہ منگولیا روسی کوری ڈور،چائنہ سنٹرل ایشیا ء اینڈ ویسٹ ایشیاء کوری ڈور، چائنہ انڈو چائنہ پینسولیا کوری ڈور،سی پیک چائنہ پاکستان اکنامک کوری ڈور،چائنہ انڈیا بنگلہ دیش میامر کوری ڈور کے منصوبے شامل ہیں۔
چین میں اعلی عہدوں پہ تعیناتی کا نظام بڑا جامع اور میرٹ پر مبنی ہے اور چین بد عنوانی کے امکانات پہ بہت گہری عقابی نظر رکھتا ہے۔چین اگر کرپٹ افراد کو سخت سزائیں نہ دیتا تو چین آج دنیا کا عظیم ملک نہ ہوتا۔چین کے مسلسل تین بار منتخب ہونے والے عظیم لیڈر شی جن پنگ نے غربت کے خاتمے کیلئے ٹھوس و پائیدار پالیسیاں ترتیب دیں اور نوے ملین افراد کو غربت سے نکال کر دنیا کو ورطہء حیرت میں ڈال دیا۔ غربت کے خاتمے کو ہر دور میں ترجیح دی گئی۔ اس وقت چین دنیا کا سب سے بڑامصنوعات پیدا کرنے اور بر آمد کرنے والا ملک ہے صارفین گڈز کی سب سے بڑی مارکیٹ ہیاور درآمدات کرنے والا دوسرا بڑا ملک ہے۔
    چین کا آئین عوامی جمہوریہ چین کا دستور اعلی ہے۔ چین  کے آئین کی بنیادی خوبی سوشلزم ہے جو چینی روایات اور ثقافت کا ترجمان ہے۔آئین پر کامل عملدرآمد چینی حکومتوں کی اولین ترجیح ہے۔
   چینی بیلٹ اینڈ روڈ کے منصوبوں نے دنیا کو حیران کر دیا ہے۔چین نے پاکستان میں چھیالیس بلین ڈالر کے تخمینہ سے پاکستان میں سی پیک منصوبوں کا آغاز کیا۔ پاکستان سی پیک میں سجل میگا ونڈ پراجیکٹ،یو آی بی ونڈ فارم پراجیکٹ،زونر جی سولر پاور پراجیکٹ ،تھری گارجز سیکنڈ ونڈ پاور پراجیکٹ، پورٹ قاسم کول فائر پاور پراجیکٹ، چائنہ پاور حب کول فائر پاور پراجیکٹ، کیروٹ ہائیڈرو پاور پراجیکٹ،گوادر فری زون،لاہور اورنج لائن،گوادر سمارٹ پورٹ،گوادر پورٹ کمپلیکس، قراقرم ہائی وے،قائد اعظم سولر پارک،رشکئی اکنامک زون،بوستان انڈسٹریل زون اور علامہ اقبال انڈسٹریل سٹی فیصل آباد جیسے عظیم الشان  منصوبے شامل ہیں
قیوم نظامی کی چین کے ترقیاتی سفر کے بارے میں مختصر،جامع اور کامیاب کاوش ہے۔

ای پیپر-دی نیشن