بجلی مہنگی کرنے کی منظوری اور وزیراعظم کی عوام کے لیے طفل تسلیاں
حکمران اتحاد کو حکومت میں آئے تقریباً سوا سال ہوگیا ہے لیکن آج بھی وزیراعظم سے لے کر ان کے مشیروں تک ہر کسی کے بیانات سے ایسا لگتا ہے کہ جیسے انھیں کسی نے بہت زیادہ مجبور کر کے حکومت دی ہو۔ اگر وہ معاملات کو سدھار نہیں سکتے تھے تو انھیں چاہیے تھا کہ تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں پی ٹی آئی کی حکومت کو ہٹانے کے بعد خود اقتدار سنبھال کر اسمبلیاں تحلیل کرتے ہوئے عام انتخابات کا اعلان کردیتے لیکن ایسا نہیں کیا گیا اور سوا سال حکومت کے مزے لیے گئے۔ اب پارلیمان کی مدت ختم ہونے میں ایک ماہ سے بھی کم وقت رہ گیا ہے تو ایسے بیانات دیے جارہے ہیں جیسے عوام کا ان سے بڑا ہمدرد کوئی نہیں ہے۔ ان کے ان بیانات اور دعوؤں پر یقین کیا جاسکتا تھا لیکن عملی اقدامات کے ذریعے عوام پر جو ناروا بوجھ ڈالا جارہا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان بیانات اور دعوؤں کی شکل میں عوام کو ایک بار پھر سبز باغ دکھائے جارہے ہیں۔
اسی کا ایک ثبوت یہ ہے کہ وفاقی کابینہ نے بجلی7 روپے 50 پیسے فی یونٹ تک مہنگی کرنے کی منظوری دیدی ہے۔ بجلی کے بنیادی ٹیرف میں 3 سے 7 روپے 50 پیسے فی یونٹ اضافہ کر دیا گیا ہے۔حکومت نے بنیادی قیمت میں اضافے کی درخواست نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) میں دائر کردی ہے، اب نیپرا وفاقی حکومت کی درخواست پر فیصلہ کرے گا۔نیپرا کے فیصلے کے بعد وفاقی حکومت اضافے کا نوٹیفکیشن جاری کردے گی۔ قیمتوں میں اضافے کا اطلاق یکم جولائی سے کرنے کی تجویز ہے۔ اضافے کے بعد 100 یونٹ والے گھریلو صارفین کے لیے بجلی 3 روپے، 101 سے 200 یونٹ والے صارفین کے لیے 4 روپے، 201 سے 300 یونٹ والے صارفین کے لیے 5 روپے، 301سے 400 یونٹ والے صارفین کے لیے 6 روپے 50 پیسے جبکہ 400 سے700 یونٹ والے صارفین کے لیے ساڑھے7 روپے فی یونٹ مہنگی ہوگی۔
ایک طرف یہ سب کچھ ہورہا ہے اور دوسری جانب وزیراعظم محمد شہباز شریف کہہ رہے ہیں کہ میرا بس چلے تو راتوں رات مہنگائی ختم کردوں لیکن یہ الہ دین کا چراغ نہیں، جادو ٹونے پھونکیں مارنے سے ختم نہیں ہوگا، مسلسل محنت سے ختم ہوگا۔ شرقپور میں ترقیاتی منصوبوں کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے ترقی وخوشحالی کا سفر2018ء میں ختم کردیا گیا۔ یہ پاکستان کی ترقی وخوشحالی کے خلاف بہت بڑی سازش تھی، گزشتہ ساڑھے چارسال ضائع کردیے گئے۔ شہباز شریف نے کہا کہ اگر نواز شریف کی حکومت ہوتی توپاکستان ترقی کررہا ہوتا، گزشتہ حکومت میں ساری ترقی رک گئی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ مجھے بعض اوقات رات کونیند نہیں آتی تھی کہیں پاکستان ڈیفالٹ نہ کرجائے۔ اللہ نے کرم کیا اورہمیں ڈیفالٹ سے بچایا۔ اب یقین سے کہہ سکتا ہوں پاکستان درست سمت میں آچکا ہے، الیکشن کے بعد اگراللہ نے ہمیں موقع دیا توجان لڑادیں گے، کھویا ہوا مقام ضروردلوائیں گے۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ یہ بیان اس شخص نے دیا ہے جس کی جماعت چوتھی بار وفاق میں حکومت کررہی ہے۔ کوئی ان لوگوں سے یہ پوچھنے والا نہیں ہے کہ پچھلی بار جب آپ حکومت میں آئے اس کا حساب کب اور کیسے دیں گے؟ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت میں جو کچھ غلط ہوا اس پر تنقید ہونی چاہیے اور ساتھ ہی ان لوگوں کا احتساب بھی ہونا چاہیے جو اس وقت حکومت میں تھے لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ گزشتہ ساڑھے تین دہائیوں سے مسلسل حکومت کرنے والوں کا کلین چٹ دیدی جائے۔ 1988ء میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت بنی تھی، اس کے بعد سے اب تک پی پی پی اور پاکستان مسلم لیگ (نواز) دونوں چوتھی چوتھی دفعہ وفاقی سطح پر حکومت کررہی ہیں لیکن وزیراعظم اور وزراء اور مشیران کی جانب سے خرابیوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے اگست 2018ء سے اپریل 2022ء تک کے صرف اس دورانیے کا ذکر کیا جاتا ہے جب پی ٹی آئی کی حکومت تھی ۔
عوام کو شہباز شریف کی طرف سے دی جانے والی طفل تسلیاں یا پی ٹی آئی کے قائد پر کی جانے والی تنقید سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا، حکومت اگر واقعی عوام کو ریلیف دینے کے معاملے میں سنجیدہ ہے تو اسے بیوروکریسی کے اللوں تللوں پر قابو پانا چاہیے۔ یہ عجیب بات ہے کہ ایک طرف حکومت مسلسل وسائل کی کمی کا رونا روتے ہوئے دنیا بھر سے قرضہ مانگ رہی ہے اور دوسری جانب پنجاب میں دو سو افسران کے لیے نئی گاڑیاں خریدنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں، دیگر مراعات یافتہ طبقات پر کی جانے والی عنایات میں بھی کمی لانے کی اشد ضرورت ہے تاکہ ملک کو واقعی اپنے پاؤں پر کھڑا کیا جاسکے۔ ہمارے سیاسی قائدین کو یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ قرضوں سے کوئی بھی معیشت مستحکم نہیں ہوسکتی، لہٰذا ہمیں قومی سطح پر کفایت شعاری کی پالیسی اپنانا ہوگی اور مہنگائی کی چکی میں پسے ہوئے غریب عوام کا بوجھ بھی کم کرنا ہوگا۔