• news

 جنگ جو ہماری علیحدگی کا باعث بنی

گزشتہ سے پیوستہ: (پہلے دو کالمز 10جولائی اور 17جولائی کو شائع ہوئے)ہمارا تربیتی کورس پاکستان ملٹری اکیڈمی سے عین جنگ 1965ء کے دوران پاس آؤٹ ہوا ۔ میری پوسٹنگ بطور سنسر آفیسر مشرقی پاکستان ڈھاکہ ہوئی۔
ہمارا دفتر جنرل پوسٹ آفس ڈھاکہ میں تھاجہاں ہم تمام ڈاک پڑھ کر سنسر کرتے تھے۔وہاں ایک نجی پارٹی میں میری ملاقات ایک یونیورسٹی کے پروفیسر صاحب سے ہوئی۔نارمل بات چیت سے بات جنگ کی طرف چلی گئی تو پروفیسر صاحب نے فرمایا کہ یہ جنگ بالکل بے مقصد تھی اورپاکستان کو دو لخت کرنے اور فوج کی تذلیل کروانے کی سازش تھی جس کے ذمہ دار، پروفیسر صاحب کے مطابق، ہمارے اس وقت کے وزیر خارجہ تھے۔ 
میں ان باتوں سے بہت پریشان ہوا۔پھر ایک خط پڑھا جو ایک نئی شادی شدہ دلہن نے اپنے خاوند کو سیالکوٹ لکھاتھا۔ اس خط کامضمون بھی کچھ ایساہی تھاجس سے مجھے مزید ڈپریشن ہوا اورمیں نے اپنے سینئر آفیسر سے رہنمائی چاہی تو انھوں نے مجھے ڈانٹ کر خاموشی اختیار کرنے کی تاکید کے ساتھ واپس بھیج دیا۔اب آگے پڑھیے:
پھر اسی دوران ایک اور اہم واقعہ رونما ہوا۔یہ غالباً نومبر 1965 کا مہینہ تھا۔ صدر پاکستان مرحوم فیلڈ مارشل محمد ایوب خان مشرقی پاکستان تشریف لائے اور وہاں گریژن ہال میں تمام فوجی افسروں سے خطاب کیا۔ موضوع تو یہی جنگ ہی تھا۔ شام کو میں میس میں اکیلا بیٹھا رسالہ پڑھ رہا تھا کہ ایک برگیڈیئر صاحب اندر تشریف لائے۔
 یہ مشرقی پاکستان میں کسی سیکٹر میں برگیڈ کمانڈر تھے اور صدر صاحب کے خطاب کے سلسلے میں ڈھا کہ آئے ہوئے تھے۔ ان کے ساتھ ایک کرنل صاحب بھی تھے جنھیں میں نے صدر صاحب کے ساتھ دیکھا تھا۔ پتا چلا کہ ان کا تعلق ملٹری انٹلیجنس سے تھا۔ مجھے بعد میں پتا چلا کہ دونوں آفیسر ز کا تعلق ایک ہی یونٹ سے تھا اور دونوں آپس میں گہرے دوست تھے۔ لب ولہجہ سے پوٹھوہار سے تعلق لگتا تھا۔ 
دونوں نے آزادانہ ماحول میں گپ شروع کی جو گھر یلو حالات سے شروع ہوئی۔ بیوی بچوں کا حال، بچوں کی تعلیم، پھر یونٹ کا ماحول اور کچھ دیر بعد برگیڈیئر صاحب نے پوچھ ہی لیا، ’بڈی (دوست)، یہ کیا بیٹھے بٹھائے بغیر تیاری کے کشمیر میں مجاہدین بھیج دیے۔ یہ تو فوج اور قوم کو مروانے والی حرکت تھی۔‘ میں فوری الرٹ ہو گیا۔ اس سے تو یہی ثابت ہوتا تھا کہ پروفیسر صاحب کا تجزیہ زیادہ غلط نہ تھا۔ ’پارٹنر، اندرونی کہانی کیا بتاؤں، یہ سب کچھ ہمارے وزیر خارجہ صاحب کا کیا دھرا تھا۔ اس نے تمام حکومتی ارکان اور خصوصاً صدر صاحب کو وہ سبز باغ دکھائے کہ ہر شخص بے وقوف بن گیا،‘کرنل صاحب نے جواب دیا۔
 بریگیڈیئر صاحب نے پھر پوچھا، ’ جی ایچ کیو نے ایسے آپریشن کی اجازت کیسے دی؟‘ ’یار، وہ تو ساری سکیم کے شروع سے ہی سخت مخالف تھے۔ کمانڈر انچیف نے کہہ دیا تھا کہ یہ بچگانہ اور جاہلانہ سوچ ہے۔
 آرمی کو پھنسانے کے مترادف ہے لیکن فارن آفس نے جی ایچ کیو کی چلنے ہی نہیں دی۔ کشمیر پلیٹ میں رکھ کر صدر صاحب کو اس طرح پیش کیا گیا کہ انھوں نے بھی اسے تاریخی موقع سمجھ کر ہاں کر دی،‘ کرنل صاحب نے جواب دیا۔
 ’بہت ظلم کیا۔ اگر یہ جنگ ہم اپنی تیاری سے لڑتے تو نتیجہ مختلف ہوتا۔‘ اتنی دیر میں برگیڈیئر صاحب کو شاید میری موجودگی کا احساس ہوا تو انھوں نے موضوع بدل دیا۔
فوج میں سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ اکثر اوقات انسان جو کچھ سوچتا ہے یا محسوس کرتا ہے وہ کہہ نہیں سکتا۔ ان دو واقعات کے بعد میرے ذہن میں ایک بے چینی سی رہی کہ کیا یہ جنگ واقعی کوئی سازش تھی۔ کیا واقعی اس کا مقصد فوج کو بدنام کرانا تھا، پاکستان کو پھنسانا تھا۔ میں اس کوشش میں رہا کہ اصل وجوہات تک پہنچوں۔
 اس کے بعد مجھے کئی بار اس جنگ کے متعلق بحث مباحثوں میں حصہ لینے کا موقع ملا۔ وقت کے ساتھ ساتھ فوجی تجربات اور سوچ میں پختگی آتی گئی۔ میں نے محسوس کیا کہ جنگی نقطہ نظر سے ہماری 1965ء کی جنگی کار کردگی بہت اچھی تھی لیکن جنگ کا آغاز کوئی ٹھیک نہ تھا۔ نہ ہی اس طرح کشمیر میں مجاہدین بھیجنے کا فیصلہ درست تھا۔
 حالات کا تجزیہ بالکل درست نہ تھا۔ کشمیر میں مجاہدین بھیج کر ہم نے ملک کو خواہ مخواہ جنگ میں دھکیل دیا اور وہ بھی اپنے سے کئی گنا بڑے اور طاقتور دشمن کے سامنے۔ اس جنگ کے نتائج 1971ء میں آ کر بھگتنے پڑے۔ ہمارے فوجی افسران مجاہدین بھیجنے کی غلطی تو تسلیم کرتے لیکن غلطی کی ذمہ داری عائد کرنے پر خاموش ہو جاتے اور میرے خیال میں فوج اور آزاد معاشرے میں یہی بڑا فرق ہے۔ وہاں جو کچھ لوگ محسوس کرتے ہیں کہہ دیتے ہیں یہاں حالات کی مجبوری کی وجہ سے خاموشی اختیار کرنا پڑتی ہے۔
میں 1969ء میں پاکستان ملٹری اکیڈمی میں تعینات تھا۔ ٹی روم میں بیٹھے گپ لگا رہے تھے۔ ٹی روم میں ماحول بھی فوجی ڈسپلن کے دائرے میں رہ کر کافی آزاد ہوتا ہے۔ کھلی گپ اور لطیفے چلتے ہیں۔ اس دور میں مشرقی پاکستان کے حالات آہستہ آہستہ خراب ہو رہے تھے۔
 بات مشرقی پاکستان سے شروع ہو کر 1965ء اور کشمیر کی طرف چلی گئی۔ وہاں ایک کشمیری مجاہد بھی تشریف فرما تھے۔ ان کا بھائی ہمارا کولیگ تھا، اسے ملنے کے لیے آئے تھے۔یہ صاحب مجاہدین کے ساتھ کشمیر گئے تھے۔ زخمی بھی ہوئے اور بہادری پر تعریفی سند بھی ملی۔ ہم سب نے انھیں مجبور کیا کہ وہ اصل کہانی سنائیں کہ یہ سب کچھ کیسے ہوا؟ گپ چونکہ آزادانہ تھی فوجی ڈسپلن کی گرفت سے ہٹ کر تو عزیز خان نامی اس مجاہدنے یہ کہانی سنائی۔
…………………… (جاری )

سکندر خان بلوچ

سکندر خان بلوچ

ای پیپر-دی نیشن