حضرت عمر فاروقؓ کا دورِ خلافت
مراد ِ رسولﷺ حضرت عمر فاروقؓ کا شمار ر مکہ کے ان لوگوں میں ہوتا ہے جو قبل از اسلام بھی لکھنا پڑھنا جانتے تھے۔ اور آپؓوہ ہستی ہیں جن کے اسلام لانے کے بعد مسلمانوں نے خانہ کعبہ میں سر عام نماز ادا کرنا شروع کی۔اگر دنیا کی تاریخ پہ نظر ڈالی جائے تو آپ کا شمار ہر لحاظ سے کامیاب ترین حکمرانوں میں کیا جاسکتا ہے ۔یروشلم فتح ہوتا ہے تو وہاں کے لوگ اس خواہش کا اظہار کرتے ہیں کہ اگر مسلمانوں کا خلیفہ یہاں آجائے تو ہم بنا لڑے شہر کی چابیاں ان کے حوالے کردیں گے ۔آپ اس خبر کو سنتے ہیں ۔صحابۂ کرام سے مشورہ کرتے ہیں ۔حضرت علی ؓ کو مدینہ شہر میں اپنا نائب مقرر کرتے ہیں اور پیوند لگے کپڑے پہنے بہت مختصر قافلے کے ساتھ یروشلم کی طرف چل پڑتے ہیں۔شہر سے کچھ پہلے بہترین لباس پہنے صحابۂ کرام استقبال کرتے ہیں ۔آپؓ ان کے پہناوے کی وجہ سے ناراضگی کا اظہار کرتے ہیں ۔ جواب میں صحابہؓ فرماتے ہیں، امیر المومنین، یہ کپڑے ظاہری دکھاوے یعنی دشمن پر رعب کے لیے پہنے ہوئے ہیں۔ نیچے وہی پیوند والے کپڑے اور ہتھیار لگے ہوئے ہیں۔
شہر کے قریب پہنچتے ہیں تو وہاں کے بڑے پادری اپنے عوام کی جان و مال اور اپنے مذہبی مقامات کی حفاظت کے لیے کچھ شرائط پیش کرتے ہیں ۔حضرت عمر فاروقؓ نہ صرف ان کی شرائط تسلیم کر لیتے ہیں بلکہ اپنی طرف سے انھیں مزید سہولتیں فراہم کرنے کا اعلان کرتے ہیں ۔اس معاہدے کا اثر یہ ہوتا ہے کہ قرب و جوار کے کئی قبائل مسلمانوں کے پاس اپنے ایلچی بھیج کے ایسا ہی معاہدہ کرنے کی خواہش کا اظہار کرتے ہیں اور عدلِ فاروقیؓ سے متاثر ہو کے بغیر لڑائی کیے کئی قبیلے مسلمانوں کی اطاعت قبول کرلیتے ہیں ۔حضرت عمر فاروق اعظمؓ کے دور ِ خلافت میں ایران و روم جیسی سپر پاور سلطنتیںایسی حکمت عملی اور تیاری سے فتح ہوئیں کہ انسانی جانوں کا بہت کم نقصان ہوا۔ جیسے جیسے اسلامی ریاست کی حدود بڑھنے لگیں، آپ نے لوگوں کی فلاح و بہبود کے لیے نظام حکومت کو منظم کرنا شروع کیا۔تاریخ انسانی میں پہلی بار بہت سے انتظامی شعبے اور محکمے بنائے گئے۔
حضرت عمر فاروقؓ کے دور میں قاضی کے منصب کے لیے ایسے اصحاب کا انتخاب کیا جاتا جو علم تقویٰ، ذہانت اور قوت فیصلہ کی طاقت رکھتے ہوں۔ قاضی کے تقرر میں یہ خیال رکھا جاتا ہے کہ ایسا مضبوط کردار و خاندان کا بندہ اس منصب پہ لگایا جائے جسے نہ رشوت سے خریدا جاسکے اور نہ وہ کسی کی طاقت و حیثیت سے ڈرنے والا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی دنیا کی عدالتوں میں عدل فاروقیؓ کی مثالیں دی جاتی ہیں۔نکتہ یہ ہے کہ حضرت عمر فاروقؓنے یہ واضح کردیا کہ قاضی (جج) کو شہادتوں اور گواہوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے بغیر کسی کے دباؤ میں آ کر فیصلہ کرنا چاہیے۔ عدلِ فاروقی صرف مسلمانوں تک محدود نہیں تھا بلکہ غیر مسلموں کے ساتھ بھی پورا پوراانصاف کیا جاتا تھا۔ آپ کے ایوان عدل میں اعلیٰ و ادنیٰ، امیر و غریب، آقا و غلام، اپنے پرائے سب برابر تھے۔ جو بھی مجرم ثابت ہوتا اسے قرار واقعی سزا دی جاتی۔
کسی کو گورنر مقرر کرتے ہیں تو ساتھ حکم جاری ہوتا ہے کہ اس عہدے کے ختم ہونے پر اگر کسی کے اثاثے بڑھ گئے تو اس سے اس کے ذاتی اثاثے بھی ضبط کر لیے جائیں گے۔ شہریوں کے جان و مال کو تحفظ اورریاست میں امن وامان کے قیام کو یقینی بنانے کے لیے حضرت عمر فاروقؓ نے پولیس کا مستقل محکمہ قائم کیا۔ پولیس کا کام امن و امان کے قیام کے ساتھ ساتھ اسلامی معاشرے میں غیر قانونی اور غیر اسلامی کاموں کی روک تھام بھی تھا۔ جرائم پیشہ لوگوں کو سزا دینے اور قید کرنے کی غرض سے آپؓ نے مکہ میں چار ہزار درہم کے عوض صفوان بن امیہ کا گھر خرید کر اسے جیل خانہ بنادیا۔ زراعت کی ترقی اور لوگوں کی سہولت کے لیے آپؓ نے متعدد نہریں کھدوائیں۔ حضرت عبداللہ بن ارقمؓ پہلا باقاعدہ وزیر خزانہ مقرر کیا اور بیت المال کے نظام کو وسعت دی۔ تمام مفتوحہ علاقوں میں قرآن پاک کی درس و تدریس کا معاملہ شروع کروایا۔ اس کے لیے آپ نے قرآن سکھانے والے معلمین کو مقرر فرمایا جو لوگوں کو قرآن کی تعلیم دیتے تھے۔ آپ کے عہد میں قرآن کی تعلیم لازمی تھی۔ آپؓ نے حضرت ابوسفیانؓ کو (وزیر تعلیم) اس کام کے لیے مقرر کیا ہوا تھا ۔ان کی ذمہ داری تھی کہ وہ چند لوگوں کے ہمراہ مختلف قبائل میں جاکر ہر شخص کا امتحان لیں اور جسے قرآن کا کوئی حصہ یاد نہ ہو، اسے سزا دیں۔ عہد فاروقیؓ میں سورۃ البقرۃ، سورۃ النسائ، سورۃ المائدۃ، سورۃ الحج کو یاد کرنا لازمی تھا۔
بچپن سے لے کے پچپن تک میں نے کئی بار مساجد میں علماء کرام کو روتے ہوئے یہ دعا مانگتے سنا ہے کہ ’الٰہی، ہمیں حـضرت عمر فاروق ؓ کا جانشین عطا کر‘۔ لیکن نہیںمعلوم ہمارے علماء کی دعا کو شرفِ قبولیت کیوں حاصل نہیں ہو رہا ہے؟ میری دعا ہے کہ اللہ ہمیں حضرت عمر فاروقؓ جیسی صفات و قابلیت رکھنے والا حکمران عطا کرے۔ ایسا حکمران جو نہ صرف خود عہدے کے لیے قابل ہو بلکہ اس کے وزیر مشیر بھی باصلاحیت اور درد دل رکھنے والے محبت وطن شہری ہوں۔ قاضی قانون کے مطابق بنا ڈرے فیصلے کرنے والے ہوں۔ انتظامی افسروں کو حاکم وقت کا ڈر ہو۔ حکومتی محکموں میں فرائض ادا کرنے والے عملے کو بے پروائی، سستی اور رشوت خوری پر سخت سزائیں دی جائیں۔ سرکار کی نوکری کرنے والوں کے آمدن سے زائد اثاثے بحق سرکار ضبط کر لیے جائیں۔