بے رحم گردش
جرم اور مجرم کبھی چھپ نہیں سکتے۔ قدرت کا نظام انہیں کسی نہ کسی وقت منظر عام پرلیآتا ہے۔ انسان اپنے گناہ پر پردہ ڈالتا ہے لیکن جب مخالف سمت سے تند باد چلتی ہے تو پردہ ٹھہرتا نہیں۔ شاید سابق وزیر اعظم نے جلسے میں سائفر لہراتے ہوئے یہ نہیں سوچا تھا۔جب وہ نجی و سرکاری محفلوں میں سائفر کو سازش بنانے کی کوشش میں مصروف تھے تب بھی شاید کسی نے لقمہ نہیں دیا کہ خان صاحب وقت ایک جیسا نہیں رہتا، گردش ایام نہ رکنے والا سلسلہ ہیاور آج جو ہم دامن میں داغ چھپا رہے ہیں، ہمیشہ چھپے نہیں رہیں گے۔
وقت کی بے رحم گردش نے چیئرمین پی ٹی آئی کے ملک دشمن منصوبے سے پردے اْٹھا دیا۔ کسی مخالف کے بجائے انتہائی قریبی ساتھی ہی چیئرمین پی ٹی آئی کے وعدہ معاف گواہ بن گئے۔ یوں تو خان پر لگے الزامات کی تصدیق کرنیوالوں کی لائن لگی ہوئی ہے۔ خود پی ٹی آئی چھوڑنے والے سینئر اور جونیئر رہنما ایک ایک کرکے اقتدار ہوس میں بہت آگے نکل جانے والے خان کے ریاست مخالف فیصلوں سے قوم کو آگاہ کررہے ہیں مگر سابق پرنسپل سیکرٹری اعظم خان نے سنسنی خیز انکشافات کرکے مکروہ سازشوں اور ملک دشمن اقدامات پر جمی دھول پوری طرح ہٹا دی۔
اعظم خان،پی ٹی آئی کے دور حکومت میں کپتان کے رائٹ ہینڈ سمجھے جاتے تھے۔ بعض پی ٹی آئی رہنماوں کے مطابق اعظم سے مشورے بغیرخان بھی کوئی فیصلہ نہیں کرتے تھے۔ وقت بدل گیا۔ خان کی سازشی تھیوری کے نتائج قوم کو بھگتنا پڑے اور انکے قریبی ساتھیوں کو اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ انہوں نے اظہار ندامت کے ساتھ ساتھ ریاست مخالف بیانیہ کودفنانے کا فیصلہ بھی کیا۔ یہی وجہ ہے کہ قریب ایک ماہ تک روپوش رہنے والے اعظم خان نے منظرعام پر آکر سائفر سے متعلق اپنا بیان مجسٹریٹ کے سامنے ریکارڈ کروایا ہے۔
بیان میں انہوں نے کہا کہ سابق وزیراعظم نے سیاسی مقاصد کے لیے سائفر کا ڈرامہ رچایا تھا۔ سابق وزیر اعظم نے کس طرح سائفر کے معاملے میں پوری کابینہ کو ملوث کیا اور پھر تمام لوگوں کو یہ بتایا گیا کہ سائفر کو کیسے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ سابق وزیر اعظم عمران خان نے سائفر کو اپوزیشن اور اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بیانیہ بنانے کے لیے استمعال کرنے کا فیصلہ کیا۔
سابق بیورو کریٹ اعظم خان کے انکشاف کی دوسری قسط جاری ہوچکی ہے۔ انہوں نے نیب ٹیم کے سامنے یہ بات بھی رکھ دی کہ سابق وزیراعظم نے ایسٹ ریکوری یونٹ کے سربراہ شہزاد اکبرکو 190 ملین پائونڈ کا معاملہ حوالے کیا تھا۔ دو فروری 2019 کو شہزاد اکبرنے 190 ملین پائونڈ کا سیل بند ریکارڈ سابق وزیراعظم کوذاتی حیثیت میں پیش کیا۔اس پوری ڈیل کا خفیہ ریکارڈ شہزاد اکبراور تحریک انصاف کے چیرمین کے پاس ہے۔
کابینہ کے پانچ ارکان این سی اے معاہدہ اور پیسے کی حوالگی پرشہزاد اکبر کی بریفنگ چاہتے تھے۔ القادر یونیورسٹی پروجیکٹ میںذوالفقاربخاری اور شہزاد اکبرنے بحریہ ٹائون کے ساتھ 458 کنال زمین گفٹ کے معاملات طے کیے۔
اصل معاملہ یہ ہے کہ آخراتنی بڑی تعداد میں عمران خان کے ساتھی یا پارٹی رہنما کیوں ان کا ساتھ چھوڑ گئے۔ کیوں پی ٹی آئی سے راہیں جدا کرنے والے چار سالہ خاموشی اور غلطیوں پر ندامت کا اظہار کر رہے ہیں۔ فرض کریں وہ محض اپنی سیاست بچانے کیلئے پریس کانفرنس یا انکشافات کررہے ہیں لیکن وہ سیاست سے اتنے بھی نابلد نہیں کہ وہ اپنے ہاتھوں اپنے پولیٹیکل کیرییرکا خاتمہ کریں۔
دراصل انہوں نے پی ٹی آئی میں شامل ہوتے وقت یا اس کے بعد خان سے متعلق جو بلند و بانگ دعوے کیے اور لمبی چوڑی باتیں کیں۔ وہ ان کی زبانوں پر تالے بنے ہوئے تھے۔ اب جب موقع ملا تو انہوں نے اصل عمران خان اور کے اصل کردار کو بھی ظاہر کرنا شروع کردیا۔ پی ٹی آئی کے بطن سے اب تک دو پارٹیں جنم لے چکی ہیں یعنی یہ کل تک کی موسٹ پاپولر جماعت پر ایک طرح کی سرجیکل اسٹرئیک ہے۔
آخر چند ہفتوں میں اتنی بڑی جماعت تل پٹ کیوں ہوئی۔وجہ صرف اور صرف خان کی انا ضد اور ہٹ دھرمی ہے۔ وہ اقتدار میں تھے یا اپوزیشن، انہوں نے پارٹی رہنماوں کو وہ مقام نہیں دیا جو ان کا حق تھا۔ انہوں نے اجتماعی رائے کے بجائے انفرادی فیصلے کیے اور وقت کے ساتھ ساتھ وہ فیصلے غلط ثابت بھی ہوئے۔ انہوں نے ڈرائیور کو کنڈیکٹر بنایا اور کنڈیکٹر کو ڈرائیونگ سیٹ پر بٹھایا۔ ایک غیر معروف اور ناتجربہ کار شخص عثمان بزدار کو سب سے بڑے صوبے پنجاب کی وزارت اعلیٰ دیکر فاش غلطی کی ، وفاقی وزارتوں پر اپنے قریبی ساتھیوں کو نوازا جبکہ اہل اور باصلاحیت رہنماوں کو پیچھے دھکیل دیا۔ ملکی اور پارٹی مفاد کی خاطر وقتی طور پر عمران خان دوستی ازم کا شکار ہوئے منتخب رہنما خاموش رہے مگر اندر سے نفرت کا لاوا پکنے لگا اور نو مئی کے بعد وہ لاوا پھٹ کر باہر آگیا۔
شہباز شریف کے دست راست اور ڈی جی ایل ڈی اے احد چیمہ عمرانی دور میں 38 ماہ جیل میں رہے، ڈی جی نیب سے لیکر چیئرمین نیب تک بذات خود انہیں کہتے رہے آپ اچھے افسر ہیں، ہمیں پتہ ہے آپ نے کرپشن نہیں کی، آپ صرف بیان دیں کہ شہباز شریف کرپشن میں ملوث ہیں اور آپ جیل سے گھر جائیں، نوکری کا مزہ لیں، پروموشن انجوائے کریں، لیکن مجال ہے انہوں نے ایک الزام بھی لگایا ہو۔ یہ اسٹوری صرف احد چیمہ کی نہیں، فواد حسن فواد، خاقان عباسی، رانا ثناء اللہ، احسن اقبال، خواجہ آصف، حنیف عباسی، سعد رفیق، حمزہ شہباز، شہباز شریف، مریم نواز، نواز شریف، اور بہت سارے سیاسی قائدین اور سول افسران کی ہے جنہیں عمران خان کی ریاست مدینہ میں رگیدا گیا۔
احد چیمہ سے پوچھا گیا، کیا آپ اپنے ساتھ ہونے والی ذیادتی کا حساب اللہ پر چھوڑتے ہیں، تو انہوں نے جواب دیا میں نہ بھی چھوڑوں پھر بھی حساب کتاب ہونا ہے. اور ہم دیکھ رہے ہیں مکافات عمل۔
پاکستان کو کرپشن بنانے کے دعویداروں نے خود خیبر پختونخواہ میں نیب کو تالے لگائے۔ امیر لوگوں کو ایمنسٹی دینے کے باوجود پی ٹی آئی حکومت ٹیکس جمع کرنے میں ناکام رہی۔ اداروں کا برا حال رہے۔ سیاست میں شائستگی اور سنجیدگی کا عناصر کو باہر نکال پھینک دیا۔ نوجوانوں کے ذہنوں میں زہر بھردیا گیا جس کا نتیجہ نو مئی کو سب سے بڑے سانحہ کے طور پر سامنے آیا۔ یاد رہے ،ارض پاک کو ہمارے بزرگوں نے اپنا لہو دیکر حاصل کیا۔ کیسے ہوسکتا ہے کہ اس کی مٹی سے کوئی غداری کرے اور وہ بچ جائے۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ پاکستان کیخلاف کوئی بری نیت بھی رکھے اور وہ ہمیشہ خوش رہ سکے۔
٭…٭…٭