• news

اگلی بار ملک کی تقدیر بدلنے کے سیاسی قیادت کے فرسودہ نعرے

ہمارے ملک میں یہ عام رویہ ہے کہ ہر حکومت اپنی غلطیاں تسلیم کرنے کی بجائے سارا ملبہ پچھلی حکومتوں پر ڈال کر عوام کو مطمئن کرنے کی کوشش میں لگی رہتی ہے۔ موجودہ حکمران اتحاد بھی سوا سال پہلے بہت سے دعووں کے ساتھ اقتدار کے ایوانوں میں داخل ہوا تھا لیکن پھر سوا سال سے زائد عرصہ مسلسل الزام تراشیوں میں ہی گزار دیا گیا۔ وزیراعظم اور وزراء کے بیانات سنیں تو ایسا لگتا ہے کہ یہ لوگ پہلی بار حکومت کا حصہ بنے تھے اور اس سے پہلے یہ کبھی اقتدار میں آئے ہی نہیں تھے اس لیے انھیں مسائل کا احساس و ادراک نہ تھا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (نواز) اور پاکستان پیپلز پارٹی دونوں پہلے بھی تین تین بار وفاق میں حکومت کرچکی ہیں، اور پی پی پی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کا دور بھی شامل کرلیا جائے تو اس جماعت نے کسی بھی دوسری پارٹی کی نسبت سب سے زیادہ مرتبہ وفاقی حکومت تشکیل دی۔ اس کے باوجود حکمران اتحاد میں شامل ہر بندے کا کہنا ہے کہ ہم نے ملک کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا، ساری خرابی پاکستان تحریک انصاف کی حکومت میں پیدا ہوئی۔
اب وزیراعظم محمد شہباز شریف یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ اگر عوام نے مسلم لیگ نون کو آئندہ عام انتخابات میں حکومت بنانے کے لیے مینڈیٹ دیا تو نواز شریف کی قیادت میں پانچ سال میں ملک کی تقدیر بدل دیں گے اور بھارت کو اقتصادی میدان میں 10 سال میں پیچھے چھوڑ دیں گے۔ اتوار کو یہاں فیصل آباد میں ایم3 سے منسلک فیصل آباد ستیانہ بائی پاس کے سنگ بنیاد کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ نون لیگ برسر اقتدار آئی تو اگلے وزیر اعظم نواز شریف ہوں گے۔ شہباز شریف نے مزید کہا کہ 2018ء میں سازش کے تحت نواز شریف کو نااہل کر کے ترقی کا سفر ختم کیا گیا۔ گزشتہ حکومت نے چار سال میں کسی ایک نئے منصوبے کی اینٹ نہیں رکھی۔ انھوں نے چار سال نوجوانوں کے ذہنوں میں زہر گھولا، بھونڈے الزامات لگاتے رہے، ان کو زبردستی لایا گیا، جنوبی پنجاب کے ہمارے لوگوں کو ہیلی کاپٹروں میں ڈال کر ان کی طرف دھکیلا گیا۔ دھاندلی سے مسلم لیگ ن کا پنجاب میں راستہ روکا گیا، وفاق میں ہماری سیٹیں ادھر ادھر کی گئیں۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ اگلی حکومت ہماری آئی تو جان لڑا دیں گے، ملک کو اس کا کھویا ہوا مقام دلائیں گے۔ 
ہمارے سیاسی قائدین عوام کے ساتھ کتنا سچ بولتے ہیں اس کا اندازہ اسی بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ذرائع ابلاغ میں بجلی کی قیمتوں میں اضافے سے متعلق تمام تفصیلات منظر عام پر آچکنے کے باوجود وزیراعظم نے اپنے مذکورہ خطاب میں یہ کہا کہ 100 یونٹ سے200 یونٹ تک بجلی کے صارفین پر کوئی اضافہ نہیں کیا گیا۔ 53 فیصد صارفین کے لیے بجلی مہنگی نہیں ہوئی، ایک سے 200 یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والوں کے لیے مہنگی نہیں کی۔ اس سے اوپر کے صارفین پر بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی شرط پر معمولی اضافہ کرنا پڑا۔ ممکن ہے وزیراعظم کے لیے واقعی یہ اضافہ معمولی ہو کیونکہ انھوں نے بجلی کا بل بھی ذاتی گرہ سے ادا نہیں کرنا، اگر عام آدمی کی بات کی جائے تو اس کے لیے بجلی کی قیمتوں میں ہونے والا ممکنہ اضافہ ہرگز معمولی نہیں ہے اور مزید یہ کہ سو اور دو سو یونٹ استعمال کرنے والوں کے بلوں میں بالترتیب 3 اور 4 روپے فی یونٹ اضافہ اسی حکومت کی طرف سے نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) کو دی گئی درخواست میں تجویز کیا گیا ہے جس کے شہباز شریف سربراہ ہیں۔
فیصل آباد ہی میں وزیراعظم سے مقامی صنعت کاروں نے ملاقات بھی کی اور ان کے سامنے سیلز ٹیکس ریفنڈ، سستی بجلی اور لیٹرز آف کریڈٹ (ایل سیز) کھولنے کے مطالبات پیش کیے۔ اس موقع پر وزیراعظم نے صنعت کاروں کے بیشتر مطالبات تسلیم کر لیے اور انھیں یقین دہانی کرائی کہ حکومتی مدت پوری ہونے سے پہلے ریفنڈ جاری کردیا جائے گا۔ شہباز شریف نے صنعت کاروں کو یقین دلایا کہ ان کے دیگر مطالبات بھی پورے کردیے جائیں گے۔ وزیراعظم نے کہا کہ سستی بجلی کے بجائے چھوٹی انڈسٹری کو شمسی توانائی پر منتقلی کی سہولیات دیں گے۔ آئی ایم ایف معاہدے کے بعد ایل سیز کھولنے میں مزید آسانی آ رہی ہے۔ وزیراعظم نے صنعتوں کو سستے داموں گیس دینے کی بھی یقین دہانی کرائی۔
موجودہ پارلیمان کی آئینی مدت پوری ہونے میں بمشکل دو ہفتے رہ گئے ہیں ، اس دوران وزیراعظم کے کتنے وعدے پورے ہوسکیں گے اور کتنے نہیں، یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن یہ طے ہے کہ عوام کو محض طفل تسلیوں سے رام نہیں کیا جاسکتا، وہ گزشتہ سوا سال سے زائد عرصے سے دیکھ رہے ہیں کہ حکومت کی توجہ کن معاملات پر ہے۔ حکمران اتحاد نے بیوروکریسی اور دیگر طاقتور طبقات کو مراعات و سہولیات دینے کے لیے تو ایڑی چوٹی کا زور لگایا ہے لیکن عوام کے مسائل میں مسلسل اضافہ ہی ہوتا رہا۔ اگر حکومت میں شامل جماعتیں واقعی عوام کو ریلیف دینا چاہتی ہیں تو آئندہ انتخابات میں کامیاب ہو کر ملک اور عوام کی تقدیر بدلنے کے دعوے کرنے کی بجائے ابھی مراعات یافتہ طبقات کی سہولیات اور عوام کے بوجھ میں کمی لائیں تاکہ لوگ واقعی ان کی باتوں پر اعتماد کرسکیں۔

ای پیپر-دی نیشن