یونانی دیوتا پرو میتھیس اور آصف علی زرداری
یونانی قصہ کہانیوں میں جن دیوتائوں اور طاقتور ہستیوں کا ذکر آتا ہے اْن میں پرومیتھیس ایک نرم دل اور اچھے انداز میں دکھایا گیا ہے جبکہ زیوس ZEUS دیوتائوں کا بادشاہ خاص کر اولمپئن کی جنگ جیت کر بادشاہوں کا بادشاہ بن گیا۔ پرومیتھیس کا زیوس سے اختلاف اس بات پر شروع ہوا کہ زیوس نسلِ انسانی کو ختم کرنا چاہتا تھا۔ جبکہ پرومیتھیس اس کی بقاء کا خواہش مند تھا۔ زیوس دنیا میں سردی کے ذریعے انسانی زندگی کو ختم کرنے کے درپے تھاکیونکہ زیوس نے آگ کو پہاڑوں میں چھپا لیا مگر پرومیتھیس نے غاروں سے آگ چرا کر زمین پر انسانوں میں تقسیم کردی جس سے انسانی نسل دنیا سے ختم ہونے سے بچ گئی۔ اسی یونانی داستان کو دنیا کہ ہر بڑے عالم اور لکھاری نے اپنے قلم سے سجایا۔ 2300 سال قبل مسیح کے اس کردار پر افلاطون سے لے کر کال مارکس اور سبط حسن تک نے اپنی فکر آشکار کی۔ انسان دوست اور دشمن کیلئے انہیں دونوں کردار میسر آگئے۔ کہا جاتا ہے کہ زیوس نے دیوتائوں اور انسانوں میں دو بیل تقسیم کرنے کیلئے پرومیتھیس کو دیے۔ اْس نے بیلوں کا اچھا والا گوشت انسانوں کیلئے چھپا لیا۔ اور دیوتائوں کیلئے ہڈی اور چربی رکھ لی۔ اس پر زیوس نے پرومیتھیس کو سخت سزا دینے کا فیصلہ کیا۔ اْس کو قفقاز کے پہاڑ سے باندھ دیا۔ اور اس پر گدھ چھوڑ دیے گئے جو اْس کا جگر کھاتے رہے۔ شام تک یہ عمل جاری رہتا۔ اگلے دن اس پر موجود نئے جگر کو کھانے کیلئے گدھ پھر حملہ آور ہوتے۔ پرومیتھیس کو بالآخر ہرکولیس رہا کرواتا ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو ، بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری پاکستانی عوام کے پرومیتھیس ہیں۔ بھٹو کو دولخت پاکستان ملا۔ اْس نے بھارت سے 93000 قیدی رہا کروائے اور مغربی پاکستان کا 5000 مربع میل کا مقبوضہ علاقہ مذاکرات سے حاصل کیا۔ پاکستان کو چند ماہ میں ہی دوبارہ مستحکم کر دیا۔ 80 لاکھ کے قریب افرادی قوت جو یہاں بے روزگار بیٹھی تھی۔ مشرقِ وسطیٰ اور مغربی ممالک میں بھیجی گئی۔ جو آج تک کسی نہ کسی شکل میں 25 ارب ڈالر کے قریب زرِ مبادلہ پاکستان بھیجتی ہے۔ بھٹو کے ترقی پذیر ممالک کے اتحاد اور مشترکہ بنک کے تصور نے مغرب کو ہلا کر رکھ دیا۔ اْس وقت پاکستان کا ایٹمی پروگرام جس کا مقصد توانائی کا حصول تھا پر ترقی یافتہ ممالک کو خطرہ محسوس ہوا۔ پاکستان میں مفت تعلیمی نظام نے دوسری گھنٹی بجائی۔ جیسے جیسے پاکستان اقتصادی اور سیاسی طور پر مستحکم ہو رہا تھا اْسی رفتار سے بھٹو کے قتل کی سازش تیار ہوتی گئی اور بھٹو کو اقتدار سے محروم کر کے 20 ماہ قید کے بعد شہید کر دیا گیا۔ بے نظیر بھٹو کو دو مرتبہ اقتدار دینا پڑا مگر اس چار سال 10 ماہ کے اقتدار کے بعد اْنہیں پہلے جبراً ملک بدر کیا گیا۔ پھر دوسری مرتبہ وطن واپسی پر زیوس کے پیروکار جنرل مشرف اور اس کے ساتھیوں نے انہیں بھی شہید کر دیا۔ سندھ سے تعلق رکھنے والی تیسری اور پیپلز پارٹی کی دوسری وزیر اعظم کو زیوس (مارشل لائی قوتوں) نے شہید کرا دیا۔ جہاں یہ حادثہ ملک کے مزید ٹکڑے کر سکتا تھا وہاں ایک خانہ جنگی بھی شروع ہو سکتی تھی۔ پرومیتھیس نے جہاں نسل انسانی کو آگ دے کر سردی سے مرنے سے بچایا اسی طرح آصف علی زرداری نے اپنی بیوی کی میت پر کھڑے ہو کر پاکستان کھپے کا نعرہ بلند کیا۔ مجھے یاد ہے اس سے قبل کئی پنجابی رہنمائوں کو اس موقع پر دھکے بھی دیے گئے تھے۔ حتیٰ کہ نواز شریف جو محترمہ کے جنازے میں شریک ہونا چاہتے تھے اور انہوں نے الیکشن کے بائیکاٹ کا اعلان بھی کر دیا تھا، کو کچھ دن کیلئے سندھ آنے سے روک بھی دیا گیا۔ چند دن بعد نواز شریف تعزیت کیلئے پہنچے تو آصف زرداری نے پاکستان کو بچانے کیلئے محترمہ بے نظیر بھٹو کا علم اٹھا لیا تھا۔ اس علم اٹھانے کی انہیں کڑی سزا بھی ملی۔ 1989 ء میں اْن پر لاہور کے گورنر ہائوس سے 4 ٹرک نوٹوں اور سونے سے بھرے ہوئے برآمد ہونے کا الزام لگایا گیا۔ پھر اْن پر غلام حسین انڑ کی ٹانگ پر بم باندھنے کا الزام لگایا گیا۔ وہ اس سے بھی بری ہوئے۔دہشت گرد تنظیم کے ارکان کو قتل کرنے کے مقدمات درج کروائے گئے۔ وہ اپنے بد ترین دشمنوں کے ادوار میں اس سے بھی بری ہوئے۔ اْنکی تقریباً 13 سال کی جیل بیگم نصرت بھٹو اور بے نظیر سے کیے اس عہد کا عملی ثبوت تھی کہ بے نظیر سے شادی کے بعد میں اْن کی ڈھال بنوں گا اور وہ اب کبھی جیل نہیں جائیں گی۔ آصف زرداری آمریت اور زیوس دیوتا کے اغوا برائے سیاسی تاوان والے قیدی تھے۔ مگر انہوں نے کبھی بے نظیر بھٹو اور پیپلز پارٹی کا سر جھکنے نہیں دیا۔ پاکستان کے ایک بڑے صحافتی ادارے کے سربراہ مجید نظامی نے انہیں اپنے آفس میں دعوت دی اور مردِ حْر کا خطاب دے دیا۔ زرداری انتقامی سیاست سے نا آشنا ہے۔ اْن پر جھوٹے مقدمات بنوانے والے جب خود قیدی بن کر اْنکے ساتھ والی بیرک میں پہنچے تو آصف زرداری نے گھر سے اْن کیلئے کھانا منگوایا۔ سیف الرحمان اْن کے قدموں میں گر پڑے تو انہیں اٹھا کر گلے سے لگا لیا۔
آصف زرداری کے والد حاکم علی زرداری ایوب خاں کے بلدیاتی الیکشن میں نواب شاہ کے میئر منتخب ہوئے اور مادرِ ملت کی حمایت کی۔ وہ تین مرتبہ قومی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے۔ حاکم علی زرداری کے پاس اْس وقت زمینیں، تعمیراتی کام اور سینما ہائوس تھے۔ جب آج کے کئی سرمایہ داروں کے پاس ناک صاف کرنے کیلئے رومال بھی نہیں ہوتا تھا۔ حاکم علی زرداری کو جنرل ضیاء کی فوجی عدالت میں 7 سال کیلئے سیاست میں حصہ نہ لینے کی سزا بھی دی گئی۔ اْنکی زمینوں کا پانی بند کیا گیا جس سے اْنکی ہزاروں ایکڑ پر کھڑی فصلیں تباہ ہوگئیں۔ بے نظیر بھٹو بتاتی ہیں کہ منگنی سے قبل زرداری گروپ کے قومی بنکوں سے منظور شدہ قرضوں کی ادائیگیوں کو بھی روک دیا گیا۔ اور حاکم علی زرداری کو پیغام دیا کہ آپ غلطی کر رہے ہیں۔ پوری فوج اور بیوروکریسی آپ کی دشمن ہوجائے گی۔ انہوں نے جواب دیا کہ ہم بلوچ ہیں، ہاتھ مانگا ہے اور دیا ہے۔ اب کبھی پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ آصف زرداری بیگم نصرت بھٹو کا انتخاب ہیں۔ میرے خیال میں آصف زرداری کو سمجھنے کے لیے کسی PhD کی ضرورت نہیں ہے۔ جو اْس کی زبان کاٹ رہے تھے وہ اْن کی طرف مسکرا کر دیکھ رہا تھا۔ بس یہی PhD اور یہی آصف زرداری کی سیاست ہے۔ آصف زرداری کی سالگرہ کل 26 جولائی کو ہے مگر محرم کے احترام میں کوئی تقریب منعقد نہیں ہوگی۔