بابا رحمتے سے ملاقات
دنیا میں اہل علم ودانش ریٹائرڈ تجربہ کار لوگ معاشرے کا اثاثہ ہوتے ہیں۔ ان لوگوں پر مشتمل تھنک ٹینک ان کیتجربات کی روشنی میں اور حالات حاضرہ کی ضروریات کو مدنظر رکھ کر تجاویز حاصل کی جاتی ہیں لیکن ہمارا باوا آدم ہی نرالا ہے۔ ہم اپنے مفاد کے لیے اداروں تک کو تباہ کر چھوڑتے ہیں اپنی ضدوں اور جھوٹی اناوں کے لیے ملک کا کھربوں روپے کا نقصان کر چھوڑتے ہیں۔ حال ہی میں تبدیلی کے نام پر جو کچھ ملک کے ساتھ ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔ لیکن ایک دو سیاسی جماعتوں نے اپنا سیاسی بیانیہ بنانے کے لیے ملک کی سب سے بڑی عدالت کو متنازعہ بنا دیا۔ اسی سیاسی بیانیہ میں سابق چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار کو بھی خوب رگڑا لگایا گیا۔ کسی سیاسی جماعت کے بیانیہ کے آگے ایک آدمی کتنی وضاحتیں کر سکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جو کچھ عدالتوں اور عدالتی شخصیات کے ساتھ کر دیا گیا ہے اس سے پاکستان کا جسٹس سسٹم جس میں پہلے ہی بہت ساری خامیاں تھیں بہت زیادہ متاثر ہوا ہے۔ قانون کی رٹ متاثر ہوئی ہے۔ جب حکمران عدالتی فیصلوں سے پہلو تہی کریں گے تو مافیاز کو تو اور زیادہ ہلہ شیری ملے گی۔ آج ایک جماعت نے بابا رحمتے کو ٹارگٹ کیا ہوا ہے لیکن ہمیں یہ تسلیم کرنا پڑے گا اور یہ تاریخ کا حصہ بن چکا ہے کہ میاں ثاقب نثار کے دور میں ملک کے طول وعرض میں عدالتی رٹ قائم تھی۔ لوگوں کا عدالتوں پر اعتماد بڑھا تھا۔ بابا رحمتے نے ایک دفعہ تو بدمعاشوں قبضہ گروپوں رسہ گیروں اور مافیاز کو نتھ ڈال دی تھی۔ ہزاروں لوگوں کی فوری داد رسی کی گئی۔ سپریم کورٹ کے اعدادوشمار کے مطابق انسانی حقوق کے حوالے سے ایک لاکھ سے زائد درخواستوں کو نمٹایا گیا۔ ہزاروں خواتین اور بیسہارا لوگوں کو فوری انصاف ملا۔ چاہیے تو یہ تھا کہ فوری انصاف کے اس ماڈل کو جاری رکھا جاتا، میاں ثاقب نثار کے جانے کے ساتھ ہی عدلیہ پر گہرا وار کرکے انصاف کی فراہمی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا گیا۔ چند روز قبل سنیر صحافیوں کے ایک وفد نے میاں ثاقب نثار سے تفصیلی ملاقات کی۔ ملاقات کا اہتمام ناصر اقبال خان نے کیا تھا۔ ابتدائی کلمات میں میں نے سوال رکھا کہ پوری قوم، عدلیہ اور صحافت شدید دباو میں ہے۔ افراتفری اور غیر یقینی سے مایوسی بڑھ رہی ہے۔ ایسے میں پاکستان کا مستقبل کیا ہے۔ اس پر میاں ثاقب نثار نے دو گھنٹے کا طویل اکیڈمک لیکچر دیا جسے کالم میں تو نہیں سمویا جاسکتا البتہ اس پر کتابچہ لکھا جا سکتا ہے۔ انھوں نے تخلیق آدم سے لے کر قانون انصاف کیا ہے، سزا اور وارننگ، معاشرے میں حقوق وفرائض بارے سیر حاصل گفتگو کی۔ بنیادی انسانی حقوق بارے بات کی اور بتایا کہ کس طرح ہم ماحولیاتی آلودگی پیدا کر کے انسانوں کے زندہ رہنے کے حقوق متاثر کر رہے ہیں۔ انھوں نے آئین کی کتاب کو ہاتھ میں پکڑ کر کہا کہ جمہوری نظام کے ذریعے سے ہی بہتری آئے گی اور آئین پر عملدرآمد سے ہی توازن پیدا ہو گا۔ ٹاپ کے پندرہ بیس لوگ بہتر آگئے تو بہت ساری بہتری آجائے گی۔ انھوں نے کہا کہ وہ پاکستان کے مستقبل سے مایوس نہیں ہیں۔ نیک نیتی کے ساتھ اقدامات کی ضرورت ہے۔ انھوں نے ڈیم فنڈ کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں کہا کہ پانی زندگی ہے اور انسان کو زندہ رہنے کے بنیادی حقوق پر کام کرتے ہوئے ہم نے ڈیم بنانا ضروری سمجھا۔ آپ اندازہ لگائیں کہ جب 2050 تک پاکستان کی آبادی دوگنا ہو جائیگی آپ کو پانی اور خوراک کی شدید قلت کا سامنا کرنا پڑیگا۔ لہذا ڈیم بنانے کیلئے میں نے شمس الملک اور واپڈا کے آبی ماہرین سے بریفنگ لی۔ سب سے آسان اور سستا ڈیم کالا باغ ڈیم تھا لیکن صوبوں میں اس بارے تحفظات تھے۔ میں صوبوں کے درمیان محاذ آرائی نہیں چاہتا تھا اس لیے ہم نے بھاشا ڈیم کی تعمیر کا فیصلہ کیا دنیا کے کئی ممالک میں پبلک فنڈنگ سے ایسے منصوبے بنائے گئے۔ ہم نے بھی پبلک فنڈز سے بھاشا ڈیم کی تعمیر کا فیصلہ کیا اس حوالے سے دس ارب روپے اکٹھے ہوئے جو کہ سٹیٹ بینک میں محفوظ ہیں۔ جہاں تک میں نے ڈیم پر پہرہ داری کی بات کی تھی میں نے پانچ رکنی سپریم کورٹ کے ججز پر مشتمل کمیٹی بنائی جو ڈیم کی تعمیر اور فنڈز کی نگرانی کی ذمہ دار ہے۔ اور فیصلہ کیا کہ تعمیر کے حوالے سے پیش رفت بارے ہر تین ماہ بعد کمیٹی کو آگاہ کیا جائے گا۔ سپریم کورٹ کے ججز پر مشتمل کمیٹی نے گورنر سٹیٹ بینک کو بلوا کر پوچھا کہ اس فنڈ کا کیا کیا جائے تو انھوں نے تجویز دی کہ اسے ری انویسٹ کر دیا جائے۔ وہ دس ارب روپے اب 17 ارب روپے ہو گئے ہیں اور سپریم کورٹ کے پاس محفوظ ہیں۔ میں نے ڈیم کی تعمیر کی نگرانی کی جو بات کی تھی میں اس پر بھی قائم تھا لیکن مجھے کہا گیا کہ دہشتگردی عام ہے کوئی ایسے ہی آپ کو مار جائیگا۔ میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کو ڈیموں کی اشد ضرورت ہے اور انسانی زندگی کی بقا کیلئے پانی کی سٹوریج بہت اہم ہے۔ میں آج بھی اس کیلئے کردار ادا کرنے کو تیار ہوں۔ انھوں نے بتایا کہ میں کسی حکیم کی طرح اپنے نسخے قبر میں ساتھ نہیں لے جانا چاہتا۔ میں چاہتا ہوں میں اپنی مہارت لوگوں میں بانٹوں اس لیے میں بیسہارا لوگوں اور پروفیشنلز کیلئے مفت قانونی مشوروں کیلئے حاضر ہوں۔ میرے پاس ملک کے چوٹی کے وکلاء اپنے کیس کی تیاری کیلئے مشاورت کیلئے آتے ہیں جنھیں اپنی استعداد کے مطابق گائیڈ کرتا ہوں۔ انھوں نے بتایا کہ انھوں نے اپنی عملی زندگی کا آغاز تھڑے سے کیا تھا انکی والدہ نے ان کی ایسی تربیت کی کہ ساری زندگی کسی کا دباو نہیں لیا۔ انھوں نے اس سوال پر کہ پاکستان کی عدالتیں فیصلے کرتی ہیں انصاف کیوں نہیں کر پا رہیں، کہا کہ ہمارا عدالتی نظام آج کے حالات سے مطابقت نہیں رکھتا آج بھی 1876 کے قانون موجود ہیں۔ ہم نے کئی بار مقننہ کو تحریری طور پر لکھ کر بجھوایا کہ آج کے حالات کیمطابق قوانین میں ترمیم کی ضرورت ہے لیکن اس میں ترمیم نہیں کی گئی خاص کر قانون شہادت کوتبدیل کرنا بہت ضروری ہے۔