منگل ‘ 6 محرم الحرام 1445ھ25 جولائی 2023ء
سندھ اور کچے میں ڈاکوؤں کے خلاف فوجی کارروائی کی جائے
بس بھئی بس اب تو حد ہو گئی۔ میڈیا پر ملک بھر سے آوازیں بلند ہو رہی ہیں۔عوام کے صبر کا امتحان نہ لیا جائے گا۔ کہیں ایسا نہ ہو ظلم کی یہ داستانیں جو حقیقت میں بہت تکلیف دہ ہیں دیکھ کر لوگ از خود اپنے لشکر تشکیل دے کر ڈاکوؤں کے ان گروہوں کا قلع قمع کرنے نکل پڑیں۔ جی ہاں اس وقت سندھ میں اور کچے کے علاقے میں ڈاکوؤں کے گروہوں نے جو قیامت مچا رکھی ہے اس کا سدِباب ضروری ہو گیا ہے۔ ان علاقوں کے بڑے بڑے جاگیرداروں اور وڈیروں نے یہ سانپ پالے ہیں جن کی سرپرستی حکومتی ٹولے میں شامل بااثر افراد بھی کرتے ہیں۔ اس طرح ان کا رعب و دبدبا علاقے پر قائم رہتا ہے۔ اگر یہ جھوٹ ہے تو ان کے پاس یہ بھاری جدید اسلحہ کہاں سے آتا ہے۔ یہ شہروں اور دیہات میں دندناتے کیسے پھرتے ہیں؟ پولیس بکری کیوں بن جاتی ہے ان کے سامنے ان کو گولیوں سے بھون کیوں نہیں دیتی ؟ آخر یہ لوگ بھی یہی کچھ کرتے ہیں۔ مغویوں کو بدترین تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے جو غریب تاوان کی بھاری رقم ادا نہیں کر سکتے انہیں بے دردی سے قتل کر دیا جاتا ہے۔ یہ منحوس کیکڑوں جیسی شکلوں والے ڈاکو ویڈیو بنا کر اپنی تازہ ترین کارروائیاں مونچوں کو تاؤ دیتے سوشل میڈیا پر شیئر کرتے ہیں۔ اس کے باوجود ان کے خلاف ایکشن نہ لینے سے بہت سے سوالات جنم لیتے ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ ان کے خلاف بھی دہشت گردوں کی طرح کریک ڈاؤن کیا جائے۔ ان کے مراکز کو خواہ جہاز سے یا ہیلی کاپٹر کے ذریعے بمباری کر کے تہس نہس کیا جائے۔ کب تک ان زہریلے سانپوں پر ترس کھایا جائے گا۔ جہاں ان کے خفیہ ٹھکانے ہیں وہاں کارپٹ بمباری کر کے انہیں واصل جہنم کیا جائے۔ یہ جو جتھے بنا کر اسلحہ برادر گروہ دیہاتوں میں گھومتے ہیں ان کو مارنا اور سانپوں کو مارنا برابر ہے۔ یہ عوم کی پکار بھی ہے۔
٭٭٭
بہاولپور اسلامیہ یونیورسٹی سکینڈل پر عوام سراپا احتجاج، سخت ایکشن لینے کا مطالبہ
اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں جو کچھ ہوا ہے وہ افسانہ ہے یا حقیقت، ضرورت اس امر کی ہے کہ اس قسم کے واقعات میں ملوث افراد کو نشانِ عبرت بنانا ضروری ہے۔ پہلے ہی ہماری بیٹیوں کو اعلیٰ تعلیمی اداروں میں خرابی ماحول کا ڈراوا دے کر اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے سے روکا جاتا ہے۔ اب اس قسم کے المناک واقعات گویا اس بیانیے کی تصدیق کر رہے ہیں کہ ایسا ہو رہا ہے۔ اب تو تمام لوگ جو لڑکیوں کی تعلیم کے حق میں ہیں وہ بھی اس قسم کے واقعات کے بعد اپنی بچیوں کو تعلیم حاصل کرنے نہیں بھیجیں گے۔ پوری قوم کا شرم سے جھک گیا ہے۔ لڑکیوں کے ساتھ ایسا بہیمانہ سلوک ان کی عزت و حرفت کو یوں سربازار رسوا کرنے والے کوئی بھی ہوں انہیں پھانسی پر لٹکانا ہوگا۔ اگر یہ سب کچھ جھوٹی مہم ہے تو یونیورسٹی کو بدنام کرنے کی کوشش کرنے والوں کو بھی لٹکانا ہوگا۔ ایسے تمام کرداروں کو جو ان واقعات میں ملوث ہیں انسان کی شکل میں چھپے بھیڑیے ہیں۔
اس واقعہ سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اخلاقی لحاظ سے ہم کتنی پستی میں گر چکے ہیں۔ ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں والے ہونے کے باوجود ہم دوسری خواتین کے حوالے سے غلط حرکت کرتے ہوئے ذرا بھی نہیں شرماتے اور بھول جاتے ہیں کہ کہیں مکافات کے چکر میں ہماری اپنی مائیں بہنیں اور بیٹیاں بھی کسی لپیٹ آجائیں تو کیا ہو گا۔ پورا ملک اس شرمناک سیکنڈل کی وجہ سے سراپا احتجاج ہے۔ اعلیٰ تعلیمی اداروں سے اگر لوگوں کا اعتماد اٹھ گیا تو کون اپنی بچیوں کو وہاں پڑھنے بھیجے گا۔ یہ کوئی ماڈرن لبرل یا مادر پدر آزاد یونیورسٹی نہیں اسلام کے نام پر قائم یونیورسٹی میں ہوا ہے۔ اب زبان دراز منہ پھٹ لبرل ازم کا شکار گز گز بھر لمبی زبانیں نکال کر جو اناپ شناپ کہیں گے اس کو برداشت کرنے کا یارا کسی میں بھی نہیں اس لئے وجہ جوبھی ہو سخت ایکشن لینا ضروری ہے؟
٭٭٭
سعودی عرب ساحلی پٹی پر 10 کروڑ درخت لگائے گا
درخت تو گزشتہ چار برسوں میں ہم نے بھی بہت لگائے تھے۔ بلین نہیں ٹریلین کے حساب سے مگر خدا جانے وہ سب کہاں گئے؟ کیونکہ ہمارے ہاں نہ حساب ہوتا نہ کتاب یہ سب کچھ نظرِ دوستا ں ہو جاتا ہے۔ شرط لگا لیں یہ جو سعودی عرب نے ساحلی علاقوں میں دس کروڑ مینگروز کے درخت لگانے ہیں چند سالوں میں یہ ہمیں ہرے ہرے نظر بھی آئیں گے اور جس کو شک ہو وہ جاکر ان کی گنتی بھی کر لے۔ مینگروز ساحلی علاقوں میں لگنے والا درخت ہے۔ کراچی کے ساحلی پٹی پر بھی ہزاروں درخت لگے ہیں لاکھوں لگانے کا پروگرام تھا مگر شکر ہے یہ ہزاروں میں لگ گئے۔ اسے بھی بعض جگہوں پر ماحول دشمن لوگ کاٹ لیتے ہیں۔ اس وقت ماحولیاتی تبدیلیاں جس طرح کرۂ ارض اور نوع انسانی کے لئے خطرناک ہوتی جا رہی ہیں، اس میں ضروری ہے کہ زیادہ سے زیادہ درخت لگائے جائیں تاکہ ماحولیاتی نظام نہ بگڑے۔ سعودی عرب تو صحرائی علاقے میں واقع ہے۔ اسی طرح گلف ایریا میں دیگر عرب ممالک کا بھی یہی حال ہے مگر وہاں کے حکمرانوں نے اس صحرا کو بھی بہشت بنا دیا ہے۔ کون سی نعمت ہے جو وہاں میسر نہیں۔ عالی شان فلک بوس عمارتیں، خوبصورت باغات تک وہاں موجود ہیں۔ اس کے برعکس ہمارا وطن بفضلِ خدا زرخیز ہے یہاں قدرت نے فیاضی سے جنگل، دریا، پہاڑ، صحرا، زرعی اراضی اور ساحل سمندر بھی ہمیں دیا ہے۔ اگر ہم اس پر توجہ دیں تو دنیا کی ہر نعمت ہمیں ارزاں یہاں دستیاب ہوسکتی ہے۔ ترقی کی ہزاروں راہیں یہاں نکل سکتی ہیں۔ بس صرف ہمیں ایمانداری سے کام کی ضرورت ہے۔ اس کے بعد ہم ترقی کی معراج پر پہنچ سکتے ہیں۔ اگر عرب ممالک صحرا کو گلستان بنا سکتے ہیں تو ہم اپے چمن کو رشک بریں کیوں نہیں بنا سکتے؟؟
٭٭٭
انڈونیشیا میں کتے اور بلی کے گوشت کی خرید و فروخت بند کر دی گئی۔
وہاں تو یہ پابندی لگ گئی۔ اب لوگ شاید قانون کے خوف سے اس پابندی پر عمل بھی کریں گے۔ اگر کچھ زیادہ لالچی اور بہادر لوگ ہوئے بھی تو وہ چوری چھپے یہ حرام گوشت فروخت کریں گے۔ اس کا امکان بہت کم ہے۔ انڈونیشیا ایک بڑا اسلامی ملک ہے۔ مگر وہاں ابھی تک تجارت، سیاحت اور کاروبار کو آزادانہ حیثیت دی گئی ہے۔ مسلمانوں کی تو بات نہیں کرتے۔ مگر وہاں کے غیر مسلم آج بھی بلی اور کتے کے گوشت کا استعمال کرتے ہیں۔ صرف انڈونیشیا کیا ویت نام، تھائی لینڈ، چین، برما، بنکاک اور ہانگ کانگ، تائیوان کی مارکیٹس بلی، کتے اور گدھے کے گوشت سے بھری ملتی ہیں۔ یہ وہاں کی من بھاتی خوراک ہے۔ اس کے باوجود دیکھ لیں وہاں کتوں اور بلیوں اور گدھوں کی آبادی کم نہیں ہوئی مگر افسوس ہوتا ہے یہ دیکھ کر کہ ہمارے ہاں جی ٹی روڈ کے اردگرد ملتان سے لاہور اور وہاں سے پشاور تک آہستہ آہستہ کوے، مینا، گدھے اور کتے غائب ہو رہے ہیں مگر کسی کو پرواہ تک نہیں۔ جی ٹی روڈ ہو یا موٹروے کے اردگرد ہوٹلوں کی تعداد روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔ لذت کام و دھن کا سلسلہ زور و شور سے جاری رہتا ہے۔ ہم پاکستانی بھی ایسے لکڑ ہضم پتھر ہضم ہیں کہ ہمیں پتہ ہی نہیں چلتا کہ کون سا گوشت کس کا ہے جو ہم کھا رہے ہیں۔ بس دھڑا دھڑ منہ چلانے اور معدہ بھرنے پر توجہ دیتے ہیں۔ بڑے بڑے شہروں میں تو عام و خاص ہوٹلوں میں بھی معلوم نہیں ہوتا ہم کیا کھا رہے ہیں۔ حلال و حرام اور زندہ و مردہ جانور کی تفریق مٹ چکی ہے کوئی ہے جو ہمارے ہاں بھی ایسی ہی سخت پابندی لگائے تاکہ ہم بھی حرام خوری سے بچ سکیں۔