راحت کی جستجو میں خوشی کی تلاش میں
تبدیلی ایک مسلسل عمل ہے معاشرہ ساکت و جامد نہیں رہ سکتا۔تغیر و تبدل ہی اصل میں ارتقا ہے اور اسی میں معاشرے اور انسانیت کی بقا ہے مگر کچھ بدلاو¿ ایسے ہوتے ہیں جو معاشرے کی ظاہری ہیت تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں تاریخ ایسی بے شمار مثالوں سے بھری پڑی ہے جن میں مختلف وجوہات کی بنا پر تہذیب ،ثقافت اور روایات زوال کا شکار ہوئیں اور معاشرہ مجموعی طور پر بے یقینی اور ناامیدی کی کیفیت سے دو چار ہوا۔ چند دن پہلے ایک نجی نیوز چینل پر ایک میزبان عوام سے مہنگائی اور دیگر مسائل پر رائے طلب کر رہا تھا بات مکمل ہوتے ہی کیمرہ مین نے کیمرے کا رخ تبدیل کیا تو پس منظر میں موجود بہت سے لوگ اپنے روزمرہ کاموں میں مصروف تھے۔جس بات نے مجھے پریشانی اور تجسس میں مبتلا کیا وہ ان اب سب کے چہروں پر صاف طور سے دیکھا جانے والا والا رنج و ملال اور بیزاری کا تاثر تھا۔دکھائی جانے والی جگہ لاہور کی معروف مارکیٹ تھی جہاں تقریباً زندگی کے ہر شعبہ سے تعلق رکھنے والے افراد موجود ہوتے ہیں۔
اس بات کا سراغ لگانے کے لیے کہ یہ محض اتفاق ہے یا واقعی اس میں کچھ حقیقت ہے میں نے پچھلے چند دنوں میں مختلف شہروں میں ریکارڈ ہونے والی یو ٹیوب ویڈیوز کو دیکھا جس کے پس منظر میں لوگ چلتے پھرتے دکھائی دے رہے تھے میری حیرت اور پریشانی میں مزید اضافہ ہوا کہ مجھے اکا دکا لوگ ہی مسکراتے نظر آئے۔
خوشی کیا ہے ؟ اسے کیسے حاصل کیا جا سکتا ہے اور کیا بحیثیت قوم ہم خوشیوں سے دور اور ملول رہنے کو ترجیح دیتے ہیں ؟ بظاہر یہ بہت سادہ سوالات ہیں مگر ان کے جوابات نہائیت پیچیدہ ہیں جن کی بنیاد میں کئی دہائیوں کے وعدوں اور دعووں کی لاشیں دفن ہیں۔ خوشی کے تصور پر بہت تحقیق کی گئی ہے اور کچھ لوگ اسے اندرونی کیفیات سے وابستہ کرتے ہیں اور کچھ کے نزدیک یہ زندگی کی ایک مہارت ہے جسے کوشش سے حاصل کیا جا سکتا ہے اور شعرا کے نزدیک بھی یہ تاثر ہے کہ “دل کا موسم اچھا ہو تو سارے موسم اچھے ہیں “مگر عملی دنیا میں دل کے موسم کا براہ راست تعلق معیشت سے جڑا ہے۔ غیر مستحکم سیاسی اور سماجی صورتحال نے ایک عام انسان کو زندگی کی تمام رنگینیوں اور رعنائیوں سے دور کر دیا ہے میلے ٹھیلے ، صنعتی نمائشیں ہر علاقے کے کھیلوں کے مقابلے جو زندگی کی علامت تھے اب ایک خواب ہی لگتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے زیر اہتمام ایک سروے کے زریعے ہر سال خوش حال اور خوش باش ممالک کا تعین کیا جاتا ہےاور 2023ءکی رپورٹ کے مطابق خوش باش ممالک میں پہلا نمبر فن لینڈ کا ہے اور پاکستان پہلے سو ممالک میں بھی شامل نہیں ہے۔ ان ممالک کی درجہ بندی ایک خاص پیمانے کے تحت کی جاتی ہے جن میں انفرادی آمدنی ،صحت کی سہولیات ،تعلیم اور کرپشن کی صورتحال کو مد نظر رکھا جاتا ہے عالمی سروے کے ان پیمانوں پر غور کریں تو تکلیف دہ حالات نظر آتے ہیں کہ چند فیصد طبقے کے علاوہ ان میں سے کوئی ایک بھی سہولت عوام کو میسر نہیں ہے۔ ایک عام انسان کو سیاست سے اس حد تک دلچسپی ہو سکتی ہے کہ اس کے بنیادی حقوق کی فراہمی میں سیاست کیا کردار ادا کر رہی ہے۔
کسی مملکت کے انسانوں کی اجتماعی خوشیوں کا تعلق براہ راست ریاست کی معاشی پالیسیوں سے ہوتا ہے فی کس آمدنی کا موجودہ فرق اور ارتکاز دولت کے سبب معاشرے میں شکست و ریخت کا عمل جاری ہے اور اس کے اثرات واضح طور پر دیکھے جا سکتے ہیں۔ عام طور پر معاشی طور پر مستحکم افراد ہی معاشرے کے رجحانات اور اصول متعین کرتے ہیں مگر بنے ہوئے اصول و ضوابط کو برقرار رکھنے کی زمہ داری ذہنی اور جسمانی طور پر پرسکون عوام انجام دیتے ہیں اگر روزمرہ وسائل تک رسائی بھی ایک خواب ہو معیشت چند ہاتھوں تک محدود ہو تو عوام کے چہروں پر خوشی کے تاثرات کہاں سے آئیں گے۔ اب مسائل پر آنکھیں بند کرنے لاتعلقی جیسے رویے کو اپنانے یا باتوں میں ٹرخانے سے مسائل حل نہیں ہوں گے۔اگر عام آدمی کو تمام وسائل اور مواقع بغیر رشوت اور سفارش کے میسر ہوں اور بنیادی ضروریات پوری ہو رہی ہوں تو اسے احساس ہو گا کہ ریاست اس کے پیچھے کھڑی ہے ورنہ لوگ ریاست کو دشمن تصور کریں گے اور یہ ٹکراو ملکی سالمیت کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے۔آج پاکستان جس مقام پر کھڑا ہے یا جو خدوخال نمایاں ہیں انہیں دیکھ کر تو محسوس ہوتا ہے عوام کو ان کے حال پر چھوڑ دیا گیا ہے اور کرتا دھرتا سنجیدہ عملی کاوشوں حتی کہ کوئی امید دینے سے بھی قاصر نظر آتے ہیں۔۔بقول ادیب سہارنپوری
راحت کی جستجو میں خوشی کی تلاش میں
غم پالتی ہے عمر گریزاں نئے نئے
٭....٭....٭