• news

”طاہرہ نقوی کی آمد پاکستان میں“

طاہرہ نقوی میری بچپن کی سہیلی ہی جب ہم دونوں کو نونٹ جیززاینڈ میری(Convent of Jesus and Marry) میں پڑھتی تھیںہماری زمانی میں کلاس ون سی اردو نہیں پڑھائی جاتی تھی بلکہ پانچویںکلاس سی شروع ہوئی تھیتو ہم دونوں کو ہی بچوں کی کہانیاں لکھنی کا شوق پیدا ہوا۔ طاہرہ کا سیکشن مجھ سی الگ تھا میری ایک اور سہیلی فاخرہ کی وساطت سی یہ میری بھی دوست بن گئی ایک روز مجھی کہنی لگی کہ میں افسانہ لکھوں گی ”’افسانہ“ میں حیرت میں مبتلا ہو گئی اور جھٹ سی جواب دیایہ ابھی ممکن نہیں افسانہ لکھنا بہت مشکل کام ہی وہ مسکرا کر دیکھنی لگی اس کی مسکراہٹ دیکھ کر میں نی اندازہ لگا لیا کہ یہ ضرور لکھی گی کیونکہ یہ بہت لائق تھیاکثر خالی پیریڈ پر آپس میں بچوں کی کہانیاں ہم دونوں شیئر کرکی بہت انجوائی کرتیںساتویں کلاس میں ہم دونوں جدا ہو گئیںطاہرہ سینئر کیمبرج کیلئی دوسری ڈیپارٹمنٹ میں چلی گئی اور میں میٹرک میںاس کی جانی کی بعد میں بی حد اداس ہو گئی تھی زندگی کا پہیہ چلتا رہا اور تعلیم کی بعد طاہرہ کی شادی ہو گئی اور اس نی امریکہ میں جا کر اپنی پڑھائی جاری رکھی ایسی مصروف ہو گئی کہ کئی سال تک ہمارا رابطہ نہ ہو سکا ذہانت اس کی اندر کوٹ کوٹ بھری تھیاورڈگری حاصل کرتی ہی امریکہ کی مشہور یونیورسٹی میں پڑھانے لگی۔
ساری زندگی میں نی اس کو یاد کیاکیونکہ ہم دونوں نی پانچویں کلاس میں لکھنی اور پڑھنی کا آغاز کیا تھامیرا بیٹا رضا رومی کورنل یونیورسٹی میں پڑھاتا تھا اور یہ نیویارک کی یونیورسٹی میں اس کی طاہرہ سی کافی ملاقاتیں ہوئیں ۔
میں اکثر رضا سی پوچھتی تھی آپکی پروفیسر کا نام طاہرہ حسین ہی تو یہی کہتا نہیں وہ طاہرہ نقوی ہیں لیکن پانچ سال پہلی جب پاکستان آئیں تو رضا نی طاہرہ کی اعزاز میں عشائیہ دیامیں نی اسی دیکھتی ہی پہچان لیااور کچھ عرصہ رہنی کی بعد وہ واپس امریکہ چلی گئی پھر 16جولائی2023ءمیں دوبارہ پاکستان کا چکر لگا تو رضا نی اس کی اعزاز میں ایک خوبصورت شام کا اہتمام کیا۔ یہ محفل اس لحاظ سی بڑی منفرد تھی اس میں پروفیسرز، وکیل،دانشور اور لکھاری تھی جنہوں نی طاہرہ کی نئی تراجم کا ایک باب سنا اور اس ناول کی باری میں بات چیت بھی کی۔ رضا کی دوست احمد حسین شاہ باقاعدہ اسلام آباد سی آئی اور محفل میں چھائی رہی۔ بلکہ اقبال کی شکوہ اور بلی شاہ کی شاعری کو انگریزی میں خوبصورت انداز سی پیش کیا تو سب نی بڑا انجوائی کیا۔ رخشندہ اور صغریٰ صدف کی پنجابی اور اردو کی شاعری کو سب لوگوں نی سراہا۔
اس کی علاوہ عمر عادل جس محفل میں بھی ہوں تو کوئی بور نہیں ہوتا۔ دلچسپ گفتگو کرتی رہیاس کی بعد طاہرہ نقوی نی بتایا کہ وہ آجکل اپنی ناول پر کام کر رہی ہی جو عنقریب شائع ہو گامجھی اس کا ٹیلنٹ تو بچپن سی ہی معلوم تھااب وہ بہترین لکھاری ٹرانسلیٹر اور نیویارک یونیورسٹی کی پروفیسر ہیں بچپن میں جس طاہرہ کو افسانہ لکھنی کا شوق پیدا ہوا تھادیکھتی ہی دیکھتی نہ جانی کتنی افسانی لکھ ڈالی ہوں گیذہانت بھی اللہ کی دین ہوتی ہی اللہ محنت کا پھل ضرور دیتا ہی طاہرہ بہت پیاری انسان ہی اور خوش اخلاق بھی منٹوں میں انسان کو اپنا گرویدہ بنا لیتی ہی خدا داد ٹیلنٹ قدرت نی اسی دیا ہی مگر ذرا بھر غرور نہیں ہیلکھنی لکھانی کی چکر نی ہم دونوں کو پھر ملا دیا ہے۔
انسان کبھی کبھی سوچتا ہی کہ وہ اپنی پیاری ہستی کو شاید مل نہیں پائی گا مگر اللہ کی ذاتاس کی محبت دیکھ کر درمیان میں ساری ناہموار راستی ہموار کر کی ایک دوجی کو ملا دیتا ہی اس لئی کہتی ہیں World is very smallمیں کبھی کبھی سوچتی ہوں کہ طاہرہ کی لگن،جستجو اور شوق افسانہ لکھنی کا تھا وہ افسانہ جسی وہ بچپن میں لکھنا چاہتی تھی اسی کہاں سی کہاں لی گیا۔ آج وہ امریکہ کی یونیورسٹی کی بہترین پروفیسر اور لکھاری ہیں۔ خدا کری کہ یہ اپنی تعلیم کی زیور سی سب کو یونہی مستفید کرتی رہی ۔ 

ای پیپر-دی نیشن