قومی اداروں کے استحکام کیلئے ایک تجویز
بھرپور کوشش کرتا ہوں کہ وطن عزیز سے ساڑھے پانچ ہزار میل دور ہوتے ہوئے اپنے عظیم وطن کے روزافزوں بڑھتے معاشی‘ سیاسی اور اقتصادی عدم استحکام میں قدرے استحکام پیدا کرنے کیلئے کوئی ایسا جمہوری نسخہ حاصل کر پاﺅں جس سے یہاں پروان چڑھنے والی برطانوی نسل کے پاکستان کے بارے میں بڑھتے منفی رویوں کا خاتمہ ہو سکے۔ مگر افسوس! باوجود کوشش کے اپنے اس قومی مقصد میں ابھی تک کامیاب نہیں ہو پایا۔ پہلے بھی متعدد بار عرض کرچکا ہوں کہ برطانیہ ایسا ترقی یافتہ جمہوری ملک بھی بلاشبہ مالی اور معاشی بدحالی کا شکار ہے مگر ہم میں اور ان میںفرق یہ ہے کہ یہاں آئین اور قانون کی بلارنگ و نسل حکمرانی ہے جو یہ کہتے ہیں‘ وہ کرتے ہیں جبکہ ہمارا قومی المیہ یہ ہے کہ جو کہتے ہیں‘ وہ کرتے نہیں اور جو نہیں کرنا ہوتا‘ وقت ضائع کئے بغیر وہ کر دیتے ہیں۔ بیوروکریسی یہاں بھی منہ زور ہے‘ اداروں کے اندر وہ کچھ ہوتا ہے جس کا ایک عام برطانوی شہری اندازہ تک نہیں کر سکتا مگر سب کچھ ہونے کے باوجود جانوروں‘ حیوانوں اور انسانوں کے بنیادی حقوق کی جوابدہ حکومت وقت ہے جو ”زیروٹالرنس“ کی پالیسی اپنائے ہوئے ہے۔ پاکستانی جمہوریت اور برطانوی جمہوریت کا موازنہ آپ یوں کرلیں کہ برطانوی اداروں اور محکموں میں عوام کیلئے اپنے آپ کو وقف کئے خدمات سرانجام دینے والے اعلیٰ ذمہ دار افسران کو ہر سال نئی سرکاری گاڑیاں دینے کا سرے سے یہاں تصور ہی موجود نہیں جبکہ انہی گوروں سے حاصل کی گئی ہماری جمہوریت میں سی ایس ایس ’صابوں‘ کو حکومت کی جانب سے دی جانیوالی بڑی مراعات کو افسر کا بنیادی حق قرار دیا جاتا ہے۔ اسی طرح کے میرے ایک ”صاب دوست“ نے اگلے روز یہ اطلاع دیتے ہوئے کہ پنجاب کے 200 سرکاری افسران کیلئے حکومت نے نئی گاڑیاں خریدنے کی منظوری دے دی ہے۔ مجھے حیرانگی سے اس لئے دوچار کردیا کہ ابھی چند ہفتے قبل ہی تو ”ترلے منتوں“ کے بعد آئی ایم ایف نے پہلی قسط دینے پر رضامندی کا اظہار کیا تھا۔ غریب اور مقروض ملک کے شہری ہونے کے ناطے بتانا پسند کرو گے کہ سرکاری افسران کو مبینہ طور پر دی جانیوالی ان دو سو نئی گاڑیوں پر کل کتنا خرچہ آیا ہے؟ میں نے اپنے اس ’صاب‘ دوست سے پوچھا! تمہاری حب الوطنی کے دفاع کی یہی کھوج لگانے کی عادت ہے جس سے مجبور ہو کر تم دوستوں کے ”دوالے“ ہو جاتے ہو۔ رہتے انگلستان ہو اور غم تمہیں اپنے محنتی اور لائق دوستوں کو ملنے والی مراعات کا کھائے جا رہا ہے۔ دوست نے ایک زوردار قہقہہ لگاتے ہوئے کہا۔
افسروں کو سرکاری ڈیوٹی پر استعمال کیلئے دی جانیوالی ان نئی گاڑیوں پر 2 ارب 33 کروڑ روپے کی لاگت متوقع ہے۔ تاہم یہ بات بھی ذہن میں رکھو کہ یہ گاڑیاں 16 سی سی اور 13 سو سی سی انجن کی ہونگی اس لئے مذکورہ گاڑیوں کو اب کہیں لگژری گاڑیوں کا ٹائٹل نہ دے دینا۔ سرکاری افسران کو انکی دفتری‘ فیلڈ ڈیوٹی اور سکیورٹی رسک کے حوالہ سے ٹرانسپورٹ ضرور مہیا کی جانی چاہیے۔ میں اس حق میں ہوں تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ ڈیوٹی ٹرانسپورٹ صرف ڈیوٹی کیلئے ہی استعمال ہو۔ میں نے دوست کو جواب دیا۔ بہت خوب! مطلب سرکاری گاڑی صرف سرکاری دفتر تک رکھوں جبکہ بچوں کو سکول چھوڑنے‘ لے جانے اور شاپنگ کیلئے علیحدہ ذاتی گاڑی اور علیحدہ ڈرائیور رکھوں؟ کیا فارمولہ پیش کیا ہے تم نے۔ تم جیسے ولی کیلئے انگلستان ہی بہتر ہے۔ دوست نے بھرپور قہقہہ لگاتے طنزیہ انداز میں کہا۔ سنو! جس ملک میں 76 سالہ آزادی کے دوران متعدد مارشل لاءلگ چکے ہیں‘ جہاں سیاست کے لبادہ میں سیاست دان ذاتی مفادات کو قومی مفادات پر ترجیح دیتے ہوں‘ جہاں منتخب حکومتوں کو ان کی مدت پوری کرنے سے قبل ہی گھر روانہ کر دیا جاتا ہو‘ جس ملک میں غریب مزید غریب اور امیر امیر تک ہوتا جا رہا ہو‘ جہاں مہنگائی‘ قرضوں‘ سرمایہ کاری اور ووٹ کے تقدس کی بے توقیری کی جاتی ہو‘ جہاں سیاست دان فوج کو خود دعوت دیکر ملک کی باگ ڈور سنبھالنے کے مشورے دیتے ہوں‘ جہاں منافقت اور مفاد پرستی کا بول بالا ہو‘ وہاں تم مجھے یہ مشورہ دے رہے ہو کہ سرکاری گاڑی کو صرف سرکاری امور تک محدود کیوں؟ خود ہی بتاﺅ کہ ہمارے معاشرے میں جہاں ”ویسٹ منسٹر“ کا جمہوری رول ماڈل آج بھی رواں دواں ہے‘ ایسا کرنا ممکن ہو سکتا ہے؟ قصور تمہار نہیں‘ دوست بولا۔ انگلستان کی اعلیٰ معاشرتی اقدار اور انسانی حقوق اعلیٰ معیار نے تمہاری اخلاقی سوچ اور قومی رویوں کو کندن بنا ڈالا ہے۔ اور اسی خاکے کے تحت تم اب پاکستانی اداروں اور ان میں فرائض سرانجام دینے والوں کو اعلیٰ اخلاق‘ ایمانداری‘ فرض شناسی اور حقیقی عوامی خدمت کا درست دے رہے ہو۔ تمہاری مثبت فکر و نظر اور جذبہ حب الوطنی کا بلاشبہ میں معترف ہوں۔ تمہاری منفرد کالم نگاری پر بھی فخر ہے مگر میری جان! کسی بھی قومی فریضہ کو نیک نیتی اور ایمانداری سے سرانجام دینے کیلئے معاشرتی اصلاح اور حقیقی آئین و قانون کی بالادستی ناگزیر ہے۔ الحمدللہ! ہم اسلامی جمہوریہ پاکستان کے افراد ہیں مگر افسوس! اسلامی اقدار‘ اسلامی سوجھ بوجھ اور اسلامی طرز حکومت کا تاہنوز ادراک نہیں کر پائے۔ یہی وہ بنیادی کمزوری ہے جو قومی اداروں پر بھی اثرانداز ہو رہی ہے۔