اسحاق ڈار واقعی نگران وزیراعظم یا یہ محض ایک فلر ہے
فرحان انجم ملغانی
موجودہ اسمبلیاں اپنی آئینی مدت پوری کرنے کے قریب ہیں اور اسوقت حکومتی اتحادیوں میں 13 اگست سے قبل قومی اسمبلی اور سندھ و بلوچستان کی صوبائی اسمبلیوں کی مقررہ مدت سے چند روز قبل تحلیل، مستقبل کے نگران سیٹ اپ بالخصوص نگران وزیراعظم کے معاملے پر مشاورت کا عمل جاری ہے۔ اس ضمن میں سابق صدر آصف علی زرداری اور سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کے درمیان دبئی میں ہونے والے اجلاس پر مولانا فضل الرحمان سمیت دیگر اتحادی مذاکرات کے اس عمل سے انہیں دور رکھے جانے پر اپنے شدید ردعمل کا اظہار کر چکے ہیں مگر حقیقت یہی ہے کہ نگران سیٹ اپ کا حتمی فیصلہ میاں محمد نواز شریف اور آصف علی زرداری کی مشاورت سے ہی ہوگا۔ چند روز قبل وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو نگران وزیراعظم بنائے جانے کی خبریں ذائع ابلاغ کی زینت بنی رہیں۔کیا یہ فیصلہ واقعی حقیقت ہے یا محض ایک فلر چھوڑا گیا۔ کچھ بھی سمجھیئے مگر اس پر پاکستان پیپلز پارٹی سمیت دیگر اتحادی جماعتوں کا فوری طور پر ردعمل بھی سامنے آیا کہ اسحاق ڈار سیاسی جماعت کے سرگرم رکن ہیں اور کسی طور غیر جانبدار نہیں ۔جبکہ اس حوالے سے کسی قسم کی مشاورت سے بھی اظہار لاتعلقی کیا گیا جس پر مسلم لیگ ن کو بھی وضاحت کرنا پڑگئی جبکہ اس کے ساتھ ہی نگران حکومت کے اختیارات میں اضافے کے حوالے سے نکلنے والی دوسری خبر کی وزیراعظم کی جانب سے بھی تصدیق کردی گئی ہے اور اس حوالے سے گزشتہ روز پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اس حوالے پیش کئے گئے بل پر بحث بھی کی گئی اور چند سیاسی جماعتوں کی جانب سے اس کی مخالفت بھی کی گئی۔ حکومت کی جانب سے اسمبلیوں کی مدت میں مزید اضافہ نہ ہونے اور نگران حکومت کے قیام کے اعلان کے بعد ملکی سیاست میں تو ہلچل مچی ہوئی ہے مگر انتخابی سرگرمیاں تاحال دکھائی نہیں دے رہیں حالانکہ ماضی میں حکومتی مدت کا آخری سال لگتے ہی ملک بھر میں انتخابات طبل جنگ بج جاتا تھا اور ہر سیاسی جماعت پری الیکشن کمپین چلانا شروع کر دیتی تھی مگر اس بار تاحال ایسا ماحول دکھائی نہیں دے رہا۔ حکومت کو اپنے آخری ماہ میں بجلی وگیس کی قیمتوں میں کئے گئے ہوشربا اضافے کی وجہ سے عوامی ردعمل کا سامنا ہے جبکہ پی ٹی آئی کے امیدواران اور کارکن تاحال سیاسی سرگرمیاں معطل کئے ہوئے ہیں۔ سابق اراکین قومی و صوبائی اسمبلی کی بڑی تعداد سانحہ 9 مئی کے بعد سے یا تو پی ٹی آئی اور سیاست چھوڑنے کا اعلان کر کی ہے یا پھر انڈر گراؤنڈ ، باقی سنگین نوعیت کے مقدمات میں جیلوں میں ہیں۔
جنوبی پنجاب میں پاکستان تحریک انصاف کے وائس چیئرمین مخدوم شاہ محمود قریشی کے بعد چند روز قبل سابق چیف وہیپ قومی اسمبلی ملک عامر ڈوگر کی بھی ضمانت پر رہائی ہوگئی ہے مگر انہوں نے تاحال سیاسی سرگرمیوں سے دوری اختیار کر رکھی ہے اس بابت ملک عامر ڈوگر کا یہ جواز سامنے آیا ہے کہ انہوں نے ٹانگ کا آپریشن کروانا ہے اور وہ آپریشن کے لئے ٹیسٹ کروانے میں مصروف ہیں۔ پی ٹی آئی جنوبی پنجاب کے صدر عون عباس بپی ، سابق وفاقی وزیر زرتاج گل سمیت پی ٹی آئی عہدیداران کی بڑی تعداد تاحال منظر سے غائب ہے جبکہ سابق وزیر اعلیٰ عثمان بزدار نے تو پی ٹی آئی ہی چھوڑنے کا اعلان کردیا حالانکہ چیئرمین پی ٹی آئی نے تمام مقتدر حلقوں کی شدید مخالفت کے باوجود عثمان بزدار کو وزیرِ اعلیٰ پنجاب کے اہم ترین عہدے پر فائز رکھا۔
پاکستان تحریک انصاف کے وائس چیئرمین مخدوم شاہ محمود قریشی کا نگران سیٹ اپ کی تشکیل کے عمل میں پی ٹی آئی کو شامل نہ کرنے بارے اپنے ردعمل میں کہنا ہے کہ نگراں سیٹ اپ کے بارے میں دبئی میں دو بڑی جماعتوں میں مشاورت ہوئی اور مشاورت کے بعد فیصلے ہوئے۔کیا پاکستان کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ بند کمروں میں ہوگا؟۔ پاکستان کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کس نے کرنا ہے؟ دو بڑی جماعتوں کے سربراہان نے کرنا ہے یا حق عوام کو دیا جائے گاکہ وہ شفاف سیٹ اپ کے ذریعے آئندہ کے نمائندوں کا انتخاب کریں۔ دونوں کی ملاقات میں یہ بھی طے ہوا کہ پی ڈی ایم کی دیگر جماعتوں کو بھی اعتماد میں لیا جائے گا، فیصلے ہوگئے اب مشاورت باقی ہے۔یہ اب ابہام نہیں رہا کہ نگران وزیراعظم کس کی مرضی کا ہوگا، یہ طے ہے کہ نگران سیٹ اپ کس نوعیت کا مرتب کیا جا رہا ہے؟انہوں نے کہا وزیر اعظم کی باتوں سے لگتا ہے کہ اسمبلیاں وقت سے پہلے تحلیل ہوں گی۔یعنی 90 روز کے اندر الیکشن کا انعقاد کیا جانا ضروری ہے حکومت 90روز کے اندر انتخابات کو ترجیح دیتے ہوئے نظر آرہی ہے۔ الیکشن کی تاریخ الیکشن کمیشن نے دینی ہے۔ انہوں نے کہا لاہور کی بیٹھک جو ماڈل ٹاؤن میں ہوئی اس نے دبئی کے فیصلوں پر مہر ثابت کر دی۔سب جانتے ہیں اس بیٹھک میں کیا گفتگو ہوئی۔وزیر اعظم کی بات سے مجھے یہ سمجھ آئی کہ انہوں نے وقت سے پہلے اسمبلیوں کی تحلیل کا فیصلہ کیا ہے۔انہوں نے کہا انتخابی اصلاحات پر ایک کمیٹی ایاز صادق کی سربراہی میں تشکیل دی گئی ہے، انتخابی اصلاحات بہت اہم ہیں اور عجلت میں کی جا رہی ہیں۔سرور باری فافن کا حصہ رہے انہوں نے بھی الیکشن اصلاحات پر بات کی۔ان کی بات کو اہمیت دینی چاہئے۔ الیکشن ایکٹ2017ء سیکشن 9بہت مبہم ہے۔ ترمیم کے حوالے سے تحریک انصاف کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔انہوں نے کہا نگران وزیراعظم کے تقرر کے حوالے سے آئینی طریقے کار کے تحت لیڈر آف دی ہاؤس اور اپوزیشن لیڈر کے درمیان مشاورت ہوتی ہے۔ لیکن قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض صاحب برائے نام ہیں۔اورراجہ ریاض مسلم لیگ ن کے ٹکٹ کے خواہاں ہیں۔ان پرجو فیصلہ مسلط کیا جائے گا انہوں نے تو اس پر اپنی مہر تصدیق ثبت کرنی ہے۔ دوسری جانب نگران وزیراعلی پنجاب تواتر کے ساتھ ملتان سمیت جنوبی پنجاب کے دورے کر رہے ہیں اور ترقیاتی منصوبوں بالخصوص صحت کے منصوبوں کو فوکس کئے ہوئے ہیں۔
ملکی سطح پر رواں ہفتے جامعہ اسلامیہ بہاولپور کا ایشو زیر بحث رہا جسمیں جامعہ کے چیف سکیورٹی آفیسر سے دس گرام آئس اور انکے موبائل سے برآمد ویڈیوز کو طالبات کو ہراساں کرنے کے الزامات سامنے آئے اس حوالے سے سابق وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر اطہر محبوب جنہوں نے ایک روز قبل اپنی مدت تعیناتی مکمل ہونے کے بعد چارچ پرو وائس چانسلر کے حوالے کردیا ہے نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اس واقعے کی شفاف تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ اسی طرح گورنر پنجاب و چانسلر یونیورسٹی انجینیر بلیغ الرحمن کو بھی چاہیے کہ اپنے ہوم ٹاؤن کی اس بڑی یونیورسٹی کے سیکنڈل کا نوٹس لیں اور معاملے کی اعلیٰ سطحی انکوائری کروائیں تاکہ حقائق سامنے آسکیں۔ اس حوالے سے امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کہا ہے کہ جامعات، تعلیمی اداروں میں نوجوان نسل تباہ کی جا رہی ہے۔ یونیورسٹیز، کالجز میں نشہ عام ہے، حکومتی رپورٹس میں انکشافات کے باوجود بھی حکمران خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ بہاولپور یونیورسٹی کا واقعہ انتہائی افسوس ناک اور ہوشربا ہے،جس پر والدین پریشان ہیں۔