بلوچستان میں سیلاب کی تباہ کاریاں
شدید بارشوں اور سیلاب کے باعث بلوچستان کے کئی شہروں میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی ہے۔ سیلاب کے باعث بلوچستان کو پنجاب اور سندھ سے ملانے والی قومی شاہراہ اور پل پنجرہ کا عارضی راستہ دوبارہ بند ہو گیا ہے۔ بارشوں سے 112 مکانات مکمل تباہ اور 223 کو جزوی نقصان پہنچا ہے۔ کراچی کا بلوچستان سے زمینی راستہ 4 روزسے منقطع ہے۔ کیچ میں سیران ڈیم کے سپل وے سے پانی کا اخراج جاری ہے۔ بوستان، قلعہ سیف اللہ، لورالائی میں پانی آبادیوں میں داخل ہو گیا۔ ترجمان پراونشل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) کے مطابق طوفانی بارشوں سے دریائوں میں پانی کی سطح میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ دریائے سندھ میں تونسہ اور گڈو کے مقام پر درمیانے درجے کا سیلاب ہے۔ ملک بھر، خصوصاً پنجاب، میں طوفانی بارشوں کے باعث مختلف شہروں میں اربن فلڈنگ کے خدشات بھی ہیں۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ ہر سال حکومتی دعوئوں کے باوجود اقدامات نہیں کیے جاتے۔ حالیہ بارشوں سے سب سے زیادہ صوبہ بلوچستان متاثر ہو رہا ہے جہاں سیلاب کی تباہ کاریوں کا تسلسل جاری ہے۔ سیلاب کی تباہ کاریوں اور بارشوں سے بچائو کی ذمہ داری پی ڈی ایم اے کی ہی ذمہ داری ہے مگر اس کی غفلت اور نااہلی سیلاب کی تباہ کاریاں اس کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ بلوچستان پہلے ہی محرومیوں کا شکار ہے، ہر حکومت کی جانب سے اس کی محرومیوں کے ازالے کے دعوے تو کیے جاتے ہیں مگر عملی طور پر اس کی ترقی کے لیے کچھ ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ تین روز پہلے وزیراعظم محمد شہبازشریف نے بلوچستان میں حالیہ سیلاب کی تباہ کاریوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اعتراف کیا ہے کہ پاکستان کی ترقی بلوچستان کی ترقی سے جڑی ہوئی ہے تو حکومت کے لیے یہی موقع ہے کہ وہ سیلاب کی تباہ کاریوں کا ازالہ کرے اور متاثرینِ سیلاب کی بحالی میں کوئی کسر نہ چھوڑے اور بلوچ عوام کو مطمئن کرنے کے لیے اس صوبے کی ترقی کے ٹھوس منصوبے شروع کیے جائیں تاکہ بلوچ عوام کو قومی دھارے میں لا کر اس صوبے میں جاری علیحدگی پسند تحریک کی سرپرستی کرنے والے بھارت کی سازشوں کا مؤثر توڑ کیا جا سکے۔