خواب آزادی کب شرمندہ ٔ تعبیرہوگا؟
کشمیری عوام پچھلے ساڑھے سات دہائیوں سے سے بھارتی بربریت اور ظلم کے سامنے سینہ سپر ہیں۔ ارض جنت پرجابرانہ قبضے کیخلاف کشمیریوں کی جدوجہد 75 سال سے جاری ہے لیکن 1989ء سے جب مقبوضہ کشمیر میں مسلح تحریک برپا ہوئی تو ہندو سامراج کو یقین ہوگیا کہ وہ کشمیر پر غیر قانونی قبضے کو زیادہ دیر جاری نہیں رکھ سکے گا۔ اس تحریک کے دوران اگرچہ کشمیریوں نے ایک لاکھ سے زائد جگر گوشے کھوئے اور روزانہ کی بنیاد پر شہادتوں اور عصمتوں کی بے حرمتی کے باوجود وہ قابض قوت کے سامنے ڈٹے رہے۔
آزادی کی تحریک کو کمزور یا ختم کرنے کیلئے بھارت نے کشمیریوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے، نت نئے ہتھکنڈے آزمائے اور قتل عام کے ساتھ ساتھ کشمیریوں کو مالی اور اعصابی طور پر کمزور کرنے کی کوششیں کیں جو سب بے کار ثابت ہوئیں۔ تحریک کے دوران ایسے موڑ بھی آئے کہ جب مقبوضہ وادی میں بھارت کی رٹ مکمل ناکام ہوئی اور ایسے موقعوں پر کشمیرکو بھارت کے چنگل سے جلد آزاد ہونے کی امید جاگ گئی۔ کبھی کبھار ایسی صورتحال بھی سامنے آئی بھارت مقبوضہ علاقے پراپنی رٹ بحال کرنے کامیاب ہوا اور شاید تحریک ختم ہوگئی مگر پھر اچانک کہیں سے برہان وانی جیسے جوان اٹھ کھڑے ہوئے جنہوں نے بھارتی ایوانوں میں لرزا طاری کیا۔ مجموعی طور پر اس طویل تحریک میں کئی نشیب و فراز آئے لیکن کشمیریوں کے حوصلے پست نہیں ہوئے۔
جب بھارت نے نئے حربے آزماتے تھک گیا تو 5 اگست 2019ء کو بھارت میں برسر اقتدار ہندو انتہا پسند جماعت بی جے پی کی حکومت نے ایسا قدم اٹھایا جس کی کشمیریوں کے ساتھ ساتھ خود ہندوستانیوں کو بھی توقع نہ تھی۔ پانچ اگست 2019ء کو مودی سرکار نے متنازع علاقہ کشمیر کو مکمل طورپر ہڑپ کرنے کے ریاست کی خصوصی حیثیت سے متعلق آرٹیکل 35 اے اور 370 کو معطل کردیا۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں مطابق بھارت کے زیر قبضہ مقبوضہ کشمیر متنازع علاقہ ہے۔ عالمی برادری کشمیر کی متنازع حیثیت کو تسلیم کرتی ہے لیکن آرٹیکل 35 اے اور 370 کے تحت بھارتی آئین میں بھی کشمیرکی متنازع حیثیت برقرار تھی۔ان آرٹیکلز کی بنیاد پر ہی کشمیر کا خصوصی قانون تھا۔ ریاست کا اپنا پرچم تھا۔ بھارتی شہری کشمیر میں جائیداد نہیں خرید سکتے تھے۔ لیکن آئین پر شب خون مار کر ہندو انتہا پسند جماعت نے کشمیر سے خصوصی حیثیت چھین لی۔ متنازع ریاست کو دو حصوں (یونین ٹیریٹری آف کشمیر اور یونین ٹیریٹری آف لداخ) میں تقسیم کر دیا اور اس کا کنٹرول بھارت کے وفاق یعنی نئی دہلی کو دے دیا گیا۔
اس جبراً ریاستی اجارہ داری پر کشمیریوں کے ردعمل سے بچنے کیلئے مودی سرکار نے نہتے کشمیریوں اور کشمیری قیادت کو نظربند کیا۔۔ چھ ماہ تک وادی کشمیر کے طول و عرض میں کرفیو نافذ کیا۔ حریت قیادت کے ساتھ ساتھ ہندو نواز کشمیری سیاستدانوں کو بھی گھروں میں نظر بند کیا گیا۔ بھارت کشمیریوں کی زبان بندی کرکے ہندوستان اپنے گھناونے اقدامات کو چھپانا چاہتا تھا لیکن ڈیجیٹل دور میں ایسا کہاں ممکن ہے۔
کشمیر تقسیم برصغیر کا ادھورا ایجنڈا ہے اسکی تصدیق یواین میں موجود کشمیر سے متعلق کئی قراردادیں کرتی ہیں۔ انہی قراردادوں کی وجہ سے بھارت ستر سال سے کشمیر کی خصوصی حیثیت کو چھیڑ نہیں رہا تھا لیکن جب سے بھارت میں مودی کی سربراہی میں بھارتی جنتا پارٹی اقتدار میں آئی تو فاشسٹ نریندرا مودی نے اکھنڈ بھارت کا نعرہ لگاکر عالمی قوانین کو پس پشت ڈال دیا۔ مودی چونکہ کٹر ہندو انتہا پسند ہیاور بی جے پی کی مدر آگنائزیشن آر ایس ایس کے نظریات رکھتا ہے۔اقتدار میں آکر اس نے گجرات ماڈل کو کشمیر میں نافذ کیا اورمسلم علاقے کو مکمل ہڑپ کرتے ہوئے اسے دو حصوں میں تقسیم بھی کردیا۔ بعد میں کشمیر میں مسلم آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کیلئے ہندووں کو کشمیریوں میں بسانے کا قانون بنایا جس کے تحت اب تک تین لاکھ سے زائد ہندوستانیوں کو کشمیرکی شہریت دی جاچکی ہے۔ بھارتی حکومت نے یہاں کی زمین ہڑپ کرنے کیلئے سینکڑوں کالونیاں بنائیں جن میں طویل عرصے تک کشمیر میں ڈیوٹی دینے والے فوجیوں کو بسایا جارہا ہے۔ ایسا وہ فلسطین میں جاری صیہونی ماڈل کو سامنے رکھتے ہوئے کررہی ہے۔
پانچ اگست کو مودی سرکار نے صرف کشمیریوں کا استحصال نہیں کیا بلکہ بھارت میں آباد مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کیلئے بھی خطرے کی گھنٹی بجادی۔ اس اقدام سے بی جے پی نے اقلیتوں کو یہ پیغام دیا کہ اب بھارت میں رہنا ہے تو ہندو بن جانا پڑے گا یا پھر موت کو گلے لگانے کیلئے تیار ہوجاو۔پچھلے چار پانچ سال سے بھارت میں اقلیتوں پر جو ظلم ہورہا ہیاس کا اندازہ مغربی ریاست منی پور میں پیش آنیوالے شرمناک واقعات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔جہاں سینکڑوں عیسائیوں دن دیہاڑے فوج اور پولیس کی سرپرستی میں قتل کیا گیا۔ خواتین کو برہنہ کرکے پریڈ کرائی گئی۔ ماوں کی بچوں کے سامنے اجتماعی زیادتی کی گئی۔ بہنوں کو بھائیوں کے سامنے بے آبرو کیا گیا۔ نوجواں کے سر لہرائے گئے۔ اور یہ ایک دن میں نہیں ہوا۔ مئی سے یہ واقعات مسلسل سامنے آرہے ہیں۔ اسی صورتحال سے پریشان دیگرانڈین سیاسی جماعتوں نے مودی کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے کا فیصلہ کیا۔ یاد رہے بھارت میں ایسا پہلی بار ہورہا ہے۔ مودی سرکار کی وجہ سے سکھ بھی پریشان اور نچلی ذات سے تعلق ر کھنے والے دلت بھی۔
اب جبکہ بھارت کشمیر پر اپنی اجارہ داری تھوپ چکا ہے اور کشمیریوں کا استحصال کرچکا ہے، ایسے میں حکومت پاکستان نے آج تک کیا اقدامات کیے۔ کون سا بیانیہ بنایا ، خارجہ محاذ پر کیا پیش رفت ہوئی۔ جمع ضرب کرکے اس کا کل نتیجہ صفر نکلتا ہے۔یوم استحصال کی مناسبت سے ہمدردانہ نغمہ جاری کرنا یا کشمیر ہائی وے کا نام تبدیل کرکے اسے سری نگر ہائی وے کا نام دینا کافی نہیں۔ کیا بھارت ان اقدامات کی وجہ سے اپنی ہٹ دھرمی چھوڑ دیگا؟ کیا بھارت کشمیر کی خصوصی حیثیت بحال کردیگا ؟کیا کشمیر یوں کو آزادی رائے کا حق دیا جائیگا؟
کشمیر اور کشمیریوں کی آزادی کیلئے بیان بازی اور جلسے جلوسوں نعروں اور ہمدردی کے بجائے پاکستان کو نتیجہ خیز فیصلہ کرنا ہوگا جو کشمیریوں اور پاکستانیوں کی امنگوں کیمطابق ہو، کیونکہ اب ہمارے پاس قائداعظم موجود نہیں ہیں جنہوں نے اپنی فکر و فلسفے اور قلم سے دنیا کا نقشہ تبدیل کیا۔ کشمیریوں کی امیدیں پاکستان سے وابستہ ہیں، ایسے میں ان کی امیدوں پر پورا اترنے کیلئے پاکستان کو جامع اور فیصلہ کن حکمت عملی مرتب کرنا ہوگی تاکہ وہ خواب آزادی جس کی خواہش کئی نسلوں سے کشمیری دیکھ رہے ہیں وہ شرمندہ تعبیر ہو سکے۔