• news

بھارت کی اصل تصویر

آج کل یہ بحث بہت زوروں پر ہے کہ بھارت دنیا کی بڑی معاشی طاقت بن رہا ہے۔ اس کی حقیقت چند سال گزرنے کے بعد وقت بتادے گا۔ برطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق، مودی کے عہدہ سنبھالنے کے وقت بھارت کی مجموعی ملکی پیداوار سات سے آٹھ فیصد تھی جو 2019ء اور 2020ء کی آخری سہ ماہی میں گر کر تین اعشاریہ ایک فیصد تک جاپہنچی۔ بھارتی شرح نمو سست روی کا شکار ہے، بیروزگاری اور افراطِ زر میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی جب سے اقتدار میں آئے ہیں وہ معیشت کے حوالے سے بڑے بڑے دعوے کیے جاتے ہیں۔ لیکن بھارت میں غربت بہت بڑھ چکی ہے ۔ بھارت ایک طرف سائنسی میدان میں ترقی کررہا ہے تو ساتھ ہی وہاں کروڑوں لوگوں کے پاس سر چھپانے کے لیے گھر نہیں ہیں۔ بھارتی حکومت اپنے عوام کی اصل تصویر دنیا کو نہیں دکھا رہی بلکہ سرمایہ کاری کے لیے جھوٹ پہ جھوٹ بولے جارہے ہیں۔
اصل نقطہ ہی یہ ہے کہ بھارت میں آج جھوٹ، نفرت،ظلم اور متشدد سوچ رکھنے والوں کی حکومت ہے۔ خواتین اور بچوں پر جنسی حملوں میں اضافہ ہورہا ہے۔ مذہبی تعصب، تشدداور انتہا پسندی کے رویوں کے بعد یہ کہا جاسکتا ہے کہ مودی سرکار کے دور میں اقلیتوں سے زیادہ گائے محفوظ ہے جس کے تحفظ کے نام پر انتہا پسند ہندو مسلمانوں، نچلی ذات کے ہندوؤں اور دیگر اقلیتوں کو ہجوم بناکر جے شری رام کا نعرہ لگانے پر مجبور کرتے ہیں اور پھر تشدد کا نشانہ بناکر جان سے ماردیتے ہیں۔ بھارت کے نامور مسلم اداکار نصیر الدین شاہ نے مودی حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ایک منصوبے کے تحت مسلمانوں کو پسماندہ اور بے کار بنایا جا رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر مسلمانوں کو کچلا جائے گا تو وہ لڑیں گے، مسلمان اپنی بساط کے مطابق اپنے گھر، خاندان اور بچوں کا دفاع کر یں گے۔ مسلمانوں کے خلاف اسی طرح مہم چلتی رہی تو بھارت میں شدید خانہ جنگی ہوسکتی ہے۔
مقبوضہ کشمیر کو دنیا کی سب سے بڑی جیل تسلیم کیا جاتا ہے جہاں پچھلے آٹھ عشروں بھارتی حکومت فوج اور پولیس کی زریعے بدترین تشدد سے کشمیریوں کی آواز بانے کی کوشش کررہی ہے۔ کبھی سرچ آپریشن کے نام پر کشمیری جوانوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے، کبھی جعلی مقابلوں میں شہید کیا جارہا ہے۔ایک طرف بھارت خلا میں سیارے بھیج رہا ہے تو دوسری جانب وہاں زمین پر انسانوں کے لیے زندگی مشکل ہو چکی ہے۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق، بھارت ایک ایسی انتہاپسند ہندوریاست بن چکا ہے جہاں اقلیتیں تعصب، تشدد اور جبر کا سامنا کررہی ہے۔ 2024ء بھارت میں انتخابات کا سال ہے لیکن وزیراعظم نریندرمودی کی کارکردگی دن بدن مایوس کن ہوتی جارہی ہے۔ ساری اپوزیشن ان کے خلاف محاذ بنا چکی ہے اور اپنا اقتدار بچانے کے لیے مودی سرکار کے پاس ایک ہی حل ہے کہ اقلیتوں خاص طور پر مسلمانوں کے خلاف ہندو انتہا پسندوں کو استعمال کیا جائے۔
ورلڈ ہنَگر انڈیکس کے مطابق، بھارت میں غربت کی سطح خطرناک ہے اور وہ اپنے پڑوسی ممالک نیپال، بنگلا دیش اور پاکستان سے بھی کافی نیچے آ چکا ہے۔ بھارت کے قانون کے مطابق، ریاست کا کوئی مذہب نہیں ہوگا اور ریاست تمام مذاہب کے ساتھ یکساں اور رواداری کا سلوک کرے گی لیکن حقیقت میں وہاں بسنے والی اقلیتوں کے لیے زمین تنگ کی جارہی ہے اور انھیں مجبور کیا جارہاہے کہ وہ اپنے مذہب کو چھوڑ کر ہندو مذہب اپنالیں۔ کچھ ہفتے پہلے ایک سینئر بھارتی ٹی وی اینکر اپنے پروگرام میں بتا رہا تھا کہ یوپی اورآسام کے وزرائے اعلیٰ میں مسلمانوں کے خلاف قانون سازی کا مقابلہ چل رہا ہے۔ گزشتہ پانچ چھ سال میں پولیس اور حکومتی سرپرستی میں عیسائیوں پر ظلم و ستم میں نمایاں اضافہ ہو رہا ہے۔ مذہبی آزادی کمیشن کی رپورٹ کے مطابق، کرناٹک، اتر پردیش ، چھتیس گڑھ ، جھارکھنڈ، آسام اور مدھیہ پردیش میں ہندو غنڈے عیسائیوں پر کھلے عام حملے کررہے ہیں۔
منی پور میں ہندوؤں کی طرف سے کئی گرجا گھر جلانے اور ہزاروں عیسائیوں کے گھر چھوڑنے کی خبر ابھی کچھ ہفتے پہلے کی ہے۔ کئی علاقوں میں موت کے خوف سے عیسائیوں نے خود کو ہندو بتانا شروع کر دیا ہے۔ مودی سرکار کی سرپرستی میں ہندو انتہاپسندوں کی طرف سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں اب صرف مقبوضہ کشمیر تک محدود نہیں ہیں بلکہ اس وقت پورا بھارت ہی مذہبی لسانی تعصبات کا شکار ہے۔ بھارتی ریاست منی پور میں انتہا پسند ہندوؤں نے پولیس  کی موجودگی میں منی پور میں کوکی قبیلے کی 2 خواتین کو برہنہ کر کے سرعام پریڈ کروائی، انھیں زیادتی کا نشانہ بنایا اور پھر کوکی قبیلے کے 2 خاندانوں کو زندہ جلا دیا۔ کچھ ماہ پہلے پولیس کی حراست میں دو سابق ایم ایل ایز مسلم بھائیوں کو سر عام شہید کردیا گیا تھا۔ ایسا لگتا ہے بھارت میں مسلمانوں، عیسائیوں، سکھوں اور دلتوں پر زندگی کے دروازے بند کیے جارہے ہیں۔ بڑھتی ہوئی ریاستی دہشت گردی اور اقلیتوں پر جاری یہ غیر منصفانہ رویہ اکھنڈ بھارت کو کئی ٹکڑوں میں بانٹنے کا سفر تیز کررہا ہے۔ یہ صاف نظر آتا ہے کہ بھارتی حکومت نے زیادہ تر میڈیا چینلز کو اپنی مٹھی میں کیا ہوا ہے۔ ٹی وی شوز میں اینکر ز حکمران جماعت کے سیاسی بیانیہ کو تقویت دیتے نظر آتے ہیں جبکہ مخالف سیاسی جماعتوں اور خاص کر مسلمان تجزیہ نگاروں کو نیچا دکھانے کے کوشش کی جاتی ہے۔ دوران گفتگو مسلمان رہنماؤں کی بات کاٹ دی جاتی ہے۔ اینکر طنزیہ انداز میں ان سے مخاطب ہوتے ہیں۔
٭…٭…٭

ای پیپر-دی نیشن