بنگلہ دیش اور پاکستان
ممتاز بیورو کریٹ الطاف گوہر نے لکھا کہ میری مشرقی پاکستان میں تعیناتی کے دوران ایک لفظ بار بار سننے میں آیا ، وہ لفظ تھا ’بھات‘۔ نفس مضمون سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس لفظ کا مطلب یا ’روٹی‘ ہوگی یا پھر’ بھوک‘ بھوک ہمیشہ ہی مشرقی پاکستان کا مسئلہ رہا۔ مشرقی پاکستان کا کہیں لکھا پڑھا ایک اور واقعہ یاد آرہا ہے۔ ڈھاکہ شہر میں ایک مچھلی فروش تھا۔ اس کی دکان میں ایک بڑے سے تھال پر چھوٹی بڑی مچھلیوں کا انبار لگا رہتا۔ اس تھال سے نیچے ایک اور تھال پڑا ہوا تھا جو مچھلیوں والے تھال سے چھوٹا تھا۔ دوسرے تھال سے نیچے فرش زمین پر ایک کھلے منہ والا کنستر پڑا رہتا۔ دکاندار تھوڑی تھوڑی دیر بعد مچھلیوں پر پانی کا چھڑکائو کرتا رہتا۔ جو مچھلیوں کو بھگونے کے بعد دوسرے تھال میں بہہ نکلتا۔ یہاں سے مچھلیوں کی آلائشوں سے آلودہ میلا کچیلا پانی نیچے پڑے کنستر میں گرتا رہتا۔ ایک آدھ گھنٹے میں کنستر بھر جاتا۔ کنستر بھرے جانے کے منتظر گاہک پاس ہی کھڑے ہوتے جو اسے جھٹ ایک دوّنی میں خرید لیتے۔ یہ متحدہ پاکستان کے زمانے کا قصہ ہے جب پاکستانی کرنسی کی حرمت ابھی قائم تھی۔ پوچھنے پر پتہ چلا کہ اس پانی میں چاول پکائے جاتے ہیں۔ اس طرح چاولوں میں مچھلی کی بو باس پیدا ہوجاتی ہے۔
بہادر یار جنگ تحریک پاکستان کے انتھک ، نڈر سپاہی تھے۔وہ ایک بے مثال خطیب تھے۔ ان کی سیاسی بصیرت کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے جس خطرے کی علی الاعلان نشاندہی کی وہ درست ثابت ہوئی۔ 1930ء کو تل ابیب کی نئی بستی کو دیکھا تو خواجہ حسن نظامی سے بولے ’یہودیوں کو اب فلسطین سے نکالنا اتنا آسان بھی نہیں رہاجتنا عربوں نے سمجھ رکھا ہے ‘۔ انہوں نے مسلم لیگ کیلئے دن رات کام کیالیکن بیشتر مسلم لیگی عہدیداروں کے بارے ان کی رائے اچھی نہیں تھی۔ وہ اپنی رائے چھپانے کے عادی نہیں تھے۔ ایک مرتبہ حضرت قائد اعظم کے سامنے انہوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ’ پاکستان حاصل کرنا اتنا مشکل نہیں جتنا پاکستان کو پاکستان بنانا مشکل ہوگا‘۔ صدر ایوب کی مارشل لاء اور مادر ملت کی الیکشن میں شکست کے اعلان سے بنگالی بہت بد دل ہوئے۔ انہیں اب متحدہ پاکستان میں رہ کر پاکستان کو پاکستان بنانا ناممکن نظر آیاتو وہ پاکستان کو پاکستان بنانے کیلئے ہم سے الگ ہو گئے۔ ہم اپنے مشرقی پاکستانی بھائیوں کی علیحدگی پر سوگ بھی مناتے ہیں مگر ان کے حکمرانوں پر رشک بھی کرتے ہیں۔
پچھلے دنوں وزیر اعظم بنگلہ دیش حسینہ معین کی ایک تصویر وائرل ہوئی ہے۔ تصویر دیکھ کر ہمارے حکمرانوں کو شرم سے ڈوب مرنا چاہئے۔ تصویر میں وزیر اعظم بنگلہ دیشن حسینہ معین کے کمرہ میں ایک پیڈسٹل فین چل رہا ہے اور ایک کرسی پر وزیر اعظم تشریف فرما ہیں۔ اس ایک تصویر سے ہی ان کے انداز حکمرانی کا پتہ چل جاتا ہے۔ یہ وہی حسینہ معین ہیں جنہوں نے چند برس پہلے گرمیوں میں سرکاری دفاتر میں ٹھنڈا سوٹ (کوٹ پینٹ) پہننے پر پابندی لگا دی تھی۔ اب بنگلہ دیش کی بھوک بڑی حد تک مٹ چکی ہے۔ انکے غیر معمولی فارن ایکسچینج کے ذخائر دیکھ کر خوشی بھی ہوتی ہے اور رشک بھی آتا ہے۔ متحدہ پاکستان میں ان کی آبادی مغربی پاکستان سے زیادہ تھی۔ اب انہوں نے آبادی پر بھی کنٹرول کر لیا ہے۔ اس سلسلہ میں انہیں شریعت بھی آڑے نہیں آئی۔ انکے پڑھے لکھے ملا مولوی آبادی کنٹرول کرنے میں اپنی سرکار سے پورا تعاون کر رہے ہیں۔ مذہبی دہشت گردی کا بھی ادھر دور دور تک کوئی نشان نہیں۔ ادھر ہماری وہی بے ڈھنگی چال جو اب تک تھی وہ اب بھی ہے۔ پنجاب میں زرعی اراضی کا ٹھیکہ ایک لاکھ روپے فی ایکڑ تک پہنچ چکا ہے۔ لیکن الیکٹیبلز کی مجبوری کے باعث وزیر اعظم شہباز شریف کو اعلان کرنا پڑا ہے کہ زرعی ٹیکس نہیں لگایا جا رہا۔ تاجر صرف ٹیکس دینے سے انکاری ہی نہیں ، وہ ایک بجلی کی لوڈ شیڈنگ میں مبتلا ملک میں دن کی روشنی میں دکانداری کرنے کو بھی تیار نہیں۔ پچھلے دنوں سروسز ہسپتال لاہور میں پٹرول ختم ، جنریٹر بند اور مریضوں کا حبس اور گرمی سے برا حال ہو گیا۔ آپریشن رک گئے۔ آخری خبریں آنے تک یہی صورتحال جاری ہے۔ لیکن ادھار پر چلنے والی ہماری قومی معشیت ابھی تک مانگے تانگے اور اثاثے بیچ کر چلی جا رہی ہے۔ انور مسعود کے ایک شعر میں ہماری پوری داستان موجود ہے :
اللّے تللّے ادھارے ترے
بھلا کون قرضے اتارے ترے
ہماری نوکرشاہی ، ججز ، جاگیردار ، صنعتکار ، تاجر اور حکمران سبھی مزے میں ہیں۔ انہیں عوام کے فاقوں سے کیا واسطہ۔ 2023-24کے بجٹ میں ڈپٹی کمشنروں ، اسسٹنٹ کمشنروں اور ایڈیشنل ڈپٹی کمشنروں کی نئی گاڑیوں کیلئے دو ارب تینتیس کروڑ روپے مختص کر دیئے گئے ہیں۔ آپ پوچھیں گے کہ انکے پاس موجودہ گاڑیوں کا کیا بنے گا ؟ وہ تحصیلداروں اور نائب تحصیلداروں کو بخش دی جائیں گی۔بڑے افسر جانتے ہیں کہ ان کے اضلاعی دوروں کاسارا بندوبست اسی محکمہ مال نے کرنا ہوتا ہے۔ پچھلے دنوں اقوام متحدہ میں ’’غریب ممالک میں پائیدار ترقی کے اہداف اور مقاصد ‘‘کے سلسلہ میں ایک سیمینار منعقد ہوا۔ امیر کبیر ممالک کے وفد ایک دو اراکین پر مشتمل تھے جبکہ پاکستان سے 25رکنی وفد بھیجا گیا۔ ان میں سے 9چہیتے سرکاری افسر شامل تھے۔اللہ جانے انکے محکمے کونسے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ ایک سینیٹر کے ہی وفد میں 6عزیز شامل کئے گئے۔ ادھر ہمارے عوام الناس بیچارے اول تو انہیں قبر کی جگہ میسر نہیں ، جگہ مل جائے تو کفن ندارد۔ تجمل کلیم کا پنجابی شعر سنیئے‘ اس میں قطعاً کوئی مبالغہ نہیں:
لٹھے دی تھاں پاٹے لیڑے
چور قبر نوں پْٹ کے رویا