• news

مقبوضہ کشمیر:ایک مجاہد کے مشاہدات

 یہ 1965ء کی بات ہے کہ میری پوسٹنگ پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول ہوگئی۔ ایک دن ہم ٹی روم میں بیٹھے گپ لگا رہے تھے۔ ہم میں چند وہ آفیسر بھی تھے جنھوں نے 1965ء کی جنگ میں حصہ لیا تھا۔ وہ سب اپنے اپنے تجربات بتا رہے تھے۔ ماحول فری گپ کا تھا۔
 اتنی دیر میں ایک سویلین صاحب تشریف لائے جن کا تعارف عبدالعزیز کے نام سے ہوا۔ یہ صاحب آزاد کشمیر کے رہائشی تھے ۔ ان کا بھائی ہمارا کولیگ تھا۔ انھیں ملنے آئے تھے۔ مزید تعارف سے یہ پتا چلاکہ یہ صاحب کافی عرصہ مجاہدین کا حصہ بھی رہے ہیں اور بطور کشمیری مجاہد مقبوضہ کشمیر بھی جا چکے ہیں۔ اب ہم سب نے ان سے درخواست کی کہ وہ ہمیں وہاں کے حالات سنائے۔
عزیز صاحب کھلے ڈلے آدمی تھے۔ مزاح ان کی فطرت میں تھا۔ کہنے لگے، تفصیل تو میں آپ کو سناتا ہوںلیکن آپ فوجی ہیں۔ آپ میں کوئی انٹیلی جنس والے بھی ہوں گے۔ یہ نہ ہو کہ میں پکڑا جاؤں کہ میں جاسوس ہوں۔
 مجھے مولویوں اور فوجیوں سے بہت ڈر لگتا ہے ان لوگوںکا کیا اعتبار یہ لوگ بات کو کوئی بھی رنگ دے سکتے ہیں۔ یہ بادشاہ لوگ ہوتے ہیں۔ بہرحال ہم نے اسے یقین دلایاکہ ہم شریف فوجی ہیں۔ آپ کے ساتھ ایسا کچھ نہیں ہوگا۔ بات مذاقاً کہی گئی تھی اور مذاقاً ہی ختم ہوگئی۔ بہرحال عزیز صاحب نے ہمیں مندرجہ ذیل قصہ سنایاجو انھی کے الفاظ میں بیان کیا جا رہا ہے۔
1962ء میں میں بی اے میں پڑھتا تھا۔ کالج میں ایک مجاہدین پسند گروپ تھاجو بڑی پُر جوش تقریریں کرتے تھے۔ ان کی باتوں سے متاثر ہو کرمیں نے بھی یہ گروپ جوائن کرلیا۔ گرمیوں کی چھٹیوں میں وہ مجھے ایک غیر مانوس علاقے میں لے گئے جہاں اور بھی کچھ جوان موجود تھے۔ 
میرا تعارف کمانڈر سے کرایا گیاجو شایدایک ریٹائرڈ فوجی تھے۔ بتایا گیا کہ آپ کی چنددنوں کی ٹریننگ ہوگی۔ ٹریننگ میں ہمیں اسلحہ اور ہتھیار استعمال کرنا، پلیں اڑانا، دشمن سے بچنا وغیرہ کی تربیت دی گئی۔ بی اے کے بعد میں نے کالج چھوڑ دیا اور لاہور ایک فیکٹری میں ملازمت اختیار کر لی۔ 
بہرحال میرا نام مجاہدین لسٹ میں موجود رہا۔ جوانی کا جوش تھا۔ کچھ کرنے کا جذبہ تھا، لہٰذا میں ہر سال ٹریننگ کے لیے جاتا رہا۔ وہاں بہت سے لوگوں سے واقفیت ہوئی۔ سب پُر جوش اور وطن کی آزادی کے جذبے سے سرشار تھے۔ ان سے مل کر ایسے معلوم ہوتا تھا کہ ابھی ہم مقبوضہ کشمیر فتح کر لیں گے۔ وقت گزرتا رہا اور ہم بارڈر پار جانے کے لیے منتظر رہے۔
جون 1965ء میں ایک دن مجھے فون آیا کہ چھٹی لے کر فوری طور پر فلاں جگہ پہنچو، لہٰذا میں پہنچ گیا۔ وہاں میرے چند دوست پہلے سے ہی موجود تھے۔ کمانڈر نے ایک پُرجوش تقریر کی اور ہمیں بتایا کہ وطن کی آزادی کا وقت آگیاہے۔ آپ کو ہم بارڈر پار مقبوضہ کشمیر بھیج رہے ہیں۔ 
یہ سن کر ہم خوشی سے ناچنے لگے۔ ہم نے کشمیر زندہ باد کے نعرے لگانا شروع کر دیے۔ جب ہمارا جوش ذرا کم ہواتو ہمیں تین دنوں کی مہلت دی گئی کہ گھر والوں سے مل لیں اور تیاری کر کہ فلاں جگہ آجائیں، لہٰذا ہم آزادی کے جوش میں وقتِ مقررہ سے پہلے پہنچ گئے۔ ایسے محسوس ہوتا تھا کہ دنیا کہ سب سے بڑے کمانڈوزاور آزادی کے متوالے ہم ہی ہیں۔
 بہرحال زمین پر ایک نقشہ بنایا ہوا تھا۔ اس پر ہمیں بریفنگ دی گئی پھر ہمیں مقبوضہ کشمیر میں اپنے اپنے علاقے الاٹ کیے گئے۔ ہمیں وہاں کی کرنسی اور ہتھیار وغیرہ دیے گئے۔
 اسی رات دو بجے ہمیں بارڈر کراس کرادیا گیا۔ سرحد پر بھارتی فوج موجود تھی۔ لیکن رات کے دو بجے وہ بھی کوئی زیادہ الرٹ نہ تھے۔ ہم لوگ چھپتے چھپاتے سرحد پار کر گئے۔ ایک دوسرے کو خدا حافظ کہا۔ رات کی تاریکی میں اپنے اپنے علاقوںکی طرف چل دیے۔ دوسرے دن میں وہاں چھپا رہاتاکہ وہاں کے حالات کا جائزہ لے سکوں۔ تیسرے دن میں گونگابن کر باہر نکلا۔ ایک گاؤں کا چکر لگایا۔ پھر گاؤں کے بازار چلا گیا۔
 پہلی چیز جو میں نے محسوس کی کہ زیادہ ترنوجوانوں کالباس ہم سے مختلف تھا۔ شلوار کی بجائے بھارتیوں کی طرح پاجاموں میںتھے۔ زبان میں بھی لکھنوی انداز زیادہ تھا۔ زیادہ تر عورتیں بھی شلواروںکی بجائے ساڑھیوںمیں تھیں۔
یعنی جو کچھ ہمیںیہاں بتایا گیا تھا زمینی حقائق اس سے یکسر مختلف تھے۔ مقبوضہ کشمیر میں اس وقت بھارت کی 5 ڈویژن مضبوط فوج اور تقریباً 2 ڈویژن بہت تربیت یافتہ سکیورٹی فورس موجود تھی۔ ان حالات میں کوئی مسلمان گھرانہ کسی مشکوک آدمی سے بات بھی کرتا تو سکیورٹی والے پکڑ کر لے جاتے، لہٰذا جن لوگوں نے ہماری مدد کرنی تھی وہ ہم سے ملنے کو بھی تیار نہ تھے۔ زبان سے اور علاقے کی اونچ نیچ سے ہم ناواقف تھے۔ ہمارا تلفظ ایسا تھا کہ اگر بات کرتے تو اسی وقت پکڑ لیے جاتے۔ زخمی ہونے کی صورت میں علاج کا بندوبست نہ تھا۔ حسب ضرورت ایمونیشن اور راشن کی سپلائی نہ تھی۔ 
بھارتی فوج شکاری کتوں کی طرح ہماری بُو سونگھتی پھرتی تھی۔ ان حالات میں کوئی کارروائی ممکن ہی نہ تھی۔ بہر حال جو بھی ممکن ہو سکا ہم نے کیا۔ بھلا ہو ایک مسلمان فیملی کا جس نے چھپ کر ہماری مدد کی۔ 
جس دن ہم واپس آرہے تھے تو ایک نوجوان لڑکی نے تقریبا ًچیخ کر کہا،’اگر تم لوگ کچھ نہیں کر سکتے تھے تو یہاں آئے کیوں تھے۔ ہمیں کیوں ذلیل کرایا؟‘ پھر اس نے اپنے چغے کو گلے سے پکڑ کر زور سے کھینچا تو وہ سامنے سے پھٹ گیا۔ ننگی چھاتیوں پر ہاتھ مار کر روتے ہوئے چیخی، ’تم لوگ تو چلے جاؤ گے۔ اب ان چھاتیوں کو ڈوگرے اور سکھ نو چیں گے۔‘ ہم لوگ شرم سے منہ نہ اٹھا سکے۔ 
ہماری آنکھوں میں بھی آنسو آ گئے۔ کاش ہم کچھ کر سکتے۔ یہ جو کچھ بھی ہوا بہت غلط ہوا۔ اس سے ایک تو ہم نے اپنے کشمیر کاز کو نقصان پہنچایا اور دوسرا جو کشمیریوں کی تھوڑی بہت ہمدردیاں ہمارے ساتھ تھیں وہ بھی ختم ہو گئیں۔ 
واقعی ہم لوگوں نے وہاں جا کر زیادتی کی۔ ہم کچھ کرنے کی پوزیشن میں ہی نہ تھے۔ عزیزصاحب نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا، ’خدا کی قسم، میں اس لڑکی کی چیخ و پکار کوکبھی نہیں بھول سکتا!‘ 
٭…٭…٭

سکندر خان بلوچ

سکندر خان بلوچ

ای پیپر-دی نیشن