ملازمہ تشدد: وحشیانہ میڈیا ٹرائل سے بہتر ہے ہمیں ذبح کر دیا جائے: جج عاصم
لاہور+اسلام آباد (این این آئی+اپنے سٹاف رپورٹر سے) چیئرپرسن چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر بیورو سارہ احمد نے تشدد کا شکار گھریلو ملازمہ کے کیس میں چیف جسٹس پاکستان سے سوموٹو نوٹس لینے کی اپیل کرتے ہوئے کہا ہے کہ تشدد کا شکار معصوم بچی رضوانہ کو انصاف کی فراہمی کیلئے اس کیس کو روزانہ کی بنیاد پر سنا جائے۔ انہوں نے تشدد کا شکار گھریلو ملازمہ رضوانہ کے حوالے سے بیان میں بتایا کہ جنرل ہسپتال میں رضوانہ کی طبیعت بدستور تشویشناک ہے۔ چیئرپرسن سارہ احمد نے کہا کہ معصوم گھریلو ملازمہ پر تشدد سے پوری دنیا میں ہمارا امیج خراب ہوا ہے۔ اس ٹیسٹ کیس میں انصاف کے تقاضے پورے ہونے چاہئیں۔ بچی کی صحتیابی کے بعد بہتر تعلیم اور پرورش کیلئے بچی کو چائلڈ پروٹیکشن بیورو میں رکھنے کیلئے والدین کو پیشکش کی ہے۔ تشدد کا شکار بچوں کے بارے میں چائلڈ ہیلپ لائن 1121پر اطلاع دیں۔ رضوانہ پر تشدد کی ملزمہ خاتون کے شوہر سول جج عاصم حفیظ نے کہا ہے کہ ہمارا جس طرح وحشیانہ میڈیا ٹرائل کیا جا رہا ہے، اس سے تو بہتر ہے کہ ہمیں ذبح کردیا جائے۔ سول جج عاصم حفیظ نے رضوانہ کے والدین پر لالچی ہونے کا الزام لگایا اور کہاکہ رضوانہ ہمارے گھر 10 ہزار روپے پر ملازم تھی اور اپنے پیروں پر چل کر والدین کے پاس گئی۔ میڈیا کی وجہ سے ہمارے خاندان کا معاشرے میں چہرہ، ساکھ، ذہنی سکون اور عزت سب کچھ برباد ہوچکا ہے۔ ان کا کہنا تھاکہ سوال یہ ہے کہ اگر وہ اور اہلیہ عدالت سے بے قصور ثابت ہوئے تو ان کی خاندانی ساکھ کو لگے زخموں کا ازالہ کون کرے گا؟ عاصم حفیظ نے اپنی اہلیہ کے نفسیاتی مسائل کا یہ کہہ کر اعتراف کیا کہ وہ سخت مزاج ضرور تھیں، پر ان کی بیوی نے انہیں بتایا ہے کہ کبھی مارپیٹ نہیں کی۔ گھر سے جاتے وقت بچی کی حالت ایسی نہیں تھی جیسی دکھائی گئی ہے۔تھانہ ہمک پولیس نے تشدد کا شکار ہونے والی بچی رضوانہ کے کیس میں درج ایف آئی آر میں جج کی اہلیہ کے خلاف میڈیکل رپورٹ ملنے کے بعد مزید دفعات شامل کر لیں جن میں 506 تعزیرات پاکستان 324ت پ، 342 ت پ،337A1 337Aii، 337Aiii، 337Fi، 337FV، 337Lii، 334 شامل ہیں۔
ملازمہ تشدد