• news
  • image

کیا چینی ایک سو اسی روپے فی کلو تک جائے گی؟؟؟

بنے ہیں اہل ہوس مدعی بھی منصف بھی
کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو
یہ شعر کچھ اس لیے یاد آئے ہیں کہ ملک میں ہر گذرتے دن کے ساتھ اشیاء خوردونوش کے حوالے سے مشکلات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ برسوں سے لکھ رہا ہوں لیکن فوڈ سیکیورٹی اور ملک کی غذائی ضروریات کو پورا کرنے یا اس حوالے سے خودکفیل بنانے کی بات کر رہا ہوں۔ ایسا نہیں ہے کہ ہم یہ کر نہیں سکتے، ایسا بھی نہیں ہے کہ ہم خود کفیل ہو نہیں سکتے۔ مسئلہ یہ ہے کہ فیصلہ کرنے والے ایسے معاملات میں سیاسی مفادات کو عزیز رکھتے ہوئے فیصلے کرتے ہیں۔ کوئی یہ نہیں سوچ رہا کہ اگر ایسے ہی چلتا رہا تو ملک آگے نہیں بڑھے گا۔ یہ وہ حالات نہیں ہیں کہ آنکھیں بند کر کے بیٹھے رہیں اور یہ سوچیں کہ سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ نئی حکومت فلاں فلاں فیصلے کر لے گی۔ یہ بات تو طے ہے کہ ہمارے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ اگر حکمران اور فیصلہ ساز تہیہ کر لیں کہ ہر حال میں ملکی مفاد کو ہی ترجیح دی جائے گی تو کوئی وجہ نہیں کہ پاکستان کے مسائل کم نہ ہوں۔ ہم کس حد تک مفاد پرستی کرتے ہیں یہ سمجھنے کے لیے ٹیکس کے موجودہ نظام کو ہی دیکھ لیا جائے تو ہر غلط فہمی دور ہو جائے گی۔ گذشتہ دنوں سابق وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے آنکھیں کھولنے والا بیان دیا ہے اسی طرح ایف بی آر کے سابق سربراہ شبر زیدی نے بھی حقائق قوم کے سامنے رکھے ہیں۔ حکومتیں ٹیکس اکٹھا کرنے پر زور دینے اور میرٹ پر فیصلہ کرنے کے بجائے آئی ایم ایف سے قرض لینے اور عام آدمی پر بوجھ ڈالنے کو ترجیح دیتی ہیں۔ ایسے وقت میں جب آئی ایم ایف نے صرف تین ارب ڈالر قرض کے لیے ہماری دوڑیں لگوائیں ان حالات میں بھی ہم نے ٹیکس نظام کو بہتر بنانے کے بجائے قرض کے راستے کو ہی ترجیح دی ہے۔ شاید حکمران یہ بھول رہے ہیں کہ ٹیکس اکٹھا نہ کر کے آئی ایم ایف سے قرض لے کر تھوڑے وقت کے لیے کام چلایا جا سکتا ہے لیکن غذائی ضروریات پوری نہ ہوں تو کوئی عالمی ادارہ کام نہیں آئے گا ہی کروڑوں لوگوں کی خوراک کا کوئی بندوبست ہو سکتا ہے۔ اشیاءخوردونوش کی قلت اور مسلسل قیمتوں میں اضافہ تشویشناک ہے۔ 
ملک میں گزشتہ سالوں کی طرح ایک مرتبہ پھر چینی کا بحران شروع ہو گیا ہے۔ اعدادوشمار کے مطابق گزشتہ دو ماہ کے دوران ایک کلو چینی کی قیمت میں 45 روپے کا اضافہ ہوا ہے اور اس کی قیمت 150 روپے فی کلو کی بلند ترین سطح کو چھو رہی ہے۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ ایک اندازے کے مطابق امسال شوگر ملوں نے ملکی ضرورت سے قریب 10لاکھ ٹن چینی ذیادہ پیدا کی ہے۔ وفاقی حکومت نے چینی کی پیداواری لاگت بشمول ٹیکسز اور منافع کے ایک کلو چینی کی قیمت 98روپے مقرر کر کے اس کا باقاعدہ نوٹیفکیشن بھی کیا۔ جس پر محدود مدت کے لیے عمل ہوا اس کے بعد شوگر مل مالکان نے قیمت پر اعتراض کیا اور عدالت سے رجوع کیا۔ عدالت سے حکم امتناعی حاصل کیا جس کے بعد ملک میں چینی کی قیمتوں میں اضافہ شروع ہو گیا۔ ستم بالائے ستم یہ ہے کہ ذائد قیمتوں کے ساتھ چینی مارکیٹ میں کافی حد تک موجود ہے لیکن غریبوں کے لیے یوٹیلیٹی سٹورز پر سبسڈی والی سستی چینی موجود نہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ اس مقصد کیلئے چینی کی بروقت خریداری نہیں کی گئی۔میرا حکومت سے سوال ہے کہ جب گزشتہ سال چینی کا بحران شروع ہوا تو اس وقت حکومت فوری طور پر ایکشن میں آئی اور چینی کی قیمت میں کمی واقع ہوئی تھی اس سال آخر کیا وجہ ہے کہ چینی کی قیمت مسلسل بڑھ رہی ہے لیکن ابھی تک حکومت نے کوئی موثر اقدام نہیں کیے چینی کی ذائد قیمت کے باعث جہاں عام عوام پریشان ہیں وہاں کاروباری اور صنعت کار برادری کی چیخیں نکل گئیں ہیں 19جولائی بروز بدھ کو آل پاکستان کنفیکشنری اینڈ سنیکس مینو فیکچرنگ ایسوسی ایشن اورسویٹس اینڈ بیکرز ایسوسی ایشن پاکستان نے مقامی ہوٹل میں پریس کانفرنس میں چینی کی قیمتوں میں مسلسل اضافے پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے حکومت کو شوگر مافیا کے خلاف موثر اقدام کا مطالبہ کیا۔آل پاکستان کنفیکشنری اینڈ سنیکس مینو فیکچرنگ ایسوسی ایشن پاکستان کے رہنماو¿ں چوہدری محمد ارشد، شیخ محمد طاہر انجم، شیخ خالد محمود،شیخ عدنان،محمد وسیم ،بیکرز ایسوسی ایشن پاکستان کے چیئرمین حاجی ریاض الحسن نے کہا کہ گزشتہ دو ماہ کے دوران چینی کی قیمتوں میں 45 روپے کے اضافے سے کھانے پینے کی مصنوعات بنانے والی انڈسٹری انتہائی تکلیف دہ صورتحال سے دو چار ہے۔کنفیکشنری، سنیکس،جوس اور بیوریج بنانے والی متعدد کمپنیوں کو ایکسپورٹ آرڈرز پورے کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ گزشتہ دو ماہ کے دوران چینی کی قیمت میں پنتالیس روپے فی کلو گرام اضافہ کیا گیا ہے جس کا کوئی جواز نہیں کیونکہ شوگر ملوں کا پروڈکشن سیزن چند ماہ پہلے ختم ہوا ہے۔ شوگر ملوں اور متعلقہ اداروں میں چینی کے وافر ذخائر موجود ہیں لیکن ذخیرہ اندوز اور سٹہ مافیا مل کر چینی کی قیمتوں میں روز بروز اضافہ کر رہے ہیں اور ان پر آہنی ہاتھ ڈالنے والوں نے بھی چپ سادھ لی ہے جس کی وجہ سے عوام پریشان ہیں۔ قومی خزانے میں کروڑوں ڈالر لانے والی فوڈ انڈسٹری کو شدید بحران کاسامنا ہے۔ دو ماہ پہلے کے ایکسپورٹ آرڈرز چینی کی موجودہ قیمتوں کی وجہ سے پورے کرنا ناممکن ہیں۔ فوڈ انڈسٹری بالخصوص جوس، کنفیکشنری اور مٹھائی بنانے والی چھوٹی بڑی صنعتیں روزانہ کی بنیاد پر قیمتیں بڑھا نے پر مجبور ہیں جبکہ لوکل مارکیٹ بڑھتی ہوئی قیمتوں کا بوجھ اٹھانے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ سکولوں کے بچے ایک ٹافی کھانے سے بھی محروم ہو رہے ہیں۔ ایک جانب چھوٹی صنعتیں بند ہونے کی وجہ سے ہزاروں افراد کے بے روزگار ہونے کا خطرہ ہے تو دوسری جانب ملکی زر مبادلہ کے ذخائر میں کمی ہونے کے خدشات ہیں۔ حکومت چینی کی ایکسپورٹ بھی کر رہی ہے اور دوسری جانب لوکل مارکیٹ میں قیمتوں میں ظالمانہ اضافے پر بھی طوطا چشمی کا مظاہرہ کر رہی ہے جو دوہرا طرز عمل ہے۔ صنعتکاروں نے وزیراعظم پاکستان میاں محمد شہباز شریف، وفاقی وزیر صنعت وتجارت، وزیراعلی پنجاب، سیکریٹری انڈسٹری، کین کمشنر پنجاب اور دیگر ذمہ دار اداروں سے مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ دو ماہ کے دوران چینی کی قیمت میں کیا گیا 45روپے فی کلو اضافہ فی الفور واپس لیا جائے،اگر چینی کی قیمت پر کنٹرول نہ کیا گیا تو بہت ساری انڈسٹری بند ہو جائے گی۔ بیروزگاری میں بھی اضافہ ہو گا اور قومی خزانے کو بھی بھاری نقصان کا خدشہ ہے اب یہ خبریں بھی آ رہی ہیں کہ سٹہ باز آئندہ دو ماہ میں چینی کی قیمت ایک سو اسی روپے سے بھی ذائد کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ہماری حکومت سے اپیل ہے کہ صورتحال پر قابو پانے کے لئے موثر اقدام کرے ہمیں سڑکوں پر آنے پر مجبور نہ کرے۔ اس حوالے سے سرکاری حکام کے مطابق مارکیٹ میں چینی کی عدم دستیابی کی وجہ سوائے کارٹلایلئزشن کے کچھ نہیں۔ 
ادھر محکمہ خوراک کے مطابق چینی کی روز افزوں قیمتوں اور اس سلسلہ میں عوام الناس میں بڑھتی ہوئی تشویش کے پیش نظر یہ وضاحت کی جاتی ہے کہ حکومت پاکستان نے اس سال اپریل میں چینی کی فی کلو قیمت تقریبا 98 روپے مقرر کی تھی جو کہ چینی کی پیداواری لاگت کو مد نظر رکھتے ہوئے کی گئی تھی۔ تاہم شوگر ملوں نے عدالت عالیہ لاہور میں رٹ پٹیشن نمبری 28772/2023 دائر کر کے چینی کی قیمت کے تعین کا نوٹیفیکیشن چار مئی کو معطل کروا لیا- حکومت پنجاب اور حکومت پاکستان نے کیس کی بھرپور پیروی کی تاہم مئی کے مہینے سے لے کر ابھی تک سٹے آرڈر چل رہا ہے اور اس کی اگلی تاریخ ستمبر میں مقرر کی گئی ہے۔ اس حکم امتناعی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے شوگر ملوں نے چینی کی قیمت 98روپئے فی کلو سے بڑھا کر قریب ڈیڑھ ہفتہ قبل تقریبا 130 روپے کلو کر دی گئی تھی۔ قیمت کا نوٹیفیکیشن معطل ہونے سے پنجاب سپلائی چین مینجمنٹ آرڈر بھی معطل ہو چکا ہے۔ محکمہ خوراک کے مطابق حکومت پاکستان اور حکومت پنجاب کے قانونی ماہرین اور وکلا اس فیصلے کے خلاف اپیلیں دائر کر چکے ہیں تاہم حکم امتناعی ابھی تک خارج نہیں ہوا جس کی وجہ سے نہ تو حکومت چینی کی قیمت مقرر کر سکتی ہے اور نہ ہی چینی کی سپلائی مطلوبہ مقدار میں یقینی بنا سکتی ہے۔ ان حالات میں کم ازکم شوگر ملوں پر اخلاقی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ناجائز منافع خوری سے اجتناب کریں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اس حکم امتناعی کی آڑ میں معطل شدہ قیمت سے شوگر ملوں نے اب تک عوام سے پندرہ ارب روپئے سے زائد وصول کئے ہیں اور اگر ماہ ستمبر تک حکم امتناعی نافذالعمل رہتا ہے تو خدشہ ہے کہ یہ اضافہ 35 ارب روپئے سے تجاوز کر جائےگا۔ قارئین یہ اعدادو شمار چند روز قبل کی صورتحال کی عکاسی کرتے ہیں۔ اس وقت اوپن مارکیٹ میں ایک کلو چینی کی قیمت ایک سو پچاس روپے کے لگ بھگ پے۔
چینی کے مجموعی ذخائر کے حوالے سے سرکاری تخمینہ کے مطابق یہ وضاحت ضروری ہے کہ پچھلے سال کے بچ جانے والے سٹاک ملا کر اس سال چینی کے کل سٹاک ملکی ضروریات سے وافر تھے۔ تاہم ذخیرہ اندوزوں اور سمگلروں نے کچھ شوگر ملوں کی ملی بھگت سے چینی کی افغانستان سمگلنگ کی اور اس طرح ملکی معیشت کو نقصان پہنچایا اور قیمتی زر مبادلہ سے محروم کیا۔ حالات کی سنگینی کو سامنے رکھتے ہوئے میں حکومت کو یہی تجویز دوں گا کہ چینی کی قیمت کو کنٹرول کرنے کے لئے موثر اقدام کرے ورنہ مہنگائی کے ستائے عوام صنعت کار اور مزدور سڑکوں پر نکلنے پر مجبور ہو جائیں گے۔
آخر میں عدیم ہاشمی کا کلام
تیرے لیے چلے تھے ہم تیرے لیے ٹھہر گئے
تو نے کہا تو جی اٹھے تو نے کہا تو مر گئے
کٹ ہی گئی جدائی بھی کب یہ ہوا کہ مر گئے
تیرے بھی دن گزر گئے میرے بھی دن گزر گئے
تو بھی کچھ اور اور ہے ہم بھی کچھ اور اور ہیں
جانے وہ تو کدھر گیا جانے وہ ہم کدھر گئے
راہوں میں ہی ملے تھے ہم راہیں نصیب بن گئیں
وہ بھی نہ اپنے گھر گیا ہم بھی نہ اپنے گھر گئے
وقت ہی جدائی کا اتنا طویل ہو گیا
دل میں ترے وصال کے جتنے تھے زخم بھر گئے
ہوتا رہا مقابلہ پانی کا اور پیاس کا
صحرا امڈ امڈ پڑے دریا بپھر بپھر گئے
وہ بھی غبار خواب تھا ہم بھی غبار خواب تھے
وہ بھی کہیں بکھر گیا ہم بھی کہیں بکھر گئے
کوئی کنار آب جو بیٹھا ہوا ہے سرنگوں
کشتی کدھر چلی گئی جانے کدھر بھنور گئے
آج بھی انتظار کا وقت حنوط ہو گیا
ایسا لگا کہ حشر تک سارے ہی پل ٹھہر گئے
بارش وصل وہ ہوئی سارا غبار دھل گیا
وہ بھی نکھر نکھر گیا ہم بھی نکھر نکھر گئے
آب محیط عشق کا بحر عجیب بحر ہے
تیرے تو غرق ہو گئے ڈوبے تو پار کر گئے
اتنے قریب ہو گئے اپنے رقیب ہو گئے
وہ بھی عدیم ڈر گیا ہم بھی عدیم ڈر گئے
اس کے سلوک پر عدیم اپنی حیات و موت ہے
وہ جو ملا تو جی اٹھے وہ نہ ملا تو مر گئے

epaper

ای پیپر-دی نیشن