سویلینز کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل، فل کورٹ کی درخواست پر فیصلہ محفوظ، آج سنایا جائے گا
اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ نے سویلین کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے خلاف کیس کی سماعت کے لیے فل کورٹ کی تشکیل سے متعلق درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کر لیا ہے۔ عدالت عظمی فیصلہ آج سنائے گی۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں چھ رکنی لارجر بینچ نے مقدمہ کی سماعت کی۔ اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ زیر حراست 7 ملزم جی ایچ کیو حملے میں ملوث ہیں، 4 نے آرمی انسٹیٹیوٹ پر حملہ کیا، زیرحراست 28 ملزموں نے کور کمانڈر ہائوس لاہور میں حملہ کیا، ملتان سے 5 اور10 ملزم گوجرانوالہ گریژن حملے میں ملوث ہیں، آئی ایس آئی آفس فیصل آباد پر حملے میں 8 اور5 پی اے ایف بیس میانوالی حملے میں ملوث ہیں، چکدرہ حملے میں 14 ملزمان ملوث ہیں، گرفتاری سی سی ٹی وی کمیرے اور دیگر شواہد کی بنیاد پر کی گئی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارے سامنے فیصل صدیقی کی فل کورٹ کیلئے درخواست ہے، ایک درخواست خواجہ احمد حسین کی بھی ہے، فیصل صدیقی کے آنے تک خواجہ احمد حسین کو سن لیتے ہیں۔ وکیل خواجہ احمد حسین نے عدالت میں کہا کہ جواد ایس خواجہ کی جانب سے کہنا چاہتا ہوں وہ اپنے سابقہ عہدے کا کوئی استعمال نہیں کر رہے۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جواد ایس خواجہ ایک گوشہ نشین آدمی ہیں، ان کا بے حد احترام کرتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جواد ایس خواجہ غیرسیاسی ہیں۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا فیصل صدیقی چھپ گئے ہیں؟۔ اس دوران جسٹس مظاہر نقوی نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ ان 102 افراد کے سوا باقی افراد کو کیوں چھوڑ دیا گیا؟۔ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ فوجی تنصیبات حملوں میں صرف 102 افراد کو ہی گرفتار کیا گیا۔ جسٹس مظاہر نقوی نے ریمارکس دیے کہ پک اینڈ چوز کی اجازت قانون میں نہیں ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ گرفتاریوں میں پک اینڈ چوز نہیں کیا گیا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا 102 گرفتار افراد کے دفاعی تنصیبات پر حملے کے ڈائریکٹ شواہد ہیں؟۔ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ان تمام گرفتار افراد کے خلاف ٹھوس شواہد ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کیا ان 102 افراد کا فوجی ٹرائل کیا جائے گا؟۔ کوئی آزاد ادارہ ہونا چاہیے جو جائزہ لے کہ گرفتاریاں ٹھوس وجوہات پر کی گئیں یا نہیں۔ جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ یہ بھی دیکھنا ضروری ہے کہ کیا سویلینز کو کمانڈنگ افسر کے حوالے کرنے سے پہلے مجسٹریٹ سے اجازت لی گئی یا نہیں۔ جسٹس یحیی آفریدی نے استفسار کیا کہ کیا 102 افراد کی حوالگی کی درخواست مجسٹریٹ سے کی گئی تھی؟۔ جسٹس مظاہر نقوی نے پوچھا کہ کیس چلانے کے لیے شواہد کے طور پر آپ کے پاس صرف تصاویر ہیں؟۔ عدالت میں ان افراد کیخلاف کیا شواہد پیش کیے جائیں گے؟۔ بظاہر لگتا ہے ملزموں کیخلاف مواد کے نام پر صرف فوٹوگراف ہیں۔ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ تمام تر شواہد عدالت کے سامنے پیش کروں گا۔ چیف جسٹس نے کہا ہمارے سامنے یہ معاملہ نہیں ہے۔ اس دوران فیصل صدیقی نے عدالت سے فل کورٹ تشکیل دینے کی استدعا کردی اور کہا کہ پہلے میں واضح کروں گا کہ ہماری درخواست الگ کیوں ہے۔ ہم نے فل کورٹ تشکیل دینے کی تین وجوہات بیان کیں، پرویزمشرف بھی فل کورٹ فیصلے کی مخالفت نہ کرسکے، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس یحیی آفریدی نے بھی فل کورٹ تشکیل دینے کی بات کی۔ فیصل صدیقی نے کہا کہ اٹارنی جنرل بتا چکے ہیں کسی شخص کو سزائے موت یا عمر قید نہیں ہوگی، اٹارنی جنرل یقین دہانی بھی کرا چکے ہیں کہ عدالت کے علم میں لائے بغیر ٹرائل شروع نہیں ہوگا۔ یہ مقدمہ بنیادی حقوق کی وجہ سے بہت اہم ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ فل کورٹ کے لیے یہ پہلی درخواست آئی ہے، ہم باقی درخواست گزاروں کا مؤقف بھی سننا چاہتے ہیں۔ جس کے بعد درخواست گزار اعتزاز احسن روسٹرم پر آئے اور کہا کہ اس مرحلے پر بینچ کی تشکیل کو چیلنج کرنا حیران کن ہے، ہم سپریم کورٹ کی تکریم کے لیے جیلوں میں گئے، عدالت نے تمام دستیاب ججوں کو بینچ میں شامل کیا تھا، دو ججوں کے اٹھ جانے کے بعد یہ ایک طرح کا فل کورٹ بینچ ہی ہے۔ اعتزاز احسن نے کہا کہ 102 افراد کو ملٹری کے بجائے جوڈیشل حراست میں رکھا جائے۔ اعتزاز احسن کے وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ ہم نے بھی فل کورٹ کا کہا تھا مگر 2 ججز بینچ چھوڑ گئے، بینچ کے ایک ایک جج پر اعتراض کیا گیا۔ درخواست گزاروں کے وکیل سلمان اکرم راجہ، سپریم کورٹ بار کے وکیل عابد زبیری، چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل شعیب شاہین نے بھی فل کورٹ کی مخالفت کردی۔ وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ میں اعتزاز احسن کی حمایت کرتا ہوں کیس کا جلد فیصلہ کیا جائے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ممکن ہوا تو پندرہ منٹ میں عدالت فیصلے سے آگاہ کر دے گی، آج مشاورت مکمل نہ ہوسکی تو کل مناسب حکم جاری کریں گے۔