• news
  • image

اسلام آباد میں لبنان جیسے مناظر 

لبنان کی روزمرہّ زندگی پر ان دنوں نازل ہوئی قیامت خیز مشکلات کا اکثر اس کالم میں ذکر ہوتا ہے۔ مقصد اس کا میڈیا کی چسکہ فروشی سے جی بہلانے والوں کو فقط یہ سمجھانا ہے کہ ”دیوالیہ“ کا لفظ ہمارے ہاں بے دردی سے استعمال ہورہا ہے۔موجودہ حکمرانوں سے اندھی نفرت میں مبتلا ہزاروں ”مفکرین“ تو بلکہ اس حد تک سفاک ہوچکے ہیں کہ نہایت سنجیدگی سے اکثر اس سوچ کا اظہار کرتے ہیں کہ ”نظام کہنہ“ سے ہمیشہ کیلئے نجات کے لئے غالباََ ضروری ہے کہ پاکستان ”دیوالیہ“ ہوہی جائے تاکہ ہم پاکستان کے معاشی ڈھانچے نظر بظاہر ”خلق خدا کی بہتری“ کے لئے نئے سرے سے تشکیل دینے کی جانب بڑھ سکیں۔لبنان کے عوام پر ان دنوں نازل ہوئی مشکلات کے مسلسل ذکر سے میں فقط یہ سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں کہ ”دیوالیہ“ نظام کہنہ کاانہدام ہرگز یقینی نہیں بناتا۔ اشرافیہ بیرون ملک خریدی جائیدادوں اور وہاں کے بینکوں میں جمع رقوم کی بدولت اس سے محفوظ رہتی ہے۔ ”خلق خدا“ مگر اس سے نبردآزما ہوتے ہوئے اس قابل ہی نہیں رہتی کہ آج کا دن خیریت سے گزارنے کے علاوہ کچھ اور سوچ سکے۔
لبنان کا متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والا تقریباََ ہر شہری اپنے دن کا آغاز گھر سے نکل کر اے ٹی ایم مشینوں یابینکوں کے باہر لگی قطار میں کھڑے ہونے سے کرتا ہے۔ اپنی باری آنے پر وہ اپنے اکاﺅنٹ میں لاکھوں روپے ہونے کے باوجود ایک مختص حد سے زیادہ رقم نہیں نکال سکتا۔ مطلوبہ رقم مل جانے کے بعد وہ پیٹرول پمپ کے باہر لگی قطار میں کھڑا ہوجاتا ہے۔ اپنی باری آنے پر وہاں سے اسے اپنی گاڑی میں روزمرہّ ضرورت کے علاوہ گھر میں بجلی کو یقینی بنانے والے جنریٹر کے لئے بھی ڈیزل یا پیٹرول خریدنا ہوتا ہے۔ ان دو مراحل سے گزرنے کے بعد وہ کھانے پینے کی اشیاءخریدنے کے لئے دوکانوں کا رُخ کرتا ہے۔یوں دن کے ابتدائی چار سے پانچ گھنٹے وہ معاشی اعتبار سے ”ضائع“ کردیتا ہے۔لبنان کا حوالہ دیتے ہوئے درحقیقت ربّ کریم سے میں یہ فریاد کررہا ہوتا ہوں کہ وہ پاکستان کو ایسے حالات سے محفوظ رکھے۔
منگل کی صبح تاہم لبنان کے حالیہ حالات کی عالمی میڈیا میں جو تصویر کشی ہوتی ہے اس سے ملتے جلتے چند مناظر اسلام آباد میں بھی دیکھنا پڑے۔ مجھے یقین ہے کہ اسلام آباد کے علاوہ پاکستان کے دیگر شہروں میں بھی ایسے ہی منظر رونما ہوئے ہوں گے۔ ہمارے ہاں ہر پندرہ روز گزرجانے کے بعد پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں کا تعین ہوتا ہے۔ اس ضمن میں فیصلے کا اعلان عموماََ رات بارہ بجے کے قریب ہوتا ہے۔منگل کی صبح لیکن اس روایت کو نجانے کیوں ترک کرتے ہوئے وزیر خزانہ اسحاق ڈار صاحب نے پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں 20روپے کے قریب اضافے کا اعلان کردیا۔ یہ اعلان ہوگیا تو میرے ایک انتہائی معتبر صحافی دوست گھر سے نکلے۔گاڑی سٹارٹ کرنے کے بعد انہوں نے دیکھا کہ ان کے ڈیش بورڈ پر پیٹرول کے خاتمے سے خبردار والی سرخ بتی جل رہی ہے۔پیٹرول پمپ کا رُخ کرنے سے قبل مگر ضروری سمجھا کہ پیٹرول ڈلوالینے کے بعد جیب میں اضافی کیش یقینی بنانے کیلئے پہلے بینک سے رجوع کرلیا جائے۔صبح گیارہ بجے کے قریب بینک پہنچے تووہاں کھڑے گارڈ نے اطلاع دی کہ بینک ”بند“ کردیا گیا ہے۔چینی نائب وزیر اعظم کے دورئہ پاکستان کے دوران اسلام آباد کو دو روز کے لئے بند کردینے کا حکم صادر ہوا تھا۔بینکوں کو بھی اس ضمن میں استثناءمیسر نہیں ہوا۔ سرکاری اعلان کے باوجود چند بینکوں نے مگرنسبتاََ چھوٹی مارکیٹوں میں موجود شاخوں میں اپنا کام معمول کے مطابق جاری رکھنا چاہا۔ مقامی انتظامیہ کومگر اس کی خبرمل جاتی تو مجسٹریٹ صاحب بہادر وہاں پہنچ کر بینک کی بندش کا نوٹس چسپاں کرتے ہوئے اسے بند کردیتے۔منگل کے روز میرے صحافی دوست جس بینک گئے وہاں بھی ایسا ہی نوٹس چسپاں تھا۔
دوست کی خوش نصیبی کہ اس کے پاس اے ٹی ایم کارڈ کے علاوہ اپنی ضرورت کے لئے درکارپیٹرول خریدنے کے لئے نقدی رقم بھی موجود تھی۔ وہ مگر پیٹرول پمپوںتک پہنچے تو وہ اکثر بند ملے۔اطلاع یہ دی گئی کہ پیٹرول کے نرخوں میں اضافے کے ”اچانک“ اعلان کے بعد انہیں اپنے سٹاک اور میٹروغیرہ کو نئے حالات کے مطابق ”ایڈجسٹ (Adjust)“کرنا ہے۔ مختلف پیٹرول پمپوں کی بندش دیکھتے ہوئے انہیں خیال آیا کہ سرکاری طورپر چلائے پی ایس او نے اپنے پمپ یقینا کھلے رکھے ہوں گے۔ ان کے ذہن میں اس تناظر میں جو پیٹرول پمپ یاد آیا فوراََ اس کا رُخ کیا۔وہاں گاڑیوں کی ایک لمبی قطار تھی۔ تقریباََ ہر گاڑی کے لئے پیٹرول کا ”کوٹہ“ فکس تھا۔ ٹینکی فل کروانے کی اجازت نہیں تھی۔غالباََ سٹاک کی کمیابی کے باعث پیٹرول ڈالنے والا نظام بھی سست رو ہوچکا تھا۔میرے دوست کے محتاط اندازے کے مطابق ہر گاڑی کو پیٹرول کی ٹینکی کھولنے کے بعد اس میں کوٹے کے مطابق مقدار ڈلوانے میں پانچ منٹ لگے۔
بینک سے رقم کے حصول میں ناکامی اور بعدازاں پیٹرول کے حصول کے لئے میرے معتبر صحافی دوست نے اپنے ”ورکنگ ڈے“ کے کم از کم پہلے دو گھنٹے ”ضائع“ کردئے ہوں گے۔ ان کے ”زیاں“ نے ان کی تخلیقی قوتوں اور جسمانی توانائی کو بھی کمزور تر بنادیا ہوگا۔ یہ محض ایک دن کی کہانی ہے جو خدا کا شکر ہے آیا اور گزرگیا۔ فرض کریں ایسے ہی حالات میرے منہ میں خاک روزمرہّ زندگی کا حصہ بن جائیں تو ہم جیسے متوسط طبقے کے پیشہ ور اپنے دن کے کئی گھنٹے دیہاڑی یا تنخواہ کے لئے صرف کرنے کے بجائے بینکوں سے رقم کے حصول یا گاڑیوں میں پیٹرول ڈلوانے ہی میں ضائع کردیں گے۔
پیٹرول کے نرخوں میں اضافے کے لئے پیر کی رات کے بجائے منگل کی صبح ہوئے اعلان نے اسلام آباد میں لبنان جیسے مناظر کے جو ”ٹریلر“ دکھائے ہیں ان کے بارے میں ہمارے نام نہاد ”منتخب نما ئندے“ کاملاََ غافل تھے۔ منگل کی سہ پہر ”سب پہ بالادست“ اور ”عوامی حکمرانی کی حتمی علامت“ یعنی قومی اسمبلی کا اجلاس بھی ہورہاتھا۔ اس کی کارروائی کے دوران فقط ایک جی ہاںفقط ایک رکن اسمبلی نے پوائنٹ آف آرڈر پر کھڑے ہوکر منگل کی صبح ہوئے اضافے کی بابت دہائی مچائی۔ دہائی مچانے والے رکن اسمبلی صلاح الدین صاحب تھے۔ تعلق ان کا ایم کیو ایم سے ہے۔ان کے علاوہ عوام کے کسی اور ”نمائندے“ کو منگل کی صبح ہوئے اعلان نے پریشان نہیں کیا۔”ہمارے نمائندوں پر مشتمل حکومت“ کی منگل کے دن اولین ترجیح نجی شعبے میں مزید یونیورسٹیوں کے قیام کی اجازت دینا تھی۔ ”فروغ علم“ کے نام پر چلائے دھندے کی ڈھٹائی سے ہوئی سرپرستی کے خلاف مگر حکومتی بنچوں ہی سے مسلم لیگ نون کے بھٹی صاحب اور پیپلز پارٹی کے قادر مندوخیل ڈٹ گئے۔انہوں نے حکومت کی جانب سے پیش ہوئی تجویز پر گنتی کا مطالبہ کیا۔ خدا کا شکر ”گنتی“ پوری نہیں تھی اور ڈپٹی اسپیکر کو اجلاس بدھ تک ملتوی کرناپڑا۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن