میوات سے دیس نکالا
منافقت کی جانچ کیسے ہو؟ بہت سے طریقے ہیں، کچھ آسان اور کچھ مشکل اور بعضے تو نادر بھی۔ چلئے ایک نادر طریقہ پیش ہے، جب سہولت ہو آزما لیجئے۔
اپنے دس دوستوں اور واقف کاروں کو اپنے ڈرائنگ روم میں چائے پر بلائیے۔ پھر ٹی وی پر جیوگرافک یا اینمل پلانیٹ یا ایسے ہی کسی اور چینل کا وہ کلپ لگا دیجئے جس میں ظالم شیر یا چیتا کسی معصوم ہرن کا پیچھا کرتا ہے۔ ہرن جان بچانے کیلئے پوری رفتار سے دوڑتا ہے، شیر کی رفتار اس سے زیادہ ہے، وہ قریب تر ہوتا چلا جا رہا ہے۔ ہرن ایک جگہ جھپکائی دے کر رخ بدلتا ہے یوں شیر سے اس کا فاصلہ بڑھ جاتا ہے۔ سنسنی خیز دوڑ ہے، زندگی فرار ہونا چاہتی ہے، موت اسے ختم کرنے پر تلی ہے۔
انجام کار نمبر ایک....ہرن جھکائیاں دے دے کر بچ نکلنے میں کامیاب ہو جاتا ہے، باہمی فاصلہ بہت زیادہ ہو جاتا ہے اور شیر ہار مان لیتا ہے پھر کسی اور طرف نکل جاتا ہے۔
انجام کار نمبر دو....ہرن کی تمام چالیں ناکام ہو جاتی ہیں، شیر اسے دبوچ لیتا ہے، اس کی گردن توڑ کر ہلاک کر دیتا ہے اور پھر اپنا لنچ اڑانے لگتا ہے۔
دس مہمانوں کے تاثرات دیکھئے ، سبھی نہ سہی، دس میں سے نو کی ہمدردیاں ہرن کے ساتھ ہوں گی، سب چاہتے ہوں گے کہ ہرن بچ جائے۔ انجام کار نمبر ایک ہوا تو سبھی کے چہرے پر خوشی ہو گی، سب ”ری لیکس“ ہو جائیں گے اور انجام کار نمبر دو کی صورت میں چہرے مرجھا جائیں گے۔ دس میں سے نو کے....ایک کا چہرہ بے تاثر رہے گا۔
لیجئے جناب، جانچ ہو گئی۔ ان دس میں سے نو منافق ہیں، راسخ العقیدہ منافق، دسویں کے بارے میں ابھی یقین سے نہیں کہا جا سکتا۔ اس کے لیے دوسرا مرحلہ اختیار کرنا ہو گا۔
ان دس کے دس کو ایک ایک بندوق پکڑوائیے اور جنگل میں وہاں لے چلئے جہاں ہرن دستیاب ہوں۔ دس میں سے نو ہرن مارنے کو بے تاب ہوں گے۔ ہرن دیکھتے ہی ان کے منہ میں پانی آ جائے گا ۔ کوئی اس کی چانپوں کی لذّت کے تصور میں بے قرار ہو گا تو کوی اس کی مسلّم رانیں بھوننے کا عزم باندھے گا۔ ہرن نظر آتے ہی اس پر گولی چلا دے گا۔ کوئی ہرنی بچے کے ساتھ ملی تو بچے کو بھی مار د ے گا۔ لیجئے جناب نو کی تصدیق ہو گئی، نو کے نو راسخ العقیدہ منافق، مہر لگ گئی۔
دسواں اگر ان نو کے ساتھ ہے تو وہ بھی منافق اور اگر اس نے کہا کہ جنگل میں آزاد پھرتے ہرن کو بھی زندہ رہنے کا اتنا ہی حق ہے جتنا مجھے اس لئے میں تو اسے ہرگز نہیں ماروں گا تو اسے دائرہ نفاق سے خارج سمجھا جائے گا۔ وڈیو دیکھ کر اس کے چہرے پر کوئی تاثر اس لئے نہیں آیا تھا کہ وہ جنگل میں قدرت کے قانون کو جانتا تھا، شیر ہرن نہیں مارے گا تو خود بھوک سے مر جائے گا۔ یہ قدرت نے ضابطہ بنایا ، ہمیں پسند ہو یا نہ ہو، ضابطہ یونہی رہے گا۔ انساں کو شہر سے نکل کر جنگل میں زندگی کا قتل عام کرنے کی اجازت نہیں ہے لیکن معاشرہ اسے اجازت دیتا ہے، شہری قانون جنگل کے قانون قدرت کو نہیں مانتا۔
________________
نفاق جانچنے کی یہ مثال رضوانہ کیس میں ہونے والے تبصروں کو دیکھ کر یاد آئی۔ ہر کوئی مظلومہ بچی رضوانہ کے ساتھ ہے اور ناقابل تصور ظلم کرنے والی جلاد خاتون کے خلاف۔ اس بچی پر بہت زیادہ ظلم ہوا۔ ٹارچر کا یہ سیشن مسلسل بلا وقفہ سات مہینے جاری رہا۔ مظلومہ کے جسم کی ایک ایک ہڈّی توڑ دی گئی، آنکھیں نوچ لی گئیں، ایک پھیپھڑا پھٹ گیا، کمر ٹوٹ گئی، سر سے بال کیا، جلد بھی ادھیڑ دی گئی۔
لیکن ان مذمت کاروں پر وہی تجربہ دہرایا جائے جو مذکور ہوا۔ ان سب کے گھر چور، چور، یا دس بارہ سال کی بچی یا بچہ ملازم رکھوا دیا جائے اور پھر دیکھا جائے کہ کس نے اپنے اس کمسن ملازم کے ساتھ کیا کیا۔
مظلومہ سے سچی ہمدردی ہوتی تو ملک میں ہر دوسرے ہفتے کسی نہ کسی ملازم بچے کے بے رحمی سے ہونے والے قتل پر خاموشی نہ ہوتی، ہر دوسرے روز خبر آتی ہے فلاں شخص نے مار مار کر ملازم بچے کو بے ہوش کر دیا۔ برسوں سے یہ سلسلہ چل رہا ہے اور خموشی بھی برسوں سے ہے۔ جتنے بچے، ملازم اور غیر ملازم ہمارے ملک میں سالانہ بنیادوں پر قتل ہوتے ہیں، کہیں اور نہیں ہوتے۔ یورپ میں ایک بچہ قتل ہو جائے تو ہفتوں نہیں مہینوں تک تمام پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا اس خبر کے لیے وقف ہو جاتا ہے اور قاتل پکڑے جانے تک یہ اسی طرح چلتا رہتا ہے۔ وہاں قاتل کو سزا ہو جاتی ہے، یہاں قاتل کی ضمانت پر ضمانت۔ انجام کار باعزت بریت
مظلومہ رضوانہ کی ”ملزمہ“ دو ضمانتیں کرا چکی ہے، اشرافیہ اسے بچانے کیلئے سرگرم ہو چکی ہے۔ بی بی سی نے بتایا ، اخبار نویسوں کو ہتھ ہولا رکھنے کی ہدایت کی جا چکی ہے۔ یہاں ریاست راﺅانوار کے ساتھ ہے، عزیر بلوچ کے ساتھ ہے اور سومیہ کے ساتھ ہے۔ مظلومہ رضوانہ کے ساتھ کوئی نہیں۔ حکمرانوں کی جھوٹ موٹ کی ہمدردی چار دن کی چاندنی ہے، مجبوری کی چاندنی_ ایک غریب کانسٹیبل کو ظالم وڈیرے نے محض اس لئے گاڑی تلے کچل کر ہلاک کر دیا کہ اس نے ٹریفک کا اشارہ توڑنے سے روکا تھا۔ عدالت عالیہ نے اس وڈیرے کو فوراً ہی باعزت بری کر دیا۔
________________
ممبئی کے نزدیک جن تین مسلمانوں کو ایک انتہا پسند بجرنگ دلیئے سپاہی نے ٹرین میں گھس کر قتل کر دیا تھا، اس کے بارے میں پاکستانی اخبارات نے پہلے دن جو خبر چھاپی اس کے الفاظ یوں تھے کہ سپاہی نے ٹرین میں تین مسافر مار دئیے۔ سب ایڈیٹر یا نیوز ایڈیٹر نے زحمت ہی نہیں کی کہ خبر کی تفصیل جانے۔
بہرحال اب ہریانہ کے مسلمانوں پر آفت ٹوٹ پڑی ہے۔ ہریانہ مشرقی پنجاب سے ملحقہ صوبہ ہے جس کی جنوب مشرقی سرحد دہلی سے ملتی ہے۔ یہاں میوات کا علاقہ ہے اور گڑ گاﺅں کا شہر ہماچل پردیش میںہے جہاں مسلمان بہت کم ہیں۔ اڑھائی کروڑ کی آبادی میں محض پانچ سات فیصد یعنی بارہ پندرہ لاکھ ہوں گے۔ بی جے پی نے ”کریش پروگرام“ بنایا ہے کہ اس ریاست کو مسلمانوں کے وجود سے پاک کرو۔ تھوڑے سے ہیں، ٹارگٹ جلد اور آسانی سے حاصل ہو جائے گا۔ ابتدا گڑ گاﺅں سے کی گئی جس کا نیا نام گوردگرام ہے۔ گاﺅں، گانو، گرام ایک ہی معنے رکھتے ہیں۔ پنجابی میں بھی گاﺅں کو کبھی کبھی ”گراں“ کا نام دیا جاتا ہے، وہ میرا گرائیں ہے یعنی میرے گاﺅں کا رہنے والا۔
ایک روز پہلے ہریانہ کے مختلف شہروں میں جلوس نکلے اور مسلمانوں کو نکالنے بلکہ مارنے کے نعرے لگائے گئے، ہتھیار تقسیم کئے گئے۔ ایک تقریر وائرل ہوئی، مقرر کہہ رہا تھا، میوات ہمارا علاقہ ہے، مہادیو کے ماننے والوں کا، یہاں پاکستان کی آئی ایس آئی اور بنگلہ دیش کے ایجنٹوں کو رہنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ اس تقریر کے بعد گڑ گانوں کے مسلم اکثریتی علاقے ”نوح“ پر حملہ کر دیا گیا مسجد کو امام سمیت نیز دو نمازی بھی مار ڈالے گئے اور پھر مسلمانوں کی گاڑیوں، پتھاروں، مکانوں اور دکانوں کو آگ لگانے کا ہولناک سلسلہ شروع کیا گیا جس کے بعد سے دس ہزار سے زیادہ مسلمان دہلی میں پناہ گزین ہو چکے ہیں۔
گڑ گاﺅں دہلی سے ملا ہوا ہے، اس طرح کہ دہلی ہی کا علاقہ لگتا ہے۔ انفرمیشن ٹیکنالوجی کے حوالے سے یہ بنگلور کے بعد بھارت کا دوسرا اہم ترین شہر ہے۔ بارہ لاکھ آبادی میں محض ساٹھ ہزار مسلمان ہیں۔
________________