پاکستان کو اب مستحکم بنانا ہوگا
جو قومیں اپنی اعلیٰ اقدار‘ شناخت‘ غیرمعمولی پہچان اور اپنا قومی تشخص کھو دیتی ہیں‘ میری دانست میں محرومیاں اور ناکامیاں ان کا مقدر بن جاتی ہیں۔ اسی طرح بھوک اور مہنگائی سے مجبور و لاچار عوام اور بعض حالتوں میں ووٹوں کی خریدو فروخت کے نام پر منتخب ہو کر عوامی مسائل کے فوری اور مو¿ثر حل کے دعویدار حکمران جب منصب اقتدار پر بیٹھتے ہوئے عوام سے کئے تمام تر وعدے بھلا دیتے ہیں‘ تو ترقی‘ خوشحالی اور سیاسی استحکام اس ملک کی بدنصیبی کی علامت بن جاتا ہے۔ افسوس کہ یہی کچھ اسلام کے نام پر حاصل کئے 76 سالہ پاکستان کے ساتھ ہوا ہے اور حالات آج اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ مہنگائی اور غربت سے لاچار و مجبور دیہاڑی دار مزدور اور سفید پوش طبقہ آزادی وطن کی اہمیت سے ہی بے نیاز ہوتا نظر آرہا ہے۔
وطن عزیز پر ڈیڑھ برس تک سیاہ و سفید فارمولے کے تحت حکومت کرنے والے اتحادی پارٹنرز جو اپنی سیاسی دیہاڑیاں لگانے کے بعد خدام کی حیثیت سے مسائل اور احساس محرومی کی مارے عوام میں دوبارہ واپس جا رہے ہیں‘ وہ بتانا پسند کریں گے کہ کولیشن حکومت عوام کے اعتماد پر کیا پورا اتری؟؟ عوام سے کئے وعدے پورے ہوئے؟ مہنگائی‘ بے روزگاری‘ بجلی‘ پانی‘ گیس کے بلوں اور تیل و پٹرول مصنوعات میں کمی ہوئی؟ ڈالر کی اڑان اور ملک کو بھاری قرضوں سے نجات ملی‘ اوورسیز پاکستانیوں کی بہبود اور انکے مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کیا گیا؟؟ آزادی تحریر اور آزادی اظہار سمیت قومی زبان اردو کو دفتری زبان کے طور پر نافذ کیا گیا؟ سیلاب اور موسمیاتی تبدیلیوں کی لپیٹ میں آئے پاکستان کو جسے 30 ارب ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا‘ جنیوا ڈونرز کانفرنس میں عالمی برادری کی جانب سے کئے دس ارب ڈالرز کی امداد کے اعلان کے باوجود پورا حصہ ملا؟ اسی طرح لندن کی ایک معروف گلوبل کمپنی کے پاکستانی پاسپورٹ پر کئے سروے میں مبینہ طور پر کئے اس انکشاف پر کہ پاکستانی پاسپورٹ 101ویں نمبر پر دنیا کا چوتھا بدترین پاسپورٹ ہے۔ کولیشن حکومت نے اس بارے میں فوری تحقیقات کروائیں؟ کینیڈا‘ امریکہ اور یورپی ممالک سمیت برطانیہ میں بسنے والے اوورسیز پاکستانیوں کو پارلیمنٹ ایسے فلور پر انگریزی بولنے والے بے شرم‘ دفنانے اور وطن میں اپنی جائیدادیں فروخت کرکے واپس جانے کا انتہائی توہین آمیز طعنہ دیا گیا۔ جناب وزیراعظم نے اس کا فوری نوٹس لیا؟ ایسے بنیادی سوالات ہیں جن کے جواب حکومت کو عوام میں دوبارہ واپس جانے سے قبل دینا ضروری تھے مگر ایسا ہوا نہیں جس سے جذبہ حب الوطنی سے سرشار اپنے وطن سالانہ 30 ارب ڈالرز سے زیادہ رقوم بھجوانے والے اوورسیز پاکستانیوں کو دلی دکھ اور صدمہ پہنچا ہے‘ ایسے حالات میں اس حیثیت سے انکار اب ممکن نہیں کہ آئندہ متوقع قومی انتخابات میں ووٹرز کی فکرونظر میں یقیناً سیاسی تلاطم پیدا ہوگا۔ ووٹر اب وہ ووٹر نہیں ہوگا جو کسی دور میں اپنی گلی پکی بنوانے‘ نالی کا ڈکہ کھلوانے‘ دکاندار کا ادھار دینے‘ یا متنجن اور ست رنگیہ چاولوں کی بڑی ڈش پر اپنے ووٹ کا فیصلہ کرتا تھا۔ حالات آج یکسر تبدیل ہو چکے ہیں۔ ووٹر سیاسی گھٹن‘ احساس محرومی اور ملک کو لوٹنے والوں کیخلاف آواز بلند کرنے کے حوصلہ سے سرشار ہو چکا ہے۔ آج کے ووٹر میں سیاسی شعور کی واضح جھلک نظر آرہی ہے۔ اس لئے ملک کے 23 کروڑ عوام کو یہ توقع ہے کہ آنیوالے انتخابات میں اپنے مقروض ملک کو مزید قرضے کی دلدل میں پھنسانے اور ماضی میں انہیں مہنگائی‘ بجلی‘ گیس اور بے روزگاری کے مکمل خاتمے کے حسین خواب دکھانے والے سیاست دانوں اور حکمرانوں سے ووٹ کے ذریعے اس مرتبہ ضروربدلہ لیں گے۔
حساب تو قوم کو اپنی قومی ایئرلائن پی آئی اے کو تباہ و برباد کرنے والوں سے بھی لینا ہوگا۔ وزارت ہوا بازی کو یہ بتانا ہوگا کہ پی آئی اے کی اڑھائی برس سے یورپی فضائی اپریشن بند ہونے کے بنیادی عوامل کیا ہیں۔ مکمل سیفٹی پروف اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے مبینہ طور پر پی آئی اے کے منجمد کئے اکاﺅنٹس کی بحالی کے باوجود وہ کونسے ایسے عوامل ہیں جن کی وجہ سے قومی ایئرلائن ابھی تک اپنا یورپی فضائی اپریشن شروع نہیں کر سکی۔ برطانوی ورجن اٹلانٹک ایئرلائن کے پاکستان ووٹ کو خیرباد کہنے کے بعد توقع کی جارہی تھی کہ کولیشن حکومت فوری طور پر پی آئی اے کی سروسز بحال کروانے کیلئے یورپی ایوی ایشن اتھارٹیز سے مذاکرات کریگی مگر! میرے ذرائع نے تازہ ترین انکشاف اب یہ کیا ہے کہ حکومت جاتے جاتے مبینہ طور پر پی آئی اے کی نجکاری کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کے فیصلے کو بھی عملی شکل دے چکی ہے جبکہ ہوائی اڈوں کیلئے جنہیں لیز پر دیا جارہا ہے‘ انگریزی کا ہی ایک لفظ Out Source بھی استعمال کیا جارہا ہے۔ اس بارے میں میری گوری کولیگ نے محترم خواجہ آصف صاحب کی طرح مجھے بھی یہ طعنہ دیا ہے کہ لفظ لیز کو ”آﺅٹ سورس“ کا لبادہ چڑھا کر تمہاری حکومت مسائل سے دوچار عوام کو کیا پیغام دینا چاہتی ہے۔ ہماری انگریزی کے ساتھ کم از کم اس طرح تو نہ کریں۔