5اگست ....یوم استحصال ِ کشمیر
بھارت کی انتہاپسند مودی سرکار کی طرف سے جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم ہوئے چار سال ہورہے ہیں ۔ اس دوران ظلم و جبر کاکوئی ایسا ہتھکنڈا نہیں ہے جو غاصب ہندوستانی فورسز نے مظلوم کشمیریوں پر نہ آزمایا ہو۔ کشمیریوں کے گھروں پر چھاپے مار کر خواتین سے زیادتی کے واقعات پیش آئے، چھوٹے بچوں اور بچیوں سے بداخلاقی کی گئی اور ہندوستانی فوجی کیمپوںسے اغواءکی گئی کشمیری لڑکیاں برآمد ہوتی رہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے تو اپنی رپورٹ میںبھارتی دہشت گردی کا بھانڈا پھوڑتے ہوئے یہاں تک لکھا کہ ٹارچر سیلوں سے سینکڑوں لڑکوں کی لاشیں بھی ملی ہیں۔ بھارتی فوج کی طرف سے بڑی تعداد میں کمسن بچوں سے جنسی زیادتی کے واقعات بھی پیش آئے، جن کے متعلق میڈیا رپورٹس میں کہا گیا کہ یہ سب کچھ کشمیریوں کو بددل کرنے کے لیے کیا گیااور ایسا کرنے کے بعد کشمیریوں کو دھمکیاں دی جاتی رہیں کہ اس پر شور مچایا گیا تو یہ بچے لاپتہ بھی ہو سکتے ہیں۔ پانچ اگست 2019ءکے بعد سے اب تک سینکڑوں کشمیری شہید، ہزاروں زخمی ہوئے ہیں۔ دو سو کے قریب خواتین سے نام نہا دسرچ آپریشن کے دوران درندگی کا ارتکاب کیا گیا ہے۔ اسی طرح تقریباپچیس ہزار لڑکوں کو گرفتار کر کے ہندوستانی فوجی کیمپوں، تھانوں اور ٹارچر سیلوں میں لے جایا گیاجن میں سے کئی کمسن لڑکوں اور نوجوانوں کو قتل کر دیا گیا۔ بڑی تعداد میں نوجوان ایسے بھی ہیں جنہیں ہندوستانی فورسز اہلکاروں پر پتھرا¶ کے الزام میں گرفتار کیا گیا لیکن ابھی تک ان کی رہائی عمل میں نہیں آسکی۔
پانچ اگست 2019ءکو بھارتی حکومت نے آئین کے آرٹیکل 370 اور 35اے کو ختم کیا۔ ہندوستانی وزیرداخلہ امیت شاہ نے اگست کے آغاز میں آئین کی یہ دفعات ختم کرنے کا بل پیش کیا، جن کے تحت مقبوضہ کشمیر کو خصوصی حیثیت حاصل تھی۔ یہ بل پیش کرنے پر بھارت کی اپوزیشن جماعتوںنے شدید احتجاج کیا ،تاہم بھارتی صدر نے اس پر دستخط کر دئیے۔ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر کے مقبوضہ وادی کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا اور لداخ کو وادی کشمیر سے الگ کر کے اسے ہندوستانی زیرانتظام وفاق کا علاقہ قرار دے کر کہا گیاکہ اس کی اپنی الگ قانون ساز اسمبلی ہو گی۔ جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت والا آرٹیکل 35 اے، بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 کا حصہ تھا۔ یہی وہ آرٹیکل تھا جس کی وجہ سے جموں کشمیر کو خصوصی ریاست کا درجہ حاصل تھا۔ آرٹیکل 35 اے کے مطابق کوئی شخص صرف اسی صورت جموں کشمیر کا شہری ہو سکتا تھاکہ وہ یہاں پیدا ہوا ہو۔ کسی بھی دوسری ریاست کا شہری جموں کشمیر میں جائیداد نہیں خرید سکتا تھا، نہ وہ یہاں کا مستقل شہری بن سکتا تھااور نہ ہی ملازمتوں پر حق رکھتاتھا۔ گویا یہ آرٹیکل 35 اے جموں کشمیر کے لوگوں کو مستقل شہریت کی ضمانت دیتا تھا۔آرٹیکل 370 کے مطابق یہ طے تھا کہ خارجہ امور، سیکیورٹی اور کرنسی بھارت کے پاس ہوگی اور باقی تمام اختیارات جموں کشمیر حکومت کے پاس رہیں گے۔
بھارت کی طرف سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کا ایک بہت بڑا مقصد یہاں لاکھوں کی تعداد میں ہندوستانی شہریوں کو لاکر بسانا اور ریٹائرڈ ہندوستانی فوجیوں کو آباد کرنا تھا تاکہ مقبوضہ جموں کی طرح وادی کشمیر میں بھی آبادی کا تناسب تبدیل کر دیا جائے۔ اپنے اس مذموم منصوبہ پر وہ اس وقت پوری طرح عمل پیرا ہے اور اس کے لیے بھارت کو اسرائیلی ماہرین کا تعاون بھی حاصل ہے۔ بھارتی حکومت مسلسل غیر کشمیریوں کو یہاں لاکر بسا رہی ہے اور کشمیریوں کی زمینیں قبضے میں لے کر ہندوستانی ریاستوں سے لائے گئے باشندوں اور ریٹائرڈ فوجیوں کو ان زمینوں، وسائل اور روزگار پر قابض ہونے کے مواقع فراہم کیے جارہے ہیں۔ مودی سرکار مقبوضہ کشمیر کی جداگانہ حیثیت ختم کر کے اسرائیلی طرز پر کشمیریوں کو اقلیت میں بدلنے کی کوشش کر رہی ہے۔ حریت کانفرنس کی ساری قیادت اس وقت جیلوں میں قید ہے۔ سید علی گیلانی اور محمد اشرف صحرائی قید کے دوران ہی بھارتی جبر برداشت کرتے ہوئے شہید ہو گئے۔ مسرت عالم بٹ، یاسین ملک، شبیر احمد شاہ، سیدہ آسیہ اندرابی، ڈاکٹر محمد قاسم اور دیگر رہنما مسلسل بھارتی جیلوں میں قید ہیں، جن کے متعلق بار بار اس خدشہ کا بھی اظہار کیاجاتا رہا ہے کہ انہیں جیلوں میں سلو پوائزننگ کا نشانہ بنایا جارہا ہے جس سے وہ خطرناک بیماریوں میں مبتلا ہو رہے ہیں۔ میرواعظ عمر فاروق کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد سے اپنی رہائش گاہ پر نظربند ہیں اور انہیں سری نگر کی جامع مسجد میں جمعہ پڑھانا تو درکنار ،وہاں نماز کی ادائیگی کی بھی اجازت نہیں ہے۔
بھارت خود کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت قرار دیتا ہے، لیکن جس طرح کے غیر جمہوری ہتھکنڈے اس نے اختیار کئے اور انسانی حقوق کی بدترین پامالیاں کی جارہی ہیں، اس کی مثال ماضی میں کہیں نہیں ملتی۔ یاسین ملک کے ساتھ تو اس وقت اتنا ظلم کیا جارہا ہے کہ انہیں دس برس کی معصوم بیٹی سے دور رکھا گیا ہے اور اہل خانہ سے بھی ملاقات کی اجازت نہیں ہے۔ ابھی چند دن قبل ہی ان کی بیٹی رضیہ سلطانہ نے آزاد کشمیر کی قانون ساز اسمبلی سے خطاب میں اپنے باپ سے کی جانی والی زیادتیوں اور ظلم و دہشت گردی کا تذکرہ کیا تو ہر آنکھ اشکبار تھی لیکن بھارتی میڈیا اس پر بھی غلیظ پروپیگنڈا کرتا دکھائی دیا کہ اسے جو کچھ لکھ کر دیا گیا ہے ،یہ بچی معصومیت میں وہی پڑھ رہی ہے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ اس وقت کشمیری نوجوانوں کو شہید کرنے کے ساتھ ساتھ یہاں بسنے والے لوگوں کی معیشت بھی برباد کی جارہی ہے، ان کے باغات، دوکانیں اور زمینیں قبضے میں لی جارہی ہیں، مگر کوئی اس ظلم کے خلاف آواز بلند نہیں کر رہا۔ پہلے صرف کشمیری رہنما¶ں کے خلاف انتقامی کارروائیاں ہوتی تھیں، اب صحافی، تاجر، وکلاءاور طلباءو طالبات بھی بھارتی درندگی سے محفوظ نہیں ہیں۔ آئے دن کشمیریوں کے گھروں پر چھاپے مار کر قیمتی سامان کی توڑ پھوڑ کی جاتی ہے اور بچوں، خواتین اور بوڑھوں کو ہراساں کیا جاتا ہے۔
بھارتی میڈیا کی جانب سے جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت والی دفعات ختم کرتے وقت یہ پروپیگنڈا بہت زیادہ کیا جاتا رہا ہے کہ کشمیر کی ترقی میں دفعہ 35-Aبہت بڑی رکاوٹ ہے کیونکہ بھارت کے دیگر علاقوں سے لوگ یہاں آکر آباد نہیں ہو سکتے جس کی وجہ سے سرمایہ کاری نہیں ہوتی اور ترقی کا عمل رکا ہوا ہے لیکن یہ سارا پروپیگنڈہ جھوٹ اور دھوکہ دہی پر مبنی تھا۔ خصوصی حیثیت ختم ہونے کے بعد ترقی خاک ہونا تھی، کشمیردنیا کی سب سے بڑی جیل بن چکا ہے، جہاں کسی کی بھی عزت اور حقوق محفوظ نہیں ہیں۔بھارتی فوج اور حکومت کشمیریوں کو تحریک آزادی سے دور کرنے کیلئے مظالم ڈھانے کے سبھی ہتھکنڈے آزما رہی ہے لیکن کشمیری صبرو استقامت کا پہاڑ بن کر بھارتی دہشت گردی کا مقابلہ کر رہے ہیں اور میدانوں میں برسر پیکار ہیں۔ کشمیرکی تحریک آزادی جس قدر عروج پر پہنچ چکی ہے، اسے طاقت و قوت کے بل بوتے پر ختم کرنا کسی صورت ممکن نہیں ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت پاکستان سفارتی سطح پر بھرپور مہم چلائے اور تمام بین الاقوامی فورمز پر کشمیر کے حوالے سے مضبوط آواز بلند کی جائے تاکہ انڈیا کو اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل درآمد کے لیے مجبور کیا جاسکے۔ کشمیری قوم نے پاکستان سے بہت سی توقعات وابستہ کررکھی ہیں۔اس لئے کشمیریوں کی مددوحمایت کیلئے ہر ممکن عملی اقدامات اٹھانے چاہئیں۔ پاکستان کے دفاع کے لیے بھی دہشت گرد بھارت کو جنت ارضی کشمیر سے نکالنا بہت ضروری ہے۔
٭....٭....٭