• news

اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور سکینڈل ، قائمہ کمیٹی کی جوڈیشل کمیشن بنانے کی سفارش

اسلام آباد(نا مہ نگار)سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے تعلیم نے اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور اسکینڈل کیس پر چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کو اسکینڈل کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن بنانے کی سفارش کردی۔بہاولپور کی اسلامیہ یونیورسٹی اسکینڈل کیس پر سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے تعلیم کا اہم اجلاس چیئرمین سینیٹر عرفان صدیق کی صدارت میں منعقد ہوا، جس میں کمیٹی نے چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کو اسکینڈل کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن بنانے کی سفارش کردی۔قائمہ کمیٹی نے تجویز دی کہ چیف جسٹس جوڈیشل کمیشن قائم کرکے ملوث افراد کا تدارک کریں جبکہ کمیٹی نے سابق وائس چانسلر بہاولپور یونیورسٹی کا نام نو فلائی لسٹ میں ڈالنے کی سفارش کردی۔دوران اجلاس وائس چانسلر اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور نوید اختر نے قائمہ کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ بہاولپور یونیورسٹی کے 21 گریڈ کے پروفیسر، چیف سیکیورٹی افسر اور ٹرانسپورٹ کلینر کے منشیات کی فراہمی میں ملوث ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔وائس چانسلر نے کہا کہ میں نے 26 جولائی 2023 کو بطور وائس چانسلر چارج سنبھالا ہے لیکن بہت سی ویڈیوز اور چیزیں آپ نے دیکھی ہوں گی۔انہوں نے کمیٹی کو بتایا کہ آئس، وڈیوز اسکینڈل اور کچھ کرپشن کی باتیں ہوئیں جس کے بعد یونیورسٹی نے تفتیشی کمیٹی بنائی اور ہائر ایجوکیشن کمیشن نے اپنی کمیٹی تشکیل دی، جبکہ نگران وزیر اعلی پنجاب کی جانب سے بھی ایک کمیٹی بنائی گئی جس نے تحقیقات کی ہے۔انہوں نے کہا کہ نگران وزیراعلی کی جانب سے بنائی گئی کمیٹی اپنا کام کرکے چلی گئی ہے، تفتیشی کمیٹی میں ڈی آئی جی، انٹی لجنس کے کچھ لوگ شامل تھے لیکن اس کمیٹی نے ہم سے رپورٹ شیئر نہیں کی۔وائس چانسلر نے کہا کہ آئس کا کیس ہمارے سامنے نہیں آیا، تین لوگ گرفتار ہوئے ہیں جو جیل میں ہیں اور تینوں افراد کا تعلق یونیورسٹی سے ہے اور پروفیسر 21 گریڈ کا ہے جن کو خزانچی کا چارج دیا گیا تھا اور وہ آئس کی فراہمی میں ملوث تھا جبکہ ٹرانسپورٹ کلینر بھی آئس فراہم کرنے میں ملوث ہے۔کمیٹی کو بتایا گیا کہ چیف سیکیورٹی افسر ریٹائرڈ میجر ہیں جن سے آئس برآمد ہوئی ہے اور انہیں بھی گرفتار کیا گیا ہے۔وائس چانسلر نے قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ یونیورسٹی میں 65 ہزار طلبہ ہیں جہاں 7 ہزار 800 طلبہ اور طالبات ہاسٹل میں رہتے ہیں، جن میں 5 ہزار کے قریب لڑکیاں ہاسٹل میں رہتی ہیں۔کمیٹی کو بتایا گیا کہ چیف سیکیورٹی افسر کی جانب سے کہا گیا تھا کہ لڑکے لڑکیاں اگر ساتھ بیٹھے ہوں اور نازیبا حرکات کر رہے ہوں تو آپ ان کی ویڈیوز بنائیں جس کے بعد چیف سیکیورٹی افسر کے کہنے پر سیکیورٹی کے کچھ لوگ وڈیوز بناکر بھیجتے تھے، جبکہ یونیورسٹی میں کیمرے ہیں لیکن کنٹرول روم نہیں بنایا ہوا۔چیئرمین ہائر ایجوکیشن کمیشن نے کہا کہ وڈیوز کی تعداد ہزاروں میں نہیں لیکن وڈیوز ہیں اور ان واقعات کی وجہ سے میں رات کو سوتے سوتے اٹھ جاتا ہوں اور میں رات کو سو نہیں سکتا، اس عمل کو روکنا پڑے گا۔ 

ای پیپر-دی نیشن