کشمیر پر بھارتی جبر و تسلط کے چار سال اور یومِ استحصالِ کشمیر
آج پانچ اگست کوکشمیری عوام دنیا بھر بشمول بھارتی زیر تسلط کشمیر، بھارت اور پاکستان میں چوتھا یومِ استحصالِ کشمیر اس فضا میں منا رہے ہیں کہ بھارت کی ہندو انتہاء پسند مودی سرکار کشمیر کی مسلم اکثریتی آبادی کواقلیت میں تبدیل کرنے کی منصوبہ بندی کئے بیٹھی ہے اور اس گھناونی سازش کو آگے بڑھاتے ہوئے مقبوضہ کشمیر میں پچاس لاکھ ہندووں کو کشمیری ڈومیسائل دے دیا گیا ہے۔ اس سلسلہ میں بھارتی مردم شماری کمشن نے ہندو اکثریت والے کشمیری علاقے کی نشستیں 83 سے بڑھا کر 90 کر دی ہیں اور ہندو اکثریت پر مشتمل ایک نیا ڈویڑن بنانے کا بھی فیصلہ کر لیا ہے جس میں کشتوار، اننت ناگ اور کل گام کے اضلاع شامل کیئے جارہے ہیں جبکہ انسانی حقوق کی چیمپئن عالمی تنظیمیں اور عالمی قیادتیں اس بھارتی ہٹ دھرمی پر مکمل خاموشی اختیار کئے بیٹھی ہیں۔
مودی سرکار کی جانب سے بھارتی ناجائز زیرقبضہ کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرنے اور اسے دو حصوں میں تقسیم کرکے بھارتی سٹیٹ یونین کا حصہ بنانے کے جبری اقدام کے آج پانچ اگست کو چار سال پورے ہو گئے ہیں جبکہ اس جبری اقدام کیخلاف کشمیریوں کی آواز دبانے اور انکی ممکنہ مزاحمت روکنے کیلئے پوری مقبوضہ وادی کو فوجی محاصرے میں دینے کے بھی آج چار سال مکمل ہوگئے مگردس لاکھ فوجیوں کی موجودگی میں بھی کشمیریوں نے بھارتی تسلط سے آزادی کی جدوجہد میں کوئی کمی آنے دی ہے نہ بھارتی مظالم کے آگے اپنے حوصلے پست ہونے دیئے ہیں۔ مودی سرکار کی جانب سے کشمیر پر اٹوٹ انگ والی بھارتی ہٹ دھرمی اور اپنے توسیع پسندانہ عزائم کی بنیاد پر پانچ اگست 2019ء کو کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرنے کیلئے بھارتی آئین کی دفعات 370‘ اور 35۔اے کو آئین سے حذف کرانے کیلئے یکایک بھارتی لوک سبھا میں بل پیش کرکے اسکی منظوری حاصل کی گئی اور پھر بھارتی راجیہ سبھا میں بھی پاکستان اور مسلم دشمنی کے ابھارے گئے جذبات کی بنیاد پر اس آئینی بل کی منظوری حاصل کرکے بھارتی صدر کے دستخطوں کے ساتھ بھارتی آئین سے متذکرہ دفعات نکال دی گئیں اور مقبوضہ وادی کو جموں اور لداخ کے دو حصوں میں تقسیم کرکے انہیں باقاعدہ بھارتی سٹیٹ یونین کا حصہ بنا دیا گیا۔
کشمیری عوام نے جنہوں نے کشمیر کو خودمختاری دینے کا بھارتی چکمہ بھی کبھی قبول نہیں کیا اور بھارتی تسلط سے آزادی کی صبرآزما اور جانی و مالی قربانیوں سے لبریز بے مثال تحریک گزشتہ 75 سال سے جاری رکھی ہوئی ہے،‘ اس بھارتی جبری اقدام کو بھی یکسر مسترد کیا اور وادی کشمیر کے علاوہ دنیا بھر میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع کر دیا تو مودی سرکار نے کشمیریوں کی مزاحمت روکنے کیلئے پانچ اگست ہی کو مقبوضہ وادی میں مزید دو لاکھ بھارتی فوجی بھجوا کر اسے عملاً محصور کرلیا اور باہر کی دنیا سے انکے رابطے منقطع کرنے کیلئے انٹرنیٹ سروس بھی انکی دسترس سے نکال لی جبکہ کشمیریوں پر نئے مظالم کا سلسلہ شروع ہو گیا جس کے تحت کشمیر میں کرفیو نافذ کرکے عوام کا گھروں سے باہر نکلنا بھی ناممکن بنا دیا گیا چنانچہ کشمیری عوام اپنے معمولات زندگی سے محروم ہو گئے‘۔ ان کا روزگار اور کاروبار چھن گیا، انکے بچوں کا تعلیمی اداروں میں جانا ناممکن ہوگیا اور مریضوں کو ہسپتال لے جانا اور ان کیلئے ادویات تک خریدنا ناممکنات میں شامل ہوگیا۔ اس طرح کشمیری اپنے مرنے والے پیاروں کی لاشیں گھروں کے صحنوں میں دفنانے پر مجبور ہوگئے۔ تاہم اس خوف و جبر کے ماحول میں بھی کشمیریوں نے ہمت نہیں ہاری اور ملک سے باہر مقیم کشمیریوں نے دنیا کے چپے چپے میں تحریک آزادی کا پیغام پہنچا کر عالمی برادری کو بھارتی مظالم سے لمحہ بہ لمحہ آگاہ کرنا شروع کر دیا۔ اسی طرح پاکستان نے بھی سفارتی ذرائع اور کوششیں بروئے کار لاکر سلامتی کونسل، یورپی اسمبلی، امریکی کانگرس اور برطانوی پارلیمنٹ سمیت ہر نمائندہ عالمی اور علاقائی فورم تک مظلوم کشمیریوں کی آواز پہنچائی اور بھارتی چہرہ بے نقاب کیا جس سے دنیا کو کشمیر ایشو، اسکے حل کیلئے موجود سلامتی کونسل کی قراردادوں اور ہٹ دھرمی پر مبنی بھارتی اقدامات سمیت بھارتی جبر و تسلط اور مقبوضہ وادی میں جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے آگاہی ہوئی۔ چنانچہ دنیا بھر میں کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کے اظہار اور انکے حق خودارادیت کیلئے آواز اٹھانے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ یواین سلامتی کونسل کے تین ہنگامی اجلاس ہوئے جن میں مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے اسکی قراردادیں روبہ عمل لانے کا تقاضا ہوا اور دنیا بھر میں مختلف نمائندہ فورموں کی جانب سے مقبوضہ وادی کی پانچ اگست 2019ء سے پہلے کی آئینی حیثیت کی بحالی کے مطالبات بیک آواز سامنے آنے لگے۔ اسی دوران امریکہ کے اس وقت کے صدر ٹرمپ نے چار مختلف مواقع پر مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے پاکستان اور بھارت کے مابین ثالثی کے کردار کی پیشکش کی مگر ہٹ دھرم مودی سرکار اقوام عالم کے کسی احتجاج اور عالمی قیادتوں و نمائندہ عالمی اداروں کے کسی دبائو کو خاطر میں نہ لائی۔ اسکے برعکس اس نے پاکستان کے ساتھ سرحدی کشیدگی بڑھالی اور سرجیکل سٹرائیکس جیسی گیدڑ بھبکیاں لگانا شروع کر دیں مگر پاکستان نے کشمیر پر اپنے دیرینہ اصولی موقف میں سرِمْو فرق نہیں آنے دیا۔ سابق وزیراعظم پاکستان نے یواین جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے کشمیر میں جاری مظالم پر بھارتی چہرہ بے نقاب کیا اور دو ایٹمی ممالک میں ممکنہ جنگ رکوانے کیلئے عالمی قیادتوں سے عملی کردار کا تقاضا کیا جبکہ انہوں نے پانچ اگست کے جبری اقدام کیخلاف احتجاج اور مزاحمت کیلئے بھارت کا رخ کرنیوالے کشمیری عوام کے جلوس کی بھی خود قیادت کی اور کنٹرول لائن پر پہنچ کر بھارت کو چیلنج کیا۔
مودی سرکار نے پاکستان اور کشمیریوں کے یکجہت ہو کر آواز اٹھانے اور عالمی برادری کے سخت دبائو کے باوجود کشمیر کو مستقل ہڑپ کرنے کے اقدامات جاری رکھے ہوئے ہیں جس کیخلاف کشمیری عوام نے گزشتہ سال بھی پانچ اگست کو مقبوضہ وادی کے علاوہ دنیا بھر میں یوم استحصال اور یوم سیاہ منایا اور آج پانچ اگست کو بھی وہ اسی تناظر میں بھارتی مظالم کو بے نقاب کرتے ہوئے دنیا بھر میں یوم استحصال منا رہے ہیں اور پاکستان کی جانب سے مکمل ہم آہنگی سے کشمیریوں کی جدوجہد کا ساتھ نبھایا جارہا ہے۔ آج پانچ اگست کا دن پاکستان سمیت دنیا بھر میں یوم سیاہ کے طور پر منایا جائیگا اور کشمیری عوام لال چوک کی جانب مارچ کرینگے اور احتجاجاً بلیک آئوٹ کرینگے اس موقع پر ہر جگہ سیاہ جھنڈے لہرائے جائینگے۔ پاکستان کے عوام کشمیریوں کی جدوجہد آزادی میں انکے ساتھ مکمل یکجہت ہیں اور آج پاکستان میں بھی بھارتی تسلط و مظالم کیخلاف بھرپور انداز میں یوم استحصال منایا جارہا ہے جس کیلئے ملک بھر میں مظاہروں‘ ریلیوں اور سیمینار کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔ پاکستانی قوم اس حوالے سے آج ایک منٹ کی خاموشی اختیار کرکے کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کریگی۔ پاک فوج نے دو سال قبل پانچ اگست کو ایک خصوصی نغمہ ’’بھارت جا چھوڑ دے میری وادی‘‘ جاری کرکے کشمیریوں اور پاکستانی عوام کے دل گرمائے تھے اور مقبوضہ وادی میں جاری بھارتی مظالم کی جانب اقوام عالم کو متوجہ کیا تھا۔ اسی طرح کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کیلئے خصوصی ڈاک ٹکٹ بھی جاری کیا گیا اور کشمیر ہائی وے کا نام سری نگر ہائی وے رکھا گیا۔ پاکستان کی سول اور عسکری قیادتیں آج بھی کشمیری بھائیوں کے ساتھ یکجہتی کے اسی جذبے سے سرشار ہیں۔ پاکستان کے عوام آج بھی کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کے ایسے ہی جذبے سے معمور ہیں جبکہ بھارتی جبروتسلط کیخلاف آج پوری دنیا کشمیری عوام کے جذبات کے ساتھ ہم آہنگ ہو چکی ہے۔ یہ صورتحال اس امر کی عکاس ہے کہ مقبوضہ وادی میں بھارتی مظالم مستقل طور پر برقرار نہیں رہ سکتے اور کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کو بالآخر کامیابی سے ہمکنار ہونا ہے۔ اس وقت ضرورت عالمی برادری کی جانب سے عملی اقدامات کے تحت اور ٹھوس بنیادوں پر بھارتی مظالم روکنے اور اسکے توسیع پسندانہ عزائم کے آگے مستقل طور پر بند باندھنے کی ہے جس کیلئے عالمی قیادتوں اور نمائندہ عالمی اداروں کو مصلحت کیشی اور مفاہمت کے لبادے اتارنا ہونگے اور مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے سلامتی کونسل کی 21 اپریل 1948ء کی قرارداد پر اسکی روح کے مطابق عملدرآمد کرانا ہوگا بصورت دیگر علاقائی اور عالمی امن و استحکام کا خواب کبھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہو پائے گا۔
سلامتی کونسل کی اس قرارداد اور اسکے بعد منظور ہونیوالی سلامتی کونسل اور جنرل اسمبلی کی درجن بھر قراردادوں کے تحت کشمیریوں کا حق خودارادیت تسلیم کیا گیااور بھارت کو مقبوضہ وادی میں رائے شماری کے اہتمام کی ہدایت کی گئی تو بھارت اس کا وعدہ کرنے کے باوجود یواین قراردادوں سے منحرف ہو گیا اور مقبوضہ وادی کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دینے کا ڈرامہ رچانا شروع کردیا۔ پھر اس نے اپنے آئین میں ترمیم کرکے دفعہ 370‘ کے تحت مقبوضہ وادی کو خصوصی آئینی حیثیت دی مگر کشمیری اپنی آزادی سے کم کسی چیز پر راضی نہ ہوئے اور کٹھ پتلی اسمبلی اور حکومت کو تسلیم نہ کرتے ہوئے بھارتی تسلط سے آزادی کی جدوجہد تیز کردی جس کا انہوں نے 1948ء میں یواین قراردادوں کیساتھ ہی آغازکر دیا تھا۔ بانیِ پاکستان قائداعظم نے کشمیر کو پاکستان کی سلامتی و استحکام کے تناظر میں شہ رگِ پاکستان قرار دیا تھا چنانچہ یہ شہ رگ دشمن کے پنجے سے چھڑانے کیلئے پاکستان نے بھی اپنے اصولی موقف کے تحت کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کا دامے درمے قدمے سخنے اور سفارتی محاذ پر بھرپور ساتھ دینا شروع کر دیا۔ اہل پاکستان کے دل آج بھی کشمیری عوام کے ساتھ دھڑکتے ہیں اور اسی تناظر میں آج پوری قوم کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے بھارتی مظالم کیخلاف سراپا احتجاج ہے۔ پاکستان کے ساتھ الحاق ہی درحقیقت کشمیریوں کی منزل ہے جو ان پر مظالم توڑتا بھارت ان کیلئے خود آسان بنارہا ہے۔ اس حوالے سے ہماری ہر قومی پالیسی کشمیریوں کے جذبات کے ہم آہنگ ہونی چاہیے اور قومی قیادتوں کی جانب سے ایسی کسی سوچ یا فیصلے کا اظہار نہیں ہونا چاہیے جس سے پاکستان کے ساتھ الحاق کی تڑپ رکھنے والے کشمیریوں کے حوصلے پست ہوں اور آزادی کی منزل کیلئے ان کا اب تک کا سفر کھوٹا ہوتا ہو۔ ہماری موجودہ اسمبلی کی 9 اگست کو تحلیل کے بعد نگران سیٹ اپ تشکیل پانا ہے۔ قوم توقع کرتی ہے کہ نگران حکومت بھی کشمیر پر پاکستان کے دیرینہ اصولی موقف میں ہلکی سی بھی لچک پیدا نہیں ہونے دے گی۔ کشمیریوں کی تحریکِ آزادی درحقیقت کشمیر کے پاکستان سے الحاق کی تحریک ہے جو تقسیم ہند کا اب تک مکمل نہ ہونے والا ایجنڈا ہے۔ ہماری کوئی حکومت تکمیل پاکستان کے اس ایجنڈے پر کاربند نہ رہنے کا تصور بھی نہیں کر سکتی۔