• news

مقبوضہ کشمیر…بھارتی جبر کے چار سال

5 اگست 2019ء وہ سیاہ دن تھا جب بھارت نے عالمی قوانین کو پیروں تلے روند کر مقبوضہ جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کی۔ مقبوضہ وادی کو 2 یونین ٹیرٹریز میں بدلنے کے اس اقدام نے ریاست جموں و کشمیر کو عملی طور پر دو ٹکڑوں میں تقسیم کیا۔ عوامی ردعمل سے خوفزدہ ہو کر ہندوستان نے فوری طور پر مقبوضہ جموں و کشمیر میں کرفیو نافذ کر دیا۔ ایک طرف 350,000 اضافی فورسز کی تعیناتی کی اور دوسری جانب تمام اہم اور تحریک کی حامی قیادت اور فعال نوجوانوں کو گرفتار کیا۔ اس اقدام کا مقصد یہ تھا کہ تسلط سے دلبرداشتہ آزادی کی جدوجہد کرنیوالے کشمیریوں کے ردعمل سے بچا جا سکے۔ مقبوضہ کشمیر پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کیلئے قابض سرکار سیاسی انجینئرنگ نئی غیرقانونی آبادیوں کا قیام،سماجی اقتصادی اور معاشی قتل، ثقافت کو مسخ کرنے کی کوشش،میڈیا پر پابندی،قانون کا احترام نہ کرنے سمیت کئی گھناؤنے اقدامات میں مصروف ہے۔ مودی سرکار کی جانب سے کشمیر میں ہندوؤں کی سیٹیں بڑھانیاورمسلم ووٹ بینک کو تقسیم کرنے کیلئے نئی حد بندی کی گئی۔ بھارت کی جانب سے کی گئی ان حلقہ بندیوں کو علاقائی مرکزی دھارے کے تمام رہنماؤں نے مسترد کردیا ہے۔  5 اگست کو آرٹیکل 370 اور آرٹیکل 35 اے کے غیرقانونی اقدام کے خلاف بھارتی سپریم کورٹ میں 80 سے زائد درخواستیں دائر ہو چکی ہیں۔ اطلاعات کے مطابق انتخابی فہرست شائع ہو چکی ہے جس کے مجموعی اضافے میں 60 فیصد سے زیادہ غیر علاقائی افراد ہیں۔ ہندوستان نے گھناؤنی چال چلتے ہوئے 5 اگست کے بعد وادی میں پہلے سے موجود سیاسی قوتوں کو کمزور کرنے کیلئے 7 نئی سیاسی جماعتیں بنائیں۔ یہ پارٹیاں مسلم اکثریتی چناب ویلی اور جموں کے علاقوں میں مسلمان ووٹرز کو کمزور کرنے اور ان میں تقسیم پیدا کرنے کیلئے بنائی گئیں۔ بھارت نے سیاسی سرگرمیاں محدود کرنے کیلئے بنائے گئے یو اے پی اے ایکٹ کے تحت حریت رہنماؤں کو قیدوبند کی صعوبتوں میں مبتلا کیا اور 3 حریت رہنمائوں کو دوران حراست قتل کیا۔ غیر جانبدار رپورٹس کیمطابق کشمیر کے مقامی بڑے کاروبار تباہ ہورہے ہیں اور دو سال کے لاک ڈاؤن کے دوران مقامی معیشت کو یومیہ 367 کروڑ روپے کا نقصان ہوا۔ کشمیریوں کی معاشی آزادی کو محدود کرنے کیلئے بھارت وادی میں خاص طور پر چاول کی کاشت میں بھی رکاوٹیں پیدا کر رہا ہے۔ اسکے علاوہ جموں سری نگر ہائی وے پر سیب کے ہزاروں ٹرک روک کر ان میں موجود سیب ضائع کیے گئے ان اقدامات کی وجہ سے کشمیری نوجوانوں میں بے روزگاری 0.5 ملین افراد تک جا پہنچی ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں غیر انسانی سماجی پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں جائیداد کی خریدوفروخت کا قانون پیروں تلے روندتے ہوئے مودی سرکار نے غیر مقامی افراد کو زمین الاٹ کرنے کیلئے راہ ہموار کر دی ہے۔ اس سلسلے میں متنازعہ علاقہ ہونے کے باوجود غیر مقامی افراد سے زمینوں کی خریداری کیلئے درخواستیں طلب کی گئی ہیں۔ انکے جواب میں 4500 غیرمقامی افراد نے زمین خریدنے کی درخواست دی مودی سرکار نے مقبوضہ کشمیر کے اکثر علاقوں کو اسٹریٹیجک ایریا قرار دے کر قابض افواج کو زمینوں پر قبضے کا اختیار دیا ہے۔ وادی میں غیرمقامی افراد کیلئے 60 ہزار کنال پر مشتمل لینڈ بینک بنایا جارہا ہے۔ 2.5 ملین سے زیادہ غیر علاقائی افراد جنہیں ووٹ کا حق دیا جا رہا ہے۔ انہیں آبادیاتی تبدیلی کیلئے ڈومیسائل بھی دیا جائے گا۔ ظالمانہ کاروائیاں جاری رکھتے ہوئے مودی سرکار نے 1000 سرکاری ملازمین کو شارٹ لسٹ کیا ہے جنہیں حریت سے روابط کی وجہ سے نوکریوں سے برطرف کیا جا رہا ہے۔ اب تک 1026 ملازمین کو فارغ کیا جا چکا ہے،جبکہ 60000 خاندانوں کو شارٹ لسٹ کرکے انہیں بنیادی انسانی حقوق سے محروم کرتے ہوئے پاسپورٹ اور نوکریوں سے محروم کردیا جائیگا۔ انتظامیہ نے جعلی اور ملک مخالف خبروں کا نام دے کر میڈیا پر کریک ڈاون جاری رکھا ہوا ہے۔ نہ صرف اخبارات کی سخت جانچ پڑتال کی جارہی ہے بلکہ ان کے دفاتر کا محاصرہ اور تلاشی کی کارروائیوں کی کوریج کی اجازت بھی نہیں ہے۔ حریت رہنماؤں کو بالخصوص اور جموں کے مسلمانوں کو بالعموم دبانے کے لیے قابض بھارتی فوج اور پولیس نے جموں کے تمام 10 اضلاع کے دیہات میں ویلیج ڈیفنس گارڈز کی گھناؤنی حکمت عملی بنائی ہے۔ بھارتی سرکار کی جانب سے مساجد کو مندروں میں بدلنے کی مذموم کارروائیاں کی جا رہی ہیں۔ اسکے علاوہ جموں میں مندر کی تعمیر کے لیے 6 ایکڑ اراضی مختص کی گئی ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں 85 تاریخی مقامات کے نام تبدیل کر دیے گئے ہیں اور سرکاری زبانوں کی فہرست میں ہندی کا اضافہ اور نصاب میں تبدیلی کی گئی ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں ا?ئی اے ایس کوٹہ کو 50 فیصد سے کم کرکے 33 فیصد کردیا گیا ہے اور پرنسپل سیکرٹریز میں 20 میں سے 16 ہندومذہب سے تعلق رکھتے ہیں مقبوضہ کشمیر میں جہاں ریاست کے اپنے قوانین موجود تھے ہندوستان نے 890 مرکزی قوانین لاگو کرکے 205 ریاستی قوانین منسوخ کیے جبکہ 135 ریاستی ایکٹس میں ردوبدل کیا۔ ان تمام اقدامات کا مقصد مقبوضہ کشمیر کی شناخت کو مسخ کر کے بھارتی تسلط میں مزید شدت لانا ہے۔5 اگست 2019ء کے بعد سے بھارت "اے ایف ایس پی اے" اور "پی ایس اے" جیسے  کالے قوانین کو کشمیری عوام کے استحصال کیلئے استعمال کر رہا ہے۔ ریاستی تحقیقاتی ایجنسی ایس آئی اے کی مدد سے عوام کو مزید ہراساں کرنے کیلئے انتظامیہ کو اضافی اختیارات دے دیے گئے ہیں۔ بھارت کشمیر کی آزادی کی جدوجہد کے مقامی کرداروں کو بدنام کرنے کیلئے جھوٹے اور جعلی آپریشنز اور مقابلے کر رہا ہے۔اس سلسلے میں مقبوضہ کشمیر میں ضیاء مصطفی اور محمد علی حسین کے قتل کے واقعات نمایاں ہیں۔انسانیت کی تذلیل کرتے ہوئے جعلی مقابلے میں شہید نوجوانوں کی میتیں نہ انکے لواحقین کے حوالے کی جاتی ہیں اور نہ ہی جنازے کی اجازت دی جاتی ہے۔قابض افواج کی جانب سے محاصرے اور تلاشی کی کارروائیوں کے دوران کیمیائی اور بھاری ہتھیاروں کا استعمال کیا جاتا ہے۔اسکے علاوہ بھارتی فورسز کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں انسانوں کو ڈھال کے طور پر استعمال کرنا معمول بن چکا ہے۔یاسین ملک کو تحریک کی حامی سرگرمیوں پر این آئی اے عدالت نے عمر قید کے ساتھ 10 لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی ہے۔ انسانی حقوق کے کارکنوں اور صحافیوں کو نشانہ بناتے ہوئے آئے روز گرفتار کیا جا رہا ہے۔قابض حکومت نے 60 صحافیوں پر بیرون ملک جانے اوربین الاقوامی میڈیا سے بات چیت پر پابندیاں لگا رکھی ہیں جبکہ انسانی حقوق کے متحرک کارکن خرم پرویز کو زیر حراست رکھا ہوا ہے۔ حال ہی میں بھارت نے ایک عوامی نوٹس جاری کیا ہے جس میں کشمیری طلباء کی پاکستان کے اداروں سے حاصل کی گئی ڈگریوں کو تسلیم نہ کرنے پر دھمکی دی گئی ہے قانون کو مقبوضہ عوام کیخلاف بطور ہتھیار استعمال کرنے کی وجہ سے وادی میں خوف و ہراس کے ساتھ ساتھ بھارت کے خلاف نفرت دن بدن بڑھتی جا رہی ہے۔
٭…٭…٭

ای پیپر-دی نیشن