سینٹ : بغیر وارنٹ گرفتاری ختم ، آفیشل سیکرٹ ایکٹ منظور ، عمران کی گرفتاری پر اپویشن کا احتجاج
اسلام آباد(خبر نگار) آفیشل سیکرٹ ایکٹ ترمیمی بل 2023 سینیٹ میں پیش کردیا گیا جس میں سے حکومت نے انٹیلی جنس ایجنسیوں کی وارنٹ کے بغیر گرفتاری کی شق واپس لے لی۔حکو مت نے سینیٹ میں پیش کیا جانے والا پر تشدد انتہا پسندی روک تھام بل 2023 اتحادیوں سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کے شدید احتجاج کے بعد واپس لے لیا ۔ وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے بل واپس لینے کی تحریک پیش کی جس کے بعد ایوان نے بل کثرت رائے سے منظور کرلیا ۔ وزیر اعظم کی ہدایت پر یہ بل واپس لے رہے ہیں۔ایوان میںہائر ایجوکیشن کمیشن ترمیمی بل 2023 ایوان سے کثرت رائے سے منظورکرلیا گیاسینیٹر سلیم مانڈوی والا کی پیش کردہ ترامیم کو بل کا حصہ بنا لیا گیاترمیم کے تحت چاروں صوبوں سے بورڈ میں ایک ایک ممبر لیا جائے گا، پیپلزپارٹی اور اے این پی، جے یوآئی نے ہائیرایجوکیشن کمیشن بل کی مخالفت کی ، یوسف رضا گیلانی نے پارٹی کا ساتھ نہیں دیا بل کے حق میں 23اور مخالفت میں 16ووٹ آئے۔پاکستان انٹرنیشنل کارپوریشن ترمیمی بل 2023 ایوان سے منظوربل ایوان میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے وزیر ہوا بازی کی طرف سے پیش کیا جسے منظور کر لیا گیا، زکو و عشر ترمیمی بل 2023 بھی سینیٹ نے منظور کرلیاوزیر مملکت قانون وانصاف شہادت اعوان نے شازیہ مری کی طرف سے بل ایوان میں پیش کیا۔ سینیٹ اجلاس میں پی ٹی آئی سینیٹرز نے پہلے چیئرمین پی ٹی آئی کی گرفتاری کیخلاف واک آوٹ کیا بعد ازاں بازووں پر سیاہ پٹیاں باندھ کر شرکت کی۔ سینیٹر کامران مرتضی نے ڈیجیٹل مردم شماری میں بلوچستان کی آبادی کم دکھانے پر احتجاجا سینیٹ سے واک آوٹ کیا، اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے دیگر سینیٹرز نے بھی واک آوٹ کیا۔ جنہیں وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ گئے اور انہیں منا کر واپس ایوان میں لائے۔اتوار کو سینیٹ کا اجلاس چئیرمین سینیٹ صادق سنجرانی کی صدارت میں ہوا،سینیٹ اجلاس کے دوران وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے وزیر داخلہ کی جانب سے بل ایوان میں پیش کیا، انہوں نے کہا کہ اعتراض 2 باتوں پر تھا کہ گرفتاری کا اختیار بغیر وارنٹ کے ایجنسیوں کو دیا گیا تھا، اب یہ اعتراض ختم کر دیا گیا ہے، بغیر وارنٹ کے گرفتاری والی شق واپس لے لی گئی۔ کچھ الفاظ پر اعتراضات سامنے آئے تھے، ان کو بھی تبدیل کر دیا گیا ہے۔اعظم تارڑ نے بتایا کہ غیر ملکی ایجنٹ کے ساتھ غلطی سے رابطے میں رہنے کو جرائم کی فہرست سے نکال دیا گیا ہے جب کہ بل کے ذریعے ایف آئی اے اور ڈی جی ایف آئی اے کے اختیارات بڑھائے گئے ہیں۔ انٹیلی جنس ایجنسیز کے اہلکاروں کی شناخت ظاہر کرنا جرم ہے۔اس موقع پر نیشنل پارٹی کے سینیٹر طاہر بزنجو نے کہا کہ چونکہ اس بل میں سے بغیر وارنٹ گرفتاری کا اعتراض ختم کر دیا گیا ہے تو ہمیں اس بل پر اعتراض نہیں ہے۔سینیٹر کامران مرتضی نے کہا کہ ا بم بلوچستان پر گرادیا اور صوبے کی آبادی 64 لاکھ کم کردی۔جے یو آئی سینیٹر نے مزید کہا کہ میرے صوبے کی آبادی بڑھنے کے بجائے کم ہو گئی ہے۔بلوچستان کی 7،5 سیٹیں بڑھ جاتیں تو کیا ہو جاتا؟ میں احتجاجا ایوان سے واک آٹ کرتا ہوں ۔ وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ اس حوالے سے اجلاس میں مولانا اسد محمود موجود تھے، مردم شماری والی ٹیم نے 2 گھنٹے بریفنگ دی تھی جس کے بعد متفقہ طور پر یہ فیصلہ کیا گیا۔
وزیر خزانہ اسحق ڈار نے ایوان میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں بلوچستان کے وزیراعلی اور جے یوآئی(ف)کے مولانا اسد محمود بھی موجود تھے۔ مردم شماری کی تمام تفصیلات صوبوں کو بھجوا دی گئی ہیں، پورا ریکارڈ دیکھ کر مردم شماری ہوئی ہے، ڈیجیٹل مردم شماری کا فیصلہ گزشتہ حکومت کرکے گئی ہے، قوم کا 34 ارب روپے خرچ ہوا ہے۔اسحاق ڈار نے کہا کہ ایک سابق وزیر کے بیان کی وجہ سے پی آئی اے کو ابھی تک نقصان کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، پی آئی اے کی لینڈنگ کی وجہ سے سالانہ 71 ارب کا نقصان ہو رہا ہے۔ اس سال بھی 110 ارب روپے کا پی آئی اے کو نقصان کا خدشہ ہے۔، ہم چاہتے ہیں کہ اسٹیل مل کا کچھ کیا جائے۔سینیٹر رضا ربانی نے سینیٹ اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ سی سی آئی کے فیصلے کے بعد انتخابات 4، 5 ماہ آگے چلے جائیں گے، انتخابات آگے گئے تو یہ آئین کی خلاف ورزی ہوگی۔ انتخابات 60یا 90 روز میں ہونے تھے وہ اب شاید ملتوی ہوجائیں۔ اعظم نذیر تارڑ نے ایوان میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے حلقہ بندیوں کا فیصلہ الیکشن کمیشن پر چھوڑا ہے ۔ سینیٹر سیف اللہ ابڑو نے حکومت پر سخت تنقید کی، اس دوران سینیٹ میں عمران خان زندہ آباد کے نعرے بھی لگائے گئے۔سینیٹ اجلاس میں پی ٹی آئی سینیٹرز نے پہلے چیئرمین پی ٹی آئی کی گرفتاری کیخلاف واک آوٹ کیا بعد ازاں بازووں پر سیاہ پٹیاں باندھ کر شرکت کی۔ پی پی سینیٹر بہرہ مند تنگی نے کہا پہلے بھی کہا تھا کہ چیئرمین پی ٹی آئی لیڈر نہیں ہے۔ اگر وہ لیڈر ہوتے تو ان کی حکومتیں برقرار رہتیں انہوں نے اپنی بے وقوفی سے اپنی حکومتوں کا خاتمہ کیا۔بعد ااں سینیٹ کا اجلاس آج سہہ پہت تین بجے تک ملتوی کر دیا گیا۔