رضوانہ تشدد کیس ، ضمانت منسوخی پر جج کی اہلیہ گرفتار
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت) ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ کے جج فرخ فرید نے رضوانہ تشدد کیس میں ملزمہ کی درخواست ضمانت کی سماعت کی تو ملزمہ سومیہ عاصم وکلا کے ساتھ عدالت پیش ہوئی۔ وکیل صفائی نے کہا سومیہ عاصم کے خلاف من گھڑت کہانی بنائی گئی ہے۔ ملزمہ کی عبوری ضمانت میں توسیع کی جائے۔کیا تفتیشی افسر نے وقوعہ کی ویڈیو حاصل کی؟۔ جج فرخ فرید نے ریمارکس دیئے کہ تاحال کوئی دلیل درخواست ضمانت میں توسیع کرنے کیلئے کافی نہیں۔ پراسیکیوشن نے ملزمہ سومیہ عاصم کی ضمانت خارج کرنے کی استدعا کی۔ جج فرخ فرید نے ریماکس میں کہا تاحال کوئی دلیل درخواست ضمانت میں توسیع کرنے کیلئے کافی نہیں۔ ملزمہ ہرحال میں کیس میںشامل تفتیش ہونے کی پابند ہے۔ وکیل نے کہا کیا تفتیشی افسر نے وقوعہ کی ویڈیو حاصل کی؟۔ وکیل صفائی نے کہا مقدمے کی پہلی 5 لائنیں ہی جھوٹ پر مبنی ہیں۔ جج نے کہا کہ میں یہاں ٹرائل کے لئے نہیں بیٹھا آپ ضمانت پر دلائل دیں۔ وکیل صفائی نے کہا کل آخری دن ہے پھر وہ ویڈیو کا ڈیٹا ختم ہو جائے گا، پھر کہا جائے گا کہ پتہ نہیں یہ اس کیمرے کی ویڈیو ہے یا نہیں۔ عدالت نے تفتیشی افسرکو ویڈیو لانے کی ہدایت کی کمرہ عدالت میں متاثرہ لڑکی کی بس سٹاپ کی ویڈیو لیپ ٹاپ پر چلائی گئی۔ ویڈیوکے مطابق متاثرہ لڑکی اور سومیہ عاصم بس سٹاپ پر موجود تھے، متاثرہ لڑکی خود گاڑی کا دروازہ کھول کر اترتی ہے۔ ملزمہ کے وکیل نے کہا کہ سومیہ عاصم کےخلاف من گھڑت کہانی بنائی گئی ہے۔ تفتیشی افسر نے سرگودھا میں بس سٹینڈ کی ویڈیو نہیں لی۔ پراسیکیوشن نے عدالت کو بتاےا کہ ملزمہ نے اپنے بیان میں کہا کہ بچی ان کے گھرکوئی کام نہیں کرتی تھی، اس کے والدین کو امداد کے طور پر60 ہزار روپے شوہر کے ایزی پیسہ اکاﺅنٹ سے بھیجے تھے۔ صومیہ عاصم کا کہنا تھا کہ بچی پر کوئی تشدد نہیں کیا اسے سکن الرجی تھی، سر پر چوٹ کیسے لگی ہمیں معلوم نہیں۔ وکیل صفائی نے کہا کہ سومیہ عاصم پر الزام لگایا کہ بچی کو تیزاب پلایا گیا، بچی کو بس سٹینڈ پر چھوڑنے سومیہ عاصم گئیں تو انہیں پھنسایا گیا۔ واقعہ کا پلان آخر کس کے کہنے پر بنایا گیا؟۔ پولیس نے سائڈ پلان کی تفتیش کرنے کی زحمت نہیں کی۔ انہوں نے کہا کہ تفتیشی افسر نے واقعے میں ملوث دیگر افراد کا بیان ریکارڈ کرنا گوارہ نہیں کیا، سائڈ پلان میں تین چشم دید گواہ ہیں جنہوں نے بچی کی اصل حالت دیکھی ہے، تینوں چشم دید گواہ سومیہ عاصم کے گھر موجود تھے ہی نہیں، جو کہانی بنائی گئی وہ تو جھوٹی ثابت ہورہی ہے، کون سا کیس رہتا ہے پھر۔ وکیل صفائی نے کہا کہ 7 جولائی کو مالی نے دیکھا بچی باغیچے میں مٹی کھا رہی تھی، الرجی اسی وجہ سے ہوئی، مٹی کھانے کی عادت سے بچی کو الرجی ہوئی جس کی دوائی بھی لے کر دی، فارمیسی کی سلپ بھی موجود ہے جہاں سے جِلد کی الرجی کی دوائی لے کر دی۔ انہوں نے دلائل دیے کہ ملزمہ سومیہ عاصم کے خلاف ڈرامہ دراصل سرگودھا میں بنایا گیا، تفتیشی افسر کو آخر سومیہ عاصم کی گرفتاری کیوں درکار ہے؟ سومیہ عاصم سے کیا برآمد کرنا ہے؟ کچھ ہے ہی نہیں۔ وکیل صفائی نے کہا کہ سومیہ عاصم شاملِ تفتیش ہونے کے لیے ہروقت تیار ہیں، وکیل صفائی کے دلائل مکمل ہو گئے۔ مدعی وکیل نے دلائل موقف اپنایا کہ تفتیشی افسر کو ڈکٹیٹ نہیں کیا جاسکتا کہ تفتیش کیسے کرنی ہے، عدالت بھی تفتیشی افسر کو کوئی ڈائریکشن نہیں دے سکتی۔ مدعی وکیل نے کہا کہ کس بنیاد پر سومیہ عاصم اپنی ضمانت میں توسیع مانگ رہی ہے، کیا عورت کوئی بھی جرم کرلے اور اس کو ضمانت دے دی جائے؟ اگر عورت کو ایسے ہی ضمانتیں ملتی رہیں تو معاشرہ ختم ہوجائے گا۔ جج فرخ فرید نے ریمارکس دیے کہ مرحوم پرویز مشرف کے دور میں ایسا ہی ایک کیس ہوا تھا۔ مدعی وکیل نے کہا کہ الزام لگایا گیا کہ بچی کے والدین نے بلیک میل کیا، کیوں ہوئے بلیک میل؟۔ حقیقت یہ ہے کہ بچی کے والدین سے رابطہ کیا گیا اور پیسوں کی آفر کی گئی، بچی کی طبی رپورٹ کو تو آج تک سومیہ عاصم کے وکلا نے چیلنج نہیں کیا۔ مدعی وکیل نے کہا کہ اتنے زیادہ زخم ہیں، کیا کوئی والدین اپنی بیٹی کو اتنا زخمی کر سکتے ہیں؟۔ کوئی اتنا تشدد کرسکتا ہے لیکن کبھی کوئی ماں باپ اپنی بیٹی پر اتنا تشدد نہیں کرسکتے۔ بچی رضوانہ پر ایک بار نہیں، کئی بار تشدد کیا گیا، بچی کے کچھ زخم بھر گئے، کچھ بھر رہے ہیں۔ مدعی وکیل نے کہا کہ کم سن بچی رضوانہ کی عمر 13 سے 14 سال ہے، قانون کے مطابق کم سن بچی کو ملازمہ رکھنا ہی ایک جرم ہے، سول جج اور ان کی اہلیہ کو معلوم ہونا چاہیے تھا کہ کم سن ملازمہ رکھنا جرم ہے۔ ماموں اور بچی کی والدہ کا بیان ریکارڈ پر موجود ہے، مدعی وکیل نے اپنے دلائل مکمل کر لئے۔ پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ قانون کے مطابق اگر دلائل پختہ دیے جاتے ہیں تو عورت کو ضمانت نہیں ملتی، طبی رپورٹ کے مطابق بچی رضوانہ کو 14 انجریاں ہوئی ہیں۔ سماعت کے دوران رضوانہ کی والدہ کمرہ عدالت میں آبدیدہ ہوگئیں۔ پراسیکیوٹر نے بتایا کہ وکیل صفائی طبی رپورٹ مانگ رہے، سب کچھ ریکارڈ پر دستیاب ہے، گواہان، طبی رپورٹ، شواہد سب کچھ ریکارڈ پر موجود ہے۔ پراسیکیوٹر نے ملزمہ سومیہ عاصم کی گرفتاری کی استدعا کی۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر بلیک میلنگ ہوتی رہی تو سومیہ عاصم نے پولیس کو رپورٹ کیوں نہیں کیا؟ کیا سومیہ عاصم نے کہیں پولیس کو کال کرکے کہا کہ بچی کے والدین بلیک میل کر رہے ہیں؟۔ انجریوں کو ثابت کرنے کے لیے تشدد کرنے والے آلے کی ضرورت ہے۔ پراسیکیوشن نے ملزمہ سومیہ عاصم کی ضمانت خارج کرنے کی استدعا کی۔ جج فرخ فرید نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد ملزمہ سومیہ عاصم کی درخواست ضمانت مسترد کرتے ہوئے گرفتار کرنے کا حکم جاری کردیا۔ واضح رہے کہ ملزمہ سومیہ عاصم ملازمہ تشدد کیس میں عبوری ضمانت پر تھی جسے عبوری ضمانت مسترد ہونے پر عدالتی حکم پر احاطہ عدالت سے گرفتار کر لےا گےا۔