• news

وزیراعظم میاں شہباز شریف کی الوداعی ملاقات!!!!!!

وزیراعظم پاکستان میاں شہباز شریف کی حکومت رخصت ہونے والی ہے۔ نگران سیٹ اپ آنے والا ہے اور نگران سیٹ اپ کے آتے ہی موجودہ حکومت میں توسیع کے خدشات ختم ہو جائیں گے۔ وزیراعظم میاں شہباز شریف کے مختصر دور حکومت پر بہت زیادہ تنقید اس لیے بھی مناسب نہیں کیونکہ جن حالات میں انہوں نے حکومت سنبھالی اور جس اندرونی و بیرونی مسائل کا انہیں سامنا رہا ان حالات میں چوبیس کروڑ سے زائد انسانوں پر حکومت کوئی آسان کام ہرگز نہیں ہے۔ میاں شہباز شریف کو بہت سے فیصلوں میں مشاورت، مصلحت اور مفاہمت کی ضرورت بھی رہی کیونکہ حکومت میں ایک سے زیادہ جماعتیں شامل تھیں۔ کئی شراکت داروں کے ہوتے ہوئے کام کرنا اور بھی مشکل ہوتا ہے اس کے علاوہ پاکستان تحریک انصاف کی منفی اور شدت پسندی کی سیاست بھی حکومت کے لیے بڑا مسئلہ رہی۔ اس کے ساتھ ساتھ بھارتی سازشیں بھی عروج پر رہیں جب کہ افغانستان کی سرزمین بھی پاکستان کے خلاف استعمال ہوتی رہی۔ جانے والی حکومت کے غلط فیصلوں کا بوجھ بھی میاں شہباز شریف کی حکومت کو برداشت کرنا پڑا۔ آئی ایم ایف معاہدہ سب سے زیادہ محنت طلب اور مشکل کام تھا۔ چونکہ پی ٹی آئی حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ توڑا اور اس خلاف ورزی سے پاکستان کی معیشت کو بے پناہ مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ روپے کی قدر میں کمی آتی رہی، ڈالر بے قابو ہوتا رہا اور یہ صورتحال آج بھی برقرار ہے۔ اسی وجہ سے  مہنگائی کا جن بھی بے قابو رہا آج ملک میں پانچ کلو آٹا لگ بھگ ایک ہزار روپے میں مل رہا۔ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے نے عام آدمی کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ بجلی کے بلوں نے رہی سہی کسر پوری کر دی ہے۔ سوئی گیس ملتی نہیں آنے والی سردیوں میں سوئی گیس کے بل بھی بجلی کے بلوں سے کم نہیں ہوں گے۔ ان حالات میں حکومت نے ووٹرز کو ناراض کر کے ملکی معیشت کو بہتر بنانے کے لیے سخت فیصلے ضرور کیے۔ ان فیصلوں کا حکومت میں شامل جماعتوں کو آئندہ عام انتخابات میں کتنا نقصان ہوتا ہے اس کا فیصلہ تو وقت کرے گا لیکن یہ کہا جا سکتا ہے کہ میاں شہباز شریف اور ان کی اتحادی جماعتوں نے سیاست کے بجائے ملکی ضرورت کو اہمیت ضرور دی ہے۔ ان حالات میں وزیراعظم میاں شہباز شریف نے حکومت سے رخصت ہونا ہے۔ آخری دنوں میں وہ مختلف شعبوں کی اہم شخصیات سے الوداعی ملاقاتیں بھی کر رہے ہیں۔ گذشتہ روز میاں شہباز شریف نے اے پی این ایس اور پی بی اے کے عہدیداروں سے ملاقات کی ہے۔ ملک میں بڑی صحافتی شخصیات اور اہم تنظیموں کے عہدیداروں سے ملاقات میں وزیراعظم نے دل کی باتیں کرتے ہوئے مستقبل کے خطرات کا بھی ذکر کیا ہے۔ میں نے وزیراعظم میاں شہباز شریف کو اس ملاقات میں قریب سے دیکھا ہے اور یہ سمجھتا ہوں کہ اس میں کچھ شک نہیں کہ اگر وزیراعظم یہ کہتے ہیں کہ ہم نے اگر اپنے آپکو نہ بدلا تو بہت مشکل ہو گی۔ یعنی اندھیرا ہے۔ انہوں نے ماضی کے پاکستان اور بھارت کا موازنہ کرتے ہوئے بھی حقیقت پسندی سے کام لیا ہے۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ایک وقت وہ بھی تھا جب پاکستان اور بھارت مختلف شعبوں میں ایک دوسرے کے قریب ہوا کرتے تھے یا پاکستان کئی شعبوں میں بھارت سے بہتر ہوتا تھا۔ دونوں ملکوں کی کرنسی میں بھی زیادہ فرق نہیں ہوتا تھا۔ تجارتی اور صنعتی اعتبار سے دونوں ملک ساتھ ساتھ ہی چل رہے تھے لیکن آج دونوں ملکوں کی صرف ایک ہی شعبے میں برابری پے اور وہ یہ کہ بھارت بھی ایٹمی طاقت ہے اور پاکستان بھی ایٹمی طاقت ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان اور بھارت کا کوئی مقابلہ نہیں ہے۔ اب ہمیں اس بحث میں پڑنے کے بجائے کہ ملک پیچھے کیوں رہا، اس کا ذمہ دار کون ہے۔ اس بحث میں وقت ضائع کرنے کے بجائے ماضی کو بھلا کر،  ذمہ داروں کو ڈھونڈنے اور قوم کا مزید وقت ضائع کرنے کے بجائے متحد ہو کر آگے بڑھنا ہو گا۔ جب تک ہمارا مشترکہ مفاد ملک و قوم کی ترقی اور خود مختاری نہیں ہو گی۔ آگے بڑھنا مشکل ہے۔ اس لیے ہماری بقا صرف اور صرف تجارت میں ہے۔ اب ہمیں کوئی قرض دینے کے لیے بھی تیار نہیں ہوتا۔ ادارے اربوں روپے سالانہ کے خساروں میں ہیں۔ جو کام ہمیں دو دہائیاں پہلے کرنا چاہیے تھے وہ ہم آج کر رہے ہیں۔ پاکستان کا مستقبل صنعتی اور تجارتی ترقی سے جڑا ہوا ہے۔ اب باہر سے قرض نہیں ملنے والا اب اگر کوئی آئے گا تو وہ سرمایہ کاری کرے گا اور اس سرمایہ کاری کو سنبھالنا ہماری ذمہ داری ہے اگر ہم یہ بھی نہ کر سکے تو پھر مشکلات ہی مشکلات ہیں۔ وزیراعظم میاں شہباز شریف نے مختلف معاملات اور مختلف شعبوں کے حوالے سے دل کھول کر بات کی ہے۔ پیمرا ترمیمی بل پر بھی انہوں نے اظہار خیال کیا ہے وہ سمجھتے ہیں کہ اگر سٹیک ہولڈرز متفق ہوتے ہیں تو ملک و قوم کی بہتری کے لیے قانون سازی ضرور ہونی چاہیے۔

ای پیپر-دی نیشن