مہادیو کی عرضیاں
کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے کہ میانوالی میں ایک بھاری بھرکم جلسے سے خطاب کرتے ہوئے اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ کے دریافت اور تعمیر کردہ دانائے راز نے اپنی ایک ماورائی صلاحیت کا انکشاف کیا تھا جسے سن کر ان کے ہزاروں پجاریوں نے فرط مسرت سے بے قابو ہو کر ایسے زبردست نعرے لگائے کہ دھرتی ہل گئی، نیل گگن کانپ اٹھا۔ انکشاف یہ تھا کہ میں تو جہنم کی گرمی بھی برداشت کر سکتا ہوں۔
ان کے پجاری انہیں پہلے ہی دیوتا سمان مانتے تھے اور اس بات پر ایمان رکھتے تھے کہ ان کا دیوتا بے شمار ماورائی صلاحیتوں کا مالک ہے لیکن اس انکشاف کے بعد تو دیوتا سمان گویا مہادیو ہو گئے۔ بس ہر طرف ہر ہر مہادیو ہو گئی۔
______
یہ ’’انکشاف‘‘ بس یونہی یاد آ گیا۔ بہرحال ان دنوں گرمی خوب پڑ رہی ہے۔ 90 فیصد آبادی کا واحد ریلیف چھت کا پنکھا ہے۔ اگرچہ ان کی اکثریت نے اے سی کا نام سن اور تصویر دیکھ رکھی ہے۔ ایسی سخت گرمی میں مہادیو کو اٹک جیل میں بند کرنا توہینِ دیوتانیت سے کم نہیں۔ غنیمت ہے کہ انہیں جیل میں چھت کے پنکھے کے علاوہ، روم ایر کولر اور برف والا پانی دستیاب ہے۔ ان کی کلاس عملاً اے کلاس بنا دی گئی ہے۔ ایر کنڈیشنر کی منظوری مل گی ہے، ایک دو دن میں لگ بھی جائے گا۔ پھر بھی مہادیو نے عرضی ڈال دی ہے کہ انہیں اے کلاس دی جائے اور اٹک کے بجائے اڈیالہ لے جایا جائے۔
مہادیو نے اپنے وکیلوں کے ذریعے پریس کانفرنس بھی کی ہے۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ جیل میں بند کسی مہان ہستی کے وکیل ملاقات کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہیں جو درحقیقت اس مہان ہستی کی ہی پریس کانفرنس ہوتی ہے۔ اس پریس کانفرنس میں مہادیو نے فرمایا کہ تو قوم کی خاطر سی تو کیا ڈی کلاس میں جانے کو بھی تیار ہوں لیکن فی الحال مجھے فوری طور ہر اے کلاس اور اے سی دیا جائے۔ مہادیو نیمزید فرمایا کہ پروا نہیں یہ مجھے ڈال دیں یا کچھ اور کریں لیکن لیکن فی الحال مجھے مٹن اور دیسی چکن اور مزید براں دیسی مرغی کی یخنی ہر صورت درکار ہے، بصورت دیگر میں غلامی قبول کرنے سے انکار کر دوں گا۔ فرمایا کہ میرا مورال بہت ہائی ہے بلکہ سکائی سکریبر ہے لیکن فی الحال مجھے مکھی مچھروں اور کیڑے مکوڑوں سے نجات دلانے کا بندوبست فوری طور پر کیا جائے۔ (نوٹ۔ بندوبست سے مراد یہ قطعی نہ لیا جائے کہ چھپکلیوں کی خدمات حاصل کی جائیں)۔
_____
مہادیو نے یہ دلچسپ پیشکش بھی کی ہے کہ حقیقی آزادی کی خاطر میں تمام عمر جیل میں رہنے کو تیار ہوں۔ لیکن اس پیشکش کے ساتھ انہوں نے یہ درخواست بھی کر دی ہے کہ سزا کا فیصلہ معطل کرکے مجھے فوراً رہا کیا جائے۔ واضح رہے کہ پیشکش اور درخواست میں فرق ضرور ہوتا ہے لیکن دونوں کو بیک وقت کرنے میں کچھ مضائقہ ہے نہ تضاد۔
_____
آج اسمبلیاں ٹوٹ جائیں گی لیکن الیکشن 90 روز میں ہوتے نظر نہیں آتے۔ نئی مردم شماری کی منظوری کے بعد یہ مارچ ہی میں ہو سکیں گے۔ ایسا لگ رہا ہے
یعنی پانچ چھ مہینے کی تاخیر ہو جائے گی۔ بہت سے لوگ اس تاخیر کو مسترد کر دیں گے، بہت سے قبول کر لیں گے لیکن تاخیر اس سے بھی زیادہ ہو گئی تو بڑے نقصان کا اندیشہ ہے۔ امید غالب یہی ہے کہ الیکشن مارچ سے آگے نہیں جائیں گے۔
الیکشن لڑنے کی تیاری پیپلز پارٹی نے بھی کر رکھی ہے اور جے یو آئی نے بھی۔ دیگر کو بھی اسی زمرے میں رکھ لیا جائے لیکن مسلم لیگ کہیں نظر نہیں آتی۔ شہباز شریف اور اسحاق ڈار نے مل کر مسلم لیگ کو ایسی چار چوٹ کی مار ماری ہے کہ وہ نظر آنے کے قابل شاید رہی ہی نہیں۔
اس کی واحد امید یہ ہے کہ پی ٹی آئی تو میدان میں ہے ہی نہیں، ہم واحد آپشن، کم از کم پنجاب میں، ہوں گے چنانچہ سب خیر ہے۔
ایک کیفیت ووٹر کی کبھی کبھار ایسی ہو جاتی ہے جس کی وضاحت کیلئے یہ محاورہ استعمال کیا جاتا ہے کہ ’’میں کالے چور‘‘ کو ووٹ دے دوں گا، فلاں کو نہیں نہیں دوں گا‘‘۔
کالا چور تو پتہ نہیں کیسا ہوتا ہے لیکن میدان میں پنجاب کی’’پاک سرزمین شاد باد پارٹی بنام استحکام پاکستان پارٹی ضرور موجود ہے۔ شہباز شریف کی پالیسیوں سے ناکوں ناک ’’اکّے‘‘ ہوئے ووٹر اس شاد باد پارٹی کا رخ کر سکتے ہیں، اس بات کو دائرہء امکان میں ہر صورت شامل رکھا جائے۔
شہباز شریف اور اسحاق ڈار نے غریبوں اور مڈل کلاس کا کچومر یہ کہہ کر نکالا کہ آئی ایم ایف کا حکم ہے۔ لیکن آئی ایم ایف کے نکاح نامے میں یہ شرط تو کہیں نہیں تھی کہ ایلیٹ کلاس کو جھولیاں بلکہ بوریاں بھر بھر کے دو۔
موجودہ حکومت (جو آج نہیں تو شاید کل تک سابق ہو چکی ہو گی) کا رول ماڈل نہ نواز شریف تھے نہ بے نظیر تھیں، بلکہ پرویز مشرف تھے۔
پرویز مشرف کا ’’ڈاکٹرائن ‘‘ یہ تھا کہ غریب اور لوئر مڈل کلاس کو تعلیم کی اور علاج کی کوئی ضرورت نہیں۔ چنانچہ انہوں نے ناقابل تصور فیس لینے والے نجی تعلیمی اداروں اور ہسپتالوں کا مافیا متعارف کرایا۔ متعارف کرانے کو ’’نافذ‘‘ کرنا بھی کہہ سکتے ہیں۔
شہباز حکومت جاتے جاتے مزید 31 مافیا یونیورسٹیوں کی منظوری کا تحفہ دے گئی۔ اچھا ہوتا، سرکاری شعبے کی تمام یونیورسٹیاں بند کرنے کا نوٹیفکیشن بھی کر جاتی۔ مال خانے کو سال کے اربوں روپے بچ جاتے۔
_____
جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خاں نے ایوان میں ایک دل ہلا دینے والی تقریر کی ہے اور کئی سوالات ایسے پوچھے ہیں جنہیں نقل کرنا بھی مشکل ہے۔ اخبارات میں بھی ان کی تقریر رپورٹ نہیں ہوئی ، ہاں سینٹ کی کارروائی کی خبر کے ’’بقیہ‘‘ کے متن میں شامل ہے، کسی حد تک۔
ایک سوال یہ تھا کہ ساری دہشت گردی دو مغربی صوبوں ہی میں کیوں ہو رہی ہے۔ کیا دریائے سندھ ’’بارڈر‘‘ ہے۔ اس کا درست جواب یا تو پرویز مشرف دے سکتے ہیں لیکن وہ دستیاب نہیں ہیں کیونکہ پرلوک سدھار گئے۔ ان دونوں صوبوں کو حوالہ آتش و بارود کرنے کے لیے انہوں نے ارب ہا ڈالر اپنے کرم فرمائوں سے وصول کئے تھے‘ افسوس یہ قارون کا خزانہ ان کی بیماری کے علاج میں ذرا بھی کام نہ آ سکا۔ دوسرے صاحب رشک کمر باجوہ صاحب ہیں۔ انہوں نے اس آگ کو فزوں کیا۔ وہ ابھی پرلوک نہیں سدھارے لیکن پتہ نہیں، جواب دہی کے لیے دستیاب ہیں یا نہیں؟