بدھ‘ 21 محرم الحرام 1445ھ ‘ 9 اگست 2023ئ
پٹڑی کے جوڑ میں لوہے کی جگہ لکڑی استعمال ہوئی۔میڈیا رپوٹ
یہ ہے ہمارے محکمہ ریلوے کی وہ غفلت اور بدانتظامی جو حادثات کا باعث بنتی ہے۔مگر بار بار حادثات کے باوجود اس طرف توجہ نہیں دی جاتی۔ ایسی تمام رپورٹوں کو داخل دفتر کیا جاتا ہے اور انکوائری رپورٹ تیار کرنیوالے کو ٹرانسفر یا معطل کیا جاتا ہے۔ محکمہ اپنے سر پر کوئی الزام لینے کو تیار نہیں ہوتا۔ سارا الزام نامعلوم افراد یا تخریب کاری پر ڈال کر سب اپنی اپنی گردن بچاتے پھرتے ہیں۔ اب بھی وزیر ریلوے سعد رفیق کو دیکھ لیں وہ وہی روایتی بیانات دیتے پھر رہے ہیں۔ کہ ٹیکنیکل فالٹ تھا۔اگرایسا ہی تھاتو ریلوے ٹریک کی دیکھ بھال کرنے والے کہاں مر کھپ گئے ہیں جنہیں پتہ بھی چلتا کہ ٹھیکیدار پٹڑی میں لوہے کی جگہ لکڑی کے جوڑ استعمال کر کے آگے سارا معاملہ خدا پر چھوڑ دیتا ہے کہ ویسے بھی تو سارا ملک خدا کی مہربانی سے چل رہا ہے تو ریلوے بھی چلتا رہے گا۔ دنیا بھر میں ریلوے ایک بہترین سفری نظام متصور ہوتا ہے۔ انگریز ایک بہترین ریلوے نظام اور ریلوے ٹریک چھوڑ کر گئے تھے۔ ہم نے اسے بہتر بنانے کی بجائے اس کو تباہ کرنے اور بیچ کر کھانے کے علاوہ کچھ نہیں کیا باقی ساری کہانیاں چھوڑیں ابھی تک ہم ملک بھر میں ڈبل ریلوے ٹریک ہی تعمیر نہ کر سکے۔ اب سی پیک کے تحت ریلوے ٹریک بنانے کی تیاریاں ہیں کیا کہیں یہ حادثات اس کو ناکام بنانے کے لیے ہمارے کرپٹ مافیاز خود تو نہیں کروا رہے جیسے سی پیک روڈ پلان ایکٹو ہونے کے بعد شمالی علاقہ جات میں حادثات کی شرح اچانک بڑھ رہی ہے۔ یہ سوچنے کی بات ہے۔ ذرا اس پر بھی دھیان دیا جائے۔ حقائق سامنے لائے جائیں۔
٭٭٭٭٭
سراج الحق کی شریفوں اور زرداریوں پر کڑی تنقید
اس وقت جماعت اسلامی کے رہنما سراج الحق پورے جوبن پر ہیں۔ آئے روز کبھی یہاں کبھی وہاں جلسے کر رہے ہیں۔حکومت اور اپوزیشن کو تو ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے سے ہی فرصت نہیں وہ ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے میں مصروف ہیں۔ اس کے برعکس جماعت اسلامی کے سربراہ نہایت مہارت سے اپنے جلسوں میں ان دونوں کے لتے لے رہے ہیں۔ انہوں نے تو جس طرح کھل کر شریف خاندان اور زرداری خاندان کا نام لے کر ان پر سرعام الزامات کی بوچھاڑ شروع کر دی ہے اس سے سابق وزیر اعظم کی خوش بیانی کی یاد تازہ ہو گئی ہے وہ بھی شریف اور زرداری خاندان کواسی طرح تمام برائیوں کی جڑ قرار دیتے تھے۔ ان کی تو چلیں عادت تھی مگر سراج الحق ایک مذہبی سیاسی جماعت کے سربراہ ہیں۔ ان سے ایسی زبان ایسا بیان س±ن کر بہت سے سنجیدہ حلقوں کو حیرت ضرور ہو رہی ہے کہ یہ جماعت بھی اب سیاسی لفظی بازیگری پر اتر آئی ہے۔ آخر کیا بات ہے کہ گزشتہ کئی دہائیوں سے جماعت اسلامی بھی سیاسی میدان میں موجود ہے۔ مگر اس پر ابھی تک عوام نے اعتماد کا اظہار نہیں کیا۔ خیبر پی کے میں وہ شامل حکومت بھی رہی۔ مرکز میں بھی کئی بار حکومت کی خوشہ چینی کرتی رہی۔ پھر بھی وہ ووٹ حاصل کرنے سے محروم کیوں ہے۔ قومی اسمبلی میں پارٹیوں کی نشستوں کی ترتیب سے تو تیسری جماعت پی ٹی آئی ہے۔ اس وقت سراج الحق نے ان پر ہاتھ ہلکا رکھا ہے۔ شاید آئندہ الیکشن میں جماعت اسلامی، پی ٹی آئی کا ہاتھ تھام کر الیکشن میں آ سکتی ہے۔ اسی لیے نرم رویہ رکھا ہوا ہے۔ ورنہ جے یو آئی بھی مذہبی جماعت ہے یہ سب مل کر پہلے کی طرح کوئی اتحاد بھی بنا سکتی ہیں۔ اس میں کوئی قباحت بھی نہیں۔ یہ ایسا کیوں نہیں کرتے۔
٭٭٭٭٭
گڑ گاﺅں ہریانہ میں ہندو مہا پنچایت کا مسلمانوں کے سماجی بائیکاٹ کا اعلان
یہ وہ انتہا پسند لوگ ہیں جو خود ہی قتل کرتے ہیں اور خود ہی الٹا ثواب کمانے کے چکر میں بھی لگے رہتے ہیں۔ معاملہ کیا تھا کیا بنایا جا رہا ہے۔ کیا یہ علامہ اقبال اور قائد اعظم کے دو قومی نظریہ کی فتح نہیں جو سر سید احمد خان سے لے کر 1947ءتک مضبوط بیانیہ بن کر سامنے آیا کہ ”ہندو اور مسلمان دو علیحدہ قومیں ہیں“ کل تک ہندو مل کر اس نظرئیے کی مخالفت کرتے پھرتے تھے۔ ڈٹ کر اس کے خلاف اکھنڈ بھارت کا راگ الاپتے تھے۔ مگر یہ حقیقت آج سب کے سامنے ہے۔ گڑ گاﺅں میں مسلمانوں کے گھر دکانیں گاڑیاں جلائی گئیں انہیں قتل کیا گیا۔ بجائے ان کی دادرسی کی جاتی الٹا وہاں کی مہا ہندو پنچایت نے ہندو توا کی منفی ذہنیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے الٹا مسلمانوں کے سماجی بائیکاٹ کا اعلان کر دیا۔ مقصد صرف یہ ہے کہ یہاں کے چند ہزار مسلمانوں کو کسی نہ کسی طریقے سے یہاں سے نکالا جائے کیونکہ ہریانہ کا یہ علاقہ جو دہلی کے قریب ہے مستقبل میں بھارت کا ایک جدید مواصلاتی ٹیکنالوجی سے آراستہ شہر کا روپ دھار رہا ہے اور انتہا پسند ہندو سرمایہ دار اور صنعتکار یہاں کی زمینوں پر قابض ہو کر اپنی ایمپائر کھڑی کرنے کے خواہشمند ہیں وہ ان چھوٹے بڑے مذہبی متشدد گروپوں کو مسلمانوں کے خلاف استعمال کر کے اپنے مکروہ مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ایسی حرکتوں سے مسلمانوں کو خوفزدہ کر رہے ہیں۔ مگر وہ بھول رہے ہیں کہ ہندوستان 20 کروڑ مسلمانوں کی بھی ویسی ہی جنم بھومی ہے جیسی ہندوﺅں کی اور کوئی بھی اپنی جنم بھومی نہیں چھوڑتا۔ اگر چھوڑنی بھی پڑے تو پھر ایک نیا پاکستان وجود میں آتا ہے۔ مستقبل میں بھارت کو فیصلہ کرنا ہو گا کہ اسے نیا پا کستان منظور ہے یا مسلمانوں کو تحفظ دے کر بھارت کو ٹوٹنے سے بچانا ہے۔
٭٭٭٭٭
نگراں وزیر اعظم کا نام پراسرا معمہ بن گیا
شاید جب آپ یہ سطور پڑھ رہے ہوں۔ اگر حکومت ختم ہوتی ہے تو نئے نگراں وزیر اعظم کا نام بھی منصہ شہود پر آ چکا ہو گا۔ بہت سے لوگ شیروانیاں استری بھی کرا چکے ہیں۔ مگر اس تاخیر کی وجہ سے اکثر دل چھوڑ بیٹھے ہیں۔ خبر یہی ہے کہ نون لیگ اور پی پی پی میں جے یو آئی سے مشاورت کے باوجود ابھی تک شیروانی پہننے والے کے نام پر کامل اعتماد نہیں ہو سکا۔ مگر آج تو نگراں حکومت کے قیام سے پہلے یہ نام افشا کرنا ہی پڑے گا۔ ہاں اگر الیکشن کا معاملہ نئی مردم شماری کے حوالے سے چند ایک ماہ تاخیر کا شکار ہوا تو پھر شاید استری شدہ شیروانیاں دوبارہ الماریوں میں لٹکتی نظر آئیں گی۔ دیکھنا ہے آج کھیل میں کونسا موڑ آتا ہے۔ معاملہ یونہی چلتا ہے یا کہانی میں کوئی نیا موڑ آتا ہے۔ لوگ تو یہی دعا کر رہے ہیں جو بھی آئے اچھا ہی آئے عوام کے زخموں پر مرہم لگائے حالانکہ ایسا ممکن نہیں۔ مگر خواب دیکھنے میں کیا برائی ہے۔ سب لوگ اچھی توقعات رکھیں تو کیا معلوم کوئی انہونی ہو جائے اور نگران حکومت 3 ماہ میں الیکشن کے علاوہ کوئی اور اچھا کام بھی کر جائے۔ اس لیے لوگوں کو دعا کرتے رہنا چاہیے۔ ویسے بھی تو ہمارا سارا نظام اوپر والا ہی چلا رہا ہے۔ وہ اگر سن لے تو اب بھی سب کچھ بہتر ہو سکتا ہے۔ گرچہ ہم جانتے ہیں کہ نگرانوں کو ایسا کچھ کرنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ مگر نظام سقہ کی طرح وہ چند روزہ دور حکومت میں کم از کم چام کے سکے تو چلا سکتے ہیں۔