بندوبستی سسٹم کی قبولیت
اقتدار کی راہداریوں اور سیاست بازیوں میں چاہے جو بھی گویڑ لگائے جاتے رہیں اور جو بھی ممکنہ نتائج اخذ کئے جاتے رہیں‘ ایک بات طے ہے بلکہ نوشتہ دیوار ہے کہ قومی سیاست میں اتھل پتھل کرنے والی 2018ءکی اسمبلی اپنی طبعی عمر پوری کرچکی ہے اور آج 9 اگست کو اسکے جی کا جانا ٹھہر چکا ہے۔
اگرچہ اس اسمبلی کی آئینی میعاد 12 اگست کو پوری ہونی ہے مگر سیاسی مفاداتی کھیل تماشے میں دوطرفہ ڈگڈگی بجانے اور ایک دوسرے کے دامن گیر ہونے کے عمل نے اس اسمبلی کی میعاد بھی دو تین دن کم کردی تاکہ یہ قبل ازوقت تحلیل ہواور نگرانوں کو انتخابی عمل میں جانے کیلئے 60 کے بجائے 90 روز کی مہلت مل جائے۔ حالانکہ اس سے فرق تو پڑتا نہیں کوئی۔ نئی منصوبہ بندی تو نئی مردم شماری اور اسکی بنیاد پر نئی حلقہ بندیوں کے تحت انتخابات کرانے کی ہے جس کیلئے الیکشن کمیشن کو ہاتھ کھینچ کر بھی چار سے پانچ ماہ درکار ہونگے۔ اس عرصہ کے دوران نگران سیٹ اپ کی موجیں لگی رہیں گی۔ پھر اسمبلی کا مقررہ آئینی میعاد پوری ہونے پر یا اس سے قبل تحلیل کرنا چہ معنی دارد؟ اگر نئی مردم شماری کی سیڑھی لگا کر انتخابات کو آگے لے جانا تھا تو بھلے لوگو! اسمبلی کی آئینی میعاد ہی پوری کرلیتے تاکہ حکمران اتحادیوں کو مہنگائی کی کند چھری سے عوام کو ذبح کرنے کیلئے مزید دو چار دن کی مہلت مل جاتی اور زیرک سیاست دانوں آصف علی زرداری اور میاں نوازشریف کو ہونہار بلاول کے اس مشورے پر سنجیدہ غور کرنے کے لیئے بھی مزید تھوڑا بہت وقت دستیاب ہو جاتا کہ وہ اس انداز کی سیاست کریں کہ اس سے مستقبل میں مریم اور بلاول کو فائدہ پہنچے۔ یعنی موروثی اقتداری سیاست کی بلے بلے ہوتی رہے۔
آصف علی زرداری اور میاں نوازشریف ایسی باہمی مفاداتی سیاست پر سنجیدہ غور و فکر تو اتحادی حکومت کے قائم رہنے تک ہی کر سکتے ہیں جس کے بعد اپنا اپنا گھوڑا اور اپنا اپنا میدان۔ اپنی اپنی سیاست اور اپنا اپنا کھیل۔ لگے رہو منا بھائی۔ وزیراعظم شہبازشریف تو قومی اسمبلی تحلیل کرنے کی ایڈوائس صدر مملکت عارف علوی کو بھجوا چکے ہیں۔ وہ چاہیں تو اپنے آئینی اختیارات کے تحت اسمبلی کی تحلیل 48 گھنٹے تک روکے رکھیں۔ مگر جناب! وہ کیوں روکیں گے۔ اسمبلی کی قبل از وقت تحلیل تو پی ٹی آئی کی سیاست کا لازمی حصہ ہے۔ اس لئے ایڈوائس آچکی ہے تو آج 9 اگست کی رات تک اسمبلی کا خاتمہ بالخیر ہو جائیگا اور پھر باری آئیگی نگران سیٹ اپ کی تشکیل کی۔ اس کا پہلا مرحلہ نگران وزیراعظم کی نامزدگی کا ہے۔ آئین نے اس کیلئے جو طریق کار متعین کیا ہے‘ اگر تحلیل ہونے والی اسمبلی میں حقیقی اپوزیشن لیڈر موجود ہوتا تو وہ وزیراعظم کو تگنی کا ناچ نچا سکتا تھا۔ آئینی تقاضے کے تحت نگران وزیراعظم کے کسی ایک نام پر وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر متفق ہو جائیں تو اسکے تقرر میں کوئی رکاوٹ ہی نہیں رہتی۔ ان دونوں لیڈروں نے اپنی اپنی طرف سے تین تین نام پیش کرنے ہوتے ہیں جن میں کسی ایک نام پر دونوں لیڈران مشاورت کے پہلے ہی مرحلے میں اتفاق کرلیں تو اسی وقت اقتدار کا ہما اس متفقہ نام والی شخصیت کے سر آن بیٹھے گا بصورت دیگر معاملہ حکومت اور اپوزیشن ارکان کی یکساں نمائندگی والی پارلیمانی کمیٹی کے سپرد ہو جائیگا۔ مقررہ میعاد کے اندر اس کمیٹی میں بھی کسی ایک نام پر اتفاق رائے نہ ہو سکے تو پھر تجویز کئے گئے چھ ناموں میں سے بطور نگران وزیراعظم کسی ایک کے تقرر کا مکمل اختیار الیکشن کمیشن کے پاس چلا جائیگا اور اس کا نامزد کردہ نگران وزیراعظم نگران سیٹ اپ یعنی نگران کابینہ تشکیل دینے میں ذرہ بھر دیر نہیں لگائے گا۔
مگر جناب! خاطر جمع رکھیے! اب کی بار اتنی لمبی چوڑی، کٹھن اور پرتجسس معاملہ کاری کی نوبت نہیں آنیوالی۔ بس جھٹ پٹ کی بات ہے۔ جنہوں نے آئی ایم ایف کے عبوری بیل آﺅٹ پیکیج پر من و عن عملدرآمد کرانا ہے‘وہ اس کیلئے اتحادی حکمرانوں اور ان کے سرپرستوں سے سارے معاملات پہلے ہی طے کراچکے ہیں۔ وہ بگاڑ پیدا کرنیوالی کسی شخصیت کے سر پر تو نگران وزارت عظمیٰ کا تاج نہیں رکھوا سکتے جبکہ یہ وزارت عظمیٰ چلنی بھی بیل آﺅٹ پیکیج کی مدت کی تکمیل تک ہے۔ اب کے ”کھلاڑی“ جیسا کوئی رسک کیوں لیا جائے۔ سو نگران وزیراعظم کیلئے آئی ایم ایف کے مفادات کے رکھوالے ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کے سر پر ہما بٹھانے کی تیاری ہو چکی ہے۔ اللہ اللہ خیر سلا۔ یہ مرحلہ آج وزیراعظم شہبازشریف اور اپوزیشن لیڈر راجا ریاض کے مابین مشاورت کے عمل کے پہلے مرحلے میں ہی اسمبلی کی تحلیل سے پہلے پہلے خوش اسلوبی کے ساتھ طے ہو جائیگا۔ ادھر اسمبلی تحلیل ہوگی اور ادھر حفیظ شیخ صاحب نگران وزیراعظم بن کر وزیراعظم ہاﺅس میں داخل ہو جائیں گے۔ ہماری حکومتی اور اپوزیشن جماعتوں بشمول پی ٹی آئی کی قیادتوں میں حفیظ شیخ پر انگلی اٹھانے کی بھلا کیونکر مجال ہو سکتی ہے کہ متعلقین کی جانب سے بندوبست ہی یہی ہوا ہے۔
حفیظ شیخ صاحب 2008ءکی اسمبلی میں پیپلزپارٹی کے وزیر خزانہ تھے اور انکے معاملہ میں پیپلزپارٹی کی صفوں میں کہیں ہلکا سا اعتراض بھی نہیں اٹھا تھا۔ انہوں نے اس اسمبلی میں حکومت کا پہلا بجٹ پیش ہوئے ملک کے سارے منتخب ایوانوں کو یہ طعنہ دینا ضروری سمجھا کہ سینیٹ، قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ان ایوانوں میں مجموعی 12 سو منتخب نمائندے بیٹھے ہیں جن میں سے ساڑھے آٹھ سو نمائندے انکم ٹیکس کی مد میں قومی خزانے میں ایک دھیلا بھی جمع نہیں کراتے۔ آپ ان اسمبلیوں کا سارا ریکارڈ کھنگال لیجئے۔ آپ کو حکومتی اور اپوزیشن بنچوں میں سے کسی ایک رکن کا بھی کوئی ایسا بیان نہیں ملے گا جس میں اس نے حفیظ شیخ صاحب کے اس دعوے پر اعتراض یا احتجاج کیا ہو۔ بھائی صاحب! یہ تو ”جنابِ شیخ کا نقشِ قدم یوں بھی ہے اور یوں بھی“ کے مصداق بندوبست والی سکیم کا لازمی جزو ہیں۔ یہ کسی ایک پارٹی کے نہیں بلکہ پورے سسٹم کے ساتھ منسلک کئے گئے ہیں۔ پی ٹی آئی کے اقتدار میں بھی انہیں اسی ناطے سے حصہ بقدر جثہ ملا اور جیسے ہی پی ٹی آئی حکومت کے آئی ایم ایف کے ساتھ بیل آﺅٹ پیکیج کیلئے معاملات سیدھے ہوئے‘ اسدعمر کو دودھ سے مکھی کی طرح نکال کر پرے پھینک دیا گیا اور حفیظ شیخ صاحب کو مشیر خزانہ بنا کر وزارت خزانہ کے سر پر بٹھا دیا گیا۔ وہ تو سینیٹ کے انتخابات میں پیپلزپارٹی نے عمران خان کی عوامی مقبولیت کے زعم میں نقب لگا کر حفیظ شیخ کو سید یوسف رضا گیلانی کے ہاتھوں پچھاڑ دیا ورنہ یہ سینیٹر منتخب ہونے کے بعد مکمل بااختیار وزیر خزانہ بن کر اپنے ذریعے آئی ایم ایف کی ہمارے بندوبستی سسٹم پر دھاک بٹھا دیتے۔ بندوبستی سسٹم کو پیپلزپارٹی کے ہاتھوں یہ پہلا دھچکا لگا تھا مگر بندوبست والوں کے آگے پورے جگرے کے ساتھ کوئی کہاں تک ٹھہر سکتا ہے۔ حفیظ شیخ پیپلزپارٹی کو اسکے اقتدار میں قبول ہو گئے تھے تو اب بلاول کی جانب سےکن اکھیوں سے مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کی بڑی قیادتوں کو دیئے گئے پیغام کی روشنی میں انہیں اور مریم نواز کو بندوبستی سسٹم میں قبولیت کی سند دلوانی ہے تو اس کیلئے پہلی سیڑھی بندوبستی سسٹم کے لازمی جزو حفیظ شیخ کے سر پر مشترکہ طور پر نگران وزارت عظمیٰ کا تاج رکھوانے کی ہے۔ پھر چل سو چل۔
نگران حکومت آئی ایم ایف کا ایجنڈا پورا کرانے کیلئے راندہ ¿درگاہ عوام کو انکے ناکردہ گناہوں کی بھی سزا دیگی تو جناب!
عشق میں مرضیاں نہیں چلتیں
جو کہے اپنا یار، بسم اللہ
٭....٭....٭