چیئر مین پی ٹی آئی کی فوری سزا معطلی کیلئے درخواست مسترد، اڈیالہ جیل منتقلی ، سہولیات فراہمی پر نوٹسز جاری
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت‘ وقائع نگار) اسلام آباد ہائیکورٹ نے چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے خلاف توشہ خانہ کیس میں فوری سزا معطل کرنے کی درخواست مسترد کردی۔ عدالت نے فیصلہ سنانے والی سیشن عدالت سے کیس کا ریکارڈ طلب کر لیا۔ توشہ خانہ کیس کے خلاف درخواست پر سماعت جسٹس عامر فاروق اور جسٹس طارق جہانگیری پر مشتمل دو رکنی ڈویژن بینچ نے کی۔ دوران سماعت وکیل لطیف کھوسہ کا کہنا تھا ٹرائل کورٹ نے چیئرمین پی ٹی آئی کو 3 سال قید اور ایک لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی، ٹرائل کورٹ زیادہ سے زیادہ جو سزا سنا سکتی تھی وہ سنائی گئی، جب تک آپ کی درخواستوں پر فیصلہ نہیں ہوتا تب تک کیس کا فیصلہ نہیں سنایا جاسکتا۔ لطیف کھوسہ نے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کا حق دفاع ختم کیا گیا، حق دفاع ختم کرنے کے خلاف درخواست اس عدالت میں زیر التوا ہے، حق دفاع کا معاملہ زیر التوا ہونے کے باوجود فیصلہ دیا گیا۔ وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ٹرائل کورٹ میں توشہ خانہ کیس کا روزانہ بنیاد پر ٹرائل ہوا، میرے کلرک کو ہائی کورٹ داخل ہونے سے روکا گیا۔ ٹرائل کورٹ میں پہنچ گیا تھا۔ جب جج صاحب آئے تو میں روسٹرم پر تھا، میں نے درخواست دی مگر مجھے مکمل نظرانداز کرتے ہوئے فیصلہ سنانا شروع کر دیا، ٹرائل جج کے آرڈر میں ہماری تو حاضری ہی نہیں لگائی گئی، جج صاحب آرڈر میں لکھ دیتے کہ میں آیا ہوں لیکن مجھے سنا نہیں گیا، اب عدالت دیکھ لے کہ یہ سزا معطلی کا مثالی کیس ہے یا نہیں، یہ ٹرائل ایسے چلایا گیا جیسے ہم روزانہ کوئی آرڈر چیلنج کرنے ہائی کورٹ آتے تھے، ایک طرف ہم ٹرائل چلا رہے تھے دوسری طرف سیشن عدالت کے حکم نامے چیلنج، ٹرائل جج نے انتہائی جلد بازی میں ٹرائل چلایا، ہائی کورٹ نے 2 درخواستوں پر 7 دن میں فیصلہ کرنے کا کہا، ٹرائل جج نے تیسرے ہی دن فیصلہ کر دیا، تیسرے نہ سہی، پانچویں دن فیصلہ کر دیتے، کیا جلد بازی تھی؟۔ چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ خواجہ صاحب نوٹس جاری کیا ہے، جواب آجائے تو پھر دیکھتے ہیں۔ وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ میں ایک دو گزارشات عدالت کے سامنے کرنا چاہتا ہوں، مجھے سنے بغیر ایک فیصلہ لکھ دیا گیا تو اس کی کیا اہمیت ہے، آپ نے 6 ماہ سننے کے بعد یہ فیصلہ کرنا ہے کہ فیصلہ سنے بغیر دیا گیا، کسی گواہ نے نہیں کہا کہ جو کچھ کیا گیا وہ دانستہ اور جانتے بوجھتے تھا، اگر ایسا کچھ لکھا گیا تو وہ جج صاحب نے اپنی جانب سے ہی لکھا ہے۔ خواجہ حارث نے سزا معطلی کی درخواست روزانہ کی بنیاد پر سننے کی استدعا کردی، جس پر چیف جسٹس نے کہا جمعرات کو ممکن نہیں ہوگا۔ اگلے ہفتے کے دوران جلدی تاریخ مقرر کردیں گے۔ عدالت نے چیئرمین پی ٹی آئی کی سزا کے خلاف اپیل پر سماعت ملتوی کر دی۔ دوسری طرف اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق کی عدالت نے چیئرمین پی ٹی آئی کی اٹک جیل سے اڈیالہ جیل منتقلی اور جیل میں سہولیات فراہمی درخواست میں وفاق اور پنجاب حکومت کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے جواب طلب کرلیا۔ گذشتہ روز سماعت کے دوران چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل شیر افضل مروت عدالت پیش ہوئے اور کہاکہ عدالتی حکم کے مطابق کل اٹک جیل گئے لیکن انہوں نے ہمیں اجازت نہیں دی، چیف جسٹس نے استفسار کیاکہ کیا جیل میں ملاقات کا کوئی وقت ہوتا ہے؟، انہوں نے ملاقات نہ کرانے کی کوئی وجہ بتائی کیا؟، جس پر شیر افضل مروت ایڈووکیٹ نے کہاکہ چھ بجے تک ملاقات کا وقت ہوتا ہے، ایک اور واقعہ بھی پیش آیا ہے، حیدر پنجوتھہ ایڈووکیٹ کو کل تفتیش کے نام پر نو گھنٹے ایف آئی اے نے بٹھایا۔ چیف جسٹس نے کہاکہ میرے علم میں آیا ہے، تحقیقات کا مطلب کسی کو ہراساں کرنا نہیں ہوتا۔ شیر افضل مروت ایڈووکیٹ نے کہا کہ اس طرح سے بٹھانا غیر قانونی حراست میں رکھنا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ تفتیش کے نام پر یہ نہیں ہونا چاہیے کہ کسی کو تنگ کیا جائے، شیر افضل مروت ایڈووکیٹ نے کہاکہ کل ایک وکیل کو بلایا آج خواجہ حارث کو بلایا گیا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ میں ایڈمنسٹریٹر سائیڈ پر اس کو دیکھوں گا، چیف جسٹس نے کہا کہ قانون میں قیدی کو جو حق دیا گیا ہے وہ ضرور ملنا چاہیے، ہر کسی کے حقوق ہیں، وکیل سے ملاقات کرانے سے انکار نہیں کیا جا سکتا، آپ صرف یہ خیال رکھیں کہ اس کو سیاسی معاملہ اور وہاں پر رش نہ بنائیں، ایک ایک، دو یا تین وکلاءمل کر چلے جائیں۔ وکیل نے استدعا کی کہ لسٹ کے مطابق اگر عدالت آرڈر کر دے، چیف جسٹس نے کہا کہ لسٹ کے مطابق آرڈر کر دوں گا لیکن سیاسی اجتماع نہ بنائیے گا۔ شیر افضل مروت ایڈووکیٹ نے کہاکہ سارے لوگ ایک دم نہیں جائیں گے، چیف جسٹس نے کہاکہ بس کہنے کا مقصد یہ ہے کہ پچاس لوگ سیاسی اجتماع نہ بن جائے، عدالت نے استفسار کیا کہ اڈیالہ نہیں بلکہ کسی اور جیل میں بھیجنا ہے یہ فیصلہ کون کرے گا؟، میاں نواز شریف نے استدعا کی تھی اور وہ کوٹ لکھ پت جیل چلے گئے تھے، شیر افضل مروت ایڈووکیٹ نے کہاکہ عدالت نے یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ ان کے اس عمل کے پیچھے کوئی بدنیتی تو نہیں ہے، شیر افضل مروت ایڈووکیٹ نے کہا کہ کوئی ایک وجہ نہیں کہ چیئرمین پی ٹی آئی کو اٹک جیل میں رکھا گیا، گھر کا کھانا اور ملاقات سے متعلق عدالت آرڈر کر دے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ میں اس حوالے سے دیکھ لیتا ہوں، وکیل نے استدعا کی کہ عدالت اگر کل کے لئے رکھ دے، چیف جسٹس نے کہاکہ چیئرمین پی ٹی آئی سے ملاقات سے متعلق عدالت آرڈر کرے گی۔ عدالت نے جیل منتقلی سے متعلق درخواست میں وفاق اور پنجاب حکومت کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے سماعت کل جمعہ 11 اگست تک کیلئے ملتوی کردی۔
چیئرمین پی ٹی آئی / سزا